میں نہ سیکھوں کی عجب سیاست

ایس ایس یو کے نقاب پوش کمانڈوز سندھ ہائیکورٹ کی جانب بڑھ رہے ہیں — آن لائن فوٹو
ایس ایس یو کے نقاب پوش کمانڈوز سندھ ہائیکورٹ کی جانب بڑھ رہے ہیں — آن لائن فوٹو

غلطی پر غلطی، غلطی نہیں سرکشی ہوتی ہے، اور پاکستان پیپلز پارٹی اس فن میں کمال رکھتی ہے۔ اپنے ہی منشور کے مصنف، اور پہلے سیکریٹری جنرل جے اے رحیم کے ساتھ 1975 میں جو سلوک ہوا، وہی برتاؤ آج کل ڈاکٹر ذوالفقار مرزا اور ڈاکٹر فہمیدہ مرزا سے روا ہے۔

شاہانہ سیاست کے یہ اطوار، کہ دریا دلی پر آئیں تو عدنان خواجہ کو او جی ڈی سی ایل اور توقیر صادق کو اوگرا کا چیئرمین لگا دیں۔ مزاج پر بھاری پڑے تو حسین اصغر جیسے تفتیشی افسروں کو ملازمت سے ہاتھ دھونے پڑ جائیں۔

بدعنوانیوں پر "مٹی پاؤ" کا عارضہ لاحق ہو تو بلند اختر رانا کی دوہری شہریت سمیت سنگین الزامات کی لمبی داستان ایک صدارتی خط سے دھل جائے۔ اندھیر نگری میں چوپٹ راج ایسا کہ چیف جسٹس بلند اختر رانا کی بدعنوانیوں اور اسکینڈلز کی یہ طویل فہرست سامنے رکھ کر آڈیٹر جنرل کا حلف لینے پر مجبور۔

گذشتہ روز مالی بے ضابطگیوں پر بلند اختر رانا کی برطرفی کی خبر کان پڑِی تو ہمارے زخم تازہ ہو گئے کہ گھنٹوں ٹی وی پر بیٹھ کر پی پی کے شترِ بے مہار کی بین بجایا کرتے تھے اور پیپلز پارٹی پر یہ گمان طاری تھا کہ صحافی کی اوقات ہی کیا کہ تیر پر انگوٹھا لگانے والا ووٹر اس پر کان دھرے۔

پی پی اپنی دھن میں رہی اور پانچ سال میں ووٹر نے کان بھی کھلے رکھے اور آنکھیں بھی۔ اسی باخبری نے ملک گیر جماعت کو لیاری کے کوزے میں بند کر دیا۔ کل جب عدالتی احاطے میں ماسک پہنے سرکاری کمانڈوز اترے اور ٹھڈوں، گھونسوں، مکوں اور لاتوں سے میڈیا اور ذوالفقار مرزا کے ذاتی محافظوں کو سبق سکھانے کی کوشش کی، تو اندازہ ہوا کہ ہم واقعی ہی بین بجا رہے تھے۔ جماعت کے نظریات تو بدل گئے لیکن فطرت نہیں۔ موقوف صرف پیپلزپارٹی تک ہی نہیں، سانحہ بلدیہ ٹاؤن سے سانحہ ماڈل ٹاؤن، اور ایبٹ آباد سے ڈسکہ میں وکلاء کو درپیش مناظر بھی اسی رویے کے عکاس ہیں۔

دیکھیے: فہمیدہ مرزا کے سندھ حکومت پر الزامات

ایبٹ آباد میں تصادم کا نتیجہ دو اشخاص پولیس کا نشانہ اور ڈسکہ میں پنجاب پولیس کے ہاتھوں دو وکلاء کی اموات بھی جنگل کے قانون کے راج کا اظہار۔

ایک جانب یہ اضطرابی صورتحال تو طرف دیگر بھارتی وزیردفاع کی ہرزہ سرائی پر کشیدہ حالات۔ یہ دھمکی کہ "دہشت گرد سے دہشت گرد کے ذریعے، اور کانٹے کو کانٹے کے ذریعے نکالا جائے گا" "بغل میں چھری، منہ میں رام رام" کے ہندوستانی حربے کو جہاں پہلی بار سرکاری سطح پر بے نقاب کر گئی ہے، وہیں "را" کی پاکستان میں مکروہ کارستانیوں پر بھی مہرِ تصدیق ثبت ہو چکی۔ مگر حکومت وقت ٹھوس شواہد اور مضبوط ثبوت ہاتھ میں لے کر بھی مصلحت پسندی کا شکار کیوں ہے؟ میں نہ مانوں، میں نہ سیکھوں کی روایت کیوں ہمارے سیاستدانوں اور سیاسی جماعتوں کی رگ رگ میں گھل گئی ہے؟

تبصرے (4) بند ہیں

نجیب احمد سنگھیڑہ May 30, 2015 04:17pm
غلطی پر غلطی میں پیپلز پارٹی کمال کا فن رکھتی ہے، واقعی؟ میرا خیال ہے ایک بار نہیں سو بار پھر غور کر لیا جائے تو بہتر ہو گا کیونکہ پیپلز پارٹی سب پارٹیوں سے انتہائی کم غلطیاں کرتی ہے۔ اور جو غلطیاں ہمیں نظر آتی ہیں، وقت کا مورخ انہیں پیپلز پارٹی کی دانش ثابت کر دیتا ہے۔ اس بارے پیپلز پارٹی کی مفاہمت پسندانہ سیاست کی مثال دینا کافی ہو گا جو پہلے پہل گھٹنے ٹیکنے کے مترادف سمجھا جاتا تھا مگر آج جمہوریت کی پائیداری کے لیے سنگ میل قرار دیا جاتا ہے۔ فہمیدہ مرزا اور ذوالفقار مرزا کی صورتحال ایسی ہے کہ جیسے لوہا گرم ہو تو چوٹ کامیاب لگتی ہے۔ عنقریب یہ ایشو مکمل طور پر پس پردہ چلا جائے گا۔ ایسے ایشو کو غلطیاں قرار دینا سیاست سے نابلدی ہوتی ہے۔ یہ غلطیاں نہیں ہوتیں بلکہ لارا لپا لگائی رکھنا ہوتا ہے۔ جاوید ہاشمی نے بھی تو عمران خان کے خلاف الزامات لگائے تھے، ان کی حیثیت صفر وقت نے ثابت کر دی۔
naveed CHAUDHRY y May 30, 2015 11:20pm
I agree that we do not learn from our wrong doings ( which we do not think are wrong) all are included in this. How about journalists and Lawyes. They also assume that they are above law. Why are not looking at the way they reacted in Duska. Yes the loss of life is very bad must be dealt with as per law but you will call the way Lawyers acted before and after this and similar incidents. Let us start with abiding the law to start with.
ثناء اللہ May 31, 2015 12:30am
اچھا کالم ہے ۔
محمد ارشد قریشی (ارشی) May 31, 2015 12:32pm
پیپلز پارٹی کی قیادت کے لیئے ان کے سنئیر کارکنان کی جانب سے جنھیں سائیڈ لائن لگا دیا گیا ایک شعر یاد آیا۔ کچھ تم نے ہمیں برباد کیا کچھ آگ لگائی لوگوں نے