سانحہ مستونگ پر اے پی سی بلانے کا اعلان

اپ ڈیٹ 30 مئ 2015
وزیراعلیٰ بلوچستان عبدالمالک بلوچ، اپوزیشن لیڈرمولانا عبدالواسع کے ہمراہ پریس کانفرنس کے دوران—۔ڈان نیوز اسکرین گریب
وزیراعلیٰ بلوچستان عبدالمالک بلوچ، اپوزیشن لیڈرمولانا عبدالواسع کے ہمراہ پریس کانفرنس کے دوران—۔ڈان نیوز اسکرین گریب

کوئٹہ: وزیراعلیٰ بلوچستان عبدالمالک بلوچ نے سانحہ مستونگ پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اس تناظر میں آل پارٹیز کانفرنس (اے پی سی) بلانے کا اعلان کیا ہے۔

کوئٹہ میں اپوزیشن لیڈرمولانا عبدالواسع اور دیگر رہنماؤں کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیراعلیٰ بلوچستان کا کہنا تھا کہ وہ متاثرہ خاندانوں کے غم میں برابر کے شریک ہیں۔

انھوں نے صوبے میں 3 روزہ سوگ کا اعلان کیا اور کاروباری حضرات سے اپیل کی کہ وہ متاثرہ خاندانوں سے اظہارِ یکجہتی کرتے ہوئے اپنا کاروبار بند رکھیں۔

وزیراعلیٰ بلوچستان نے پارلیمانی جماعتوں کا شکریہ ادا کیا، جن کی وجہ سے اس سانحے کا ردعمل کافی کم ہوا، جبکہ ان کا کہنا تھا کہ ہماری کوشش ہے کہ سانحہ مستونگ جیسا بھیانک واقعہ دوبارہ نہ ہو۔

وزیراعلی بلوچستان کا کہنا تھا کہ ہلاک افراد کے لواحقین کو پالیسی سے ہٹ کر معاوضہ ادا کیاجائے گا جبکہ لواحقین کی جانب سے آل پارٹیز کانفرنس (اے پی سی) بلانے کامطالبہ بھی مان لیا گیا ہے۔

اپوزیشن لیڈر مولانا عبدالواسع کا پریس کانفرنس کے دوران کہنا تھا کہ سانحہ مستونگ بلوچستان اور پاکستان کے خلاف بین الاقوامی سازش ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ سانحہ مستونگ بھی سانحہ صفورا کی طرح تکلیف دہ ہے اور وزیراعظم نواز شریف اور آرمی چیف جنرل راحیل شریف اسے بھی سانحہ صفورا کی طرح لیں۔

مولانا عبدالواسع نے ہلاک ہونے والے لواحقین کا شکریہ ادا کیا جنھوں نے وزیراعلیٰ بلوچستان سے ملاقات کے بعد دھرنا ختم کرنے کا اعلان کیا۔

انھوں نے بتایا کہ متاثرہ خاندانوں کو ہر ممکن امداد کی یقین دہانی کرائی گئی ہے۔

سانحہ مستونگ: ہلاکتوں کی تعداد 22 ہوگئی

ضلع مستونگ میں گزشتہ روز دہشت گردوں کی فائرنگ کے نتیجے میں ہلاکتوں کی تعداد 22 ہوگئی ہے، جبکہ ہلاک ہونے والے افراد کے لواحقین نے گورنر ہاؤس کے باہر احتجاج کیا۔

یاد رہے کہ گزشتہ روز بلوچستان کے ضلع مستونگ میں 15سے 20 اغوا کاروں نے پشین سے کراچی آنے والی دو مسافر بسوں کے 30 سے زائد مسافروں کو اغوا کیا، جن میں سے 5 کو رہا کردیا گیا۔

ان مغویوں کو پہاڑوں میں لے جایا گیا ، تاہم جب سیکیورٹی فورسز اطلاع ملنے پرعلاقے میں پہنچیں تو شرپسندوں نے فائرنگ کردی جس کے نتیجے میں 20 یرغمالی مسافرہلاک ہوگئے، جبکہ زخمیوں میں سے دو مسافروں نے ہفتے کو دم توڑا۔

مزید پڑھیں:مستونگ میں مغوی مسافروں پر فائرنگ، 20 ہلاک

نمائندہ ڈان نیوز کے مطابق اب تک سانحہ مستونگ میں 22 افراد ہلاک، 2 زخمی جبکہ کچھ لاپتہ ہیں۔

لواحقین کا احتجاج

سانحہ مستونگ میں ہلاک ہونے والے افراد کے لواحقین نے میتوں کے ہمراہ احتجاج کیا—۔ڈان نیوز اسکرین گریب
سانحہ مستونگ میں ہلاک ہونے والے افراد کے لواحقین نے میتوں کے ہمراہ احتجاج کیا—۔ڈان نیوز اسکرین گریب

سانحہ مستونگ کے زخمیوں اور ہلاک شدگان کی میتوں کو سول ہسپتال کوئٹہ منتقل کیا گیا تھا، جہاں ہفتے کی صبح ہلاک ہونے والے افراد کے لواحقین نے احتجاج کیا۔

بعد ازاں رکن صوبائی اسمبلی نصراللہ، ورثاء کے ساتھ مذاکرات کے لیے تاہم پہنچے تاہم دونوں فریقین کسی نتیجے پر نہ پہنچ سکے۔

جس کے بعد سانحہ مستونگ میں ہلاک افراد کے لواحقین میتیں لے کر گورنر ہاؤس کے سامنے پہنچے اور وہاں دھرنا دیا،اس موقع پر وزیراعلیٰ ہاؤس اور گورنر ہاؤس کی سیکیورٹی سخت کردی گئی تھی۔

تاہم وزیراعلیٰ بلوچستان عبدالمالک بلوچ کے ساتھ مذاکرات کے بعد لواحقین نے احتجاج ختم کردیا۔

ہلاک ہونے والے افراد کے لواحقین نے گورنر ہاؤس کے باہر احتجاج کیا جسے مذاکرات کے بعد ختم کردیا گیا—۔فوٹو/ اے ایف پی
ہلاک ہونے والے افراد کے لواحقین نے گورنر ہاؤس کے باہر احتجاج کیا جسے مذاکرات کے بعد ختم کردیا گیا—۔فوٹو/ اے ایف پی

سرچ آپریشن کے دوران 7 عسکریت پسند ہلاک

دوسری جانب بلوچستان کے وزیر داخلہ میر سرفراز بگٹی کا کہنا ہے کہ مستونگ کے پہاڑی علاقوں میں جاری سرچ آپریشن کے دوران 7 عسکریت پسند ہلاک کردیئے گئے ہیں۔

انھوں نے بتایا کہ فرنٹیئر کورپس (ایف سی) کے 500 اہلکار سرچ آپریشن میں حصہ لے رہے ہیں جبکہ ہیلی کاپٹروں سے بھی مدد لی جارہی ہے۔

یاد رہے کہ رواں برس اپریل میں بھی شرپسندوں نے تربت شہر سے تقریباً پندرہ کلومیٹر کے فاصلے پر گوگدان کے علاقے میں ایک تعمیراتی کمپنی کے کیمپ پر حملہ کرکے 20 محنت کشوں کو قتل اور متعدد کو زخمی کردیا تھا۔

مزید پڑھیں:تربت: 20 مزدورقتل، غفلت پر 8 لیویز اہلکار گرفتار

اس حوالے سے بلوچستان کے وزیرداخلہ سرفراز بگٹی کا کہنا تھا کہ بلوچوں کے لسانی بنیادوں پر قتل میں ملوث گروپس کو ہندوستانی انٹیلی جنس ایجنسی 'را' کی مدد حاصل ہے۔

یہ بھی پڑھیں: تربت سانحے میں 'انڈین انٹیلیجنس ایجنسی' ملوث

ان کا دعویٰ تھا کہ مزدوروں کے قتل میں ملوث دہشت گرد گروپوں کو 'دشمن' کی جانب سے فنڈنگ اور ٹریننگ ملی ۔

وزیر داخلہ بلوچستان سرفراز بگٹی کا یہ بھی کہنا تھا کہ مارنے والوں کا تعلق کسی قوم سے نہیں بلکہ تربت میں پاکستانی مارے گئے ہیں۔

4:

ضرور پڑھیں

تبصرے (2) بند ہیں

azhar May 30, 2015 12:30pm
جب تک اچھے اور برے دہشت گروں کا امتیاز ختم نہیں ہوگا، اور حکومتی ادارے اور ایجنسیاں دوغلا پن ختم نہیں کریں گے ، مستونگ جیسے واقعات پیش ٓآتے رہیں گے، بلوچستان کو بچانا ہے تو کالعدم تنظیم مذہبی ہو یا لسانی سب کے خلاف بلاامتیاز آپریشن کرنا ہوگا
عادل عمر May 30, 2015 02:34pm
پاکستانی ریاست کے ذمہ دار شاید دہشت گردی ختم کرنے میں سنجیدہ نہیں ۔ گذشتہ کئی عشروں سے پاکستان میں کسی نہ کسی شکل میں دہشت گردی جاری ہے ۔ کبھی اس کو روس کے کھاتہ ڈال دیا جاتا ہے ۔ کبھی بھارت ، کبھی طالبان، کبھی ناراض افعان حکومت کے لیکن گزشتہ 25 سالوں سے پاکستان بھر میں دہشت گردی تاحال کسی نہ کسی شکل میں جاری ہے ۔ کبھی نسلی، کبھی فرقہ وارانہ، قتل چاہے ۔ شعیہ ہو یا سنی، بلوچی ہو یا پنجابی، سندھی ہو پختوان ، ہندو یا مسلمان ، قتل تو ایک بے گناہ انسان ہی ہوتا ہے ۔ ریاست کے ذمہ داروں کی درستگی کے لئے بس دعا کی جاسکتی ہے