تاش کی بازی

اپ ڈیٹ 02 جون 2015
شہر میں بم دھماکے کی خبر سن کر تھوڑی دیر کے لیے سارے ہی دوست تاش بھول کر اپنے پیاروں کی فکر کرنے لگے۔ — Creative Commons
شہر میں بم دھماکے کی خبر سن کر تھوڑی دیر کے لیے سارے ہی دوست تاش بھول کر اپنے پیاروں کی فکر کرنے لگے۔ — Creative Commons

وہ بڑے انہماک سے تاش کھیلنے میں مگن تھے، جبکہ ان کا دوست کبابوں کی تیاری میں مصروف تھا۔ پاس ہی ایک چھوٹی ندی بہہ رہی تھی جس میں اچھلتے صاف پانی کی آواز سے مدھر موسیقی کا گمان ہو رہا تھا۔ یہ جولائی کا مہینہ تھا اور گرمی اپنے عروج پر تھی۔ ایسے میں شہر کے مضافات میں واقع یہ سرسبز پہاڑی مقام گرمی کے ستائے افراد کے لیے کسی نعمت سے ہرگز کم نہیں تھا۔

آج چونکہ چھٹی کا دن تھا اس لیے بھیڑ بھی زیادہ تھی، اور لوگ مختلف ٹولیوں میں بیٹھے خوش گپیوں میں مصروف تھے۔ ہر طرف سے ڈھول، موسیقی، اور قہقہوں کی آوازیں بلند ہو رہی تھیں۔ ایسے میں پہاڑی درّے سے آنے والی خنک ہوا میں بسی کبابوں کی اشتہاء انگیز خوشبو انہیں بھوک کا شدت سے احساس دلا رہی تھی۔ کبابوں کے تیار ہونے میں ابھی کچھ وقت باقی تھا اس لیے وہ تاش کھیل کر اپنا وقت بِتانے میں مصروف تھے، تبھی نوید کے موبائل فون کی گھنٹی بجی۔

اس نے ٹٹول کر اپنا موبائل نکالا، ایک نظر اسکرین پر ڈالی، اور ایک بٹن دبا کر فون اپنے کانوں کے ساتھ لگا لیا۔ دوسری طرف اس کی بیوی تھی جو ہیجانی آواز میں کچھ بول رہی تھی۔ اسے کچھ سمجھ نہیں آیا۔ دیکھا تو موبائل کے سگنل ٹھیک کام نہیں کر رہے تھے۔ وہ اپنی جگہ سے اٹھا اور ایک نسبتاَ اونچی جگہ پر جا کھڑا ہوا۔

"نوید تم کہاں ہو؟" بیوی نے رو دینے والی آواز میں پوچھا۔

"میں دوستوں کے ساتھ پکنک پر آیا ہوں، صبح تمہیں بتایا تو تھا۔ لیکن تم رو کیوں رہی ہو؟" نوید نے پریشان ہوکر پوچھا۔

"وہ ٹی وی پر خبریں آرہی ہیں کہ شہر میں ایک بہت بڑا دھماکہ ہوا ہے جس میں بہت سارے لوگ زخمی ہو گئے ہیں۔ مجھے تو بڑا ڈر لگ رہا ہے۔" بیوی نے جواب دیا۔

پڑھیے: انسان، خدا، اور شیطان

"دیکھو ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں، میں یہاں بالکل ٹھیک ہوں۔ ہاں یہ بتاؤ کہ دھماکہ کہاں ہوا ہے اور انور کہاں ہے؟" نوید نے اپنے نوجوان بیٹے کے بارے میں پوچھا۔

"دھماکہ کسی پارک کے قریب ہوا ہے۔ میرا تو دل بیٹھا جا رہا ہے۔ انور کا بھی فون نہیں لگ رہا وہ ایک گھنٹہ پہلے موٹر سائیکل پر گھر سے نکلا تھا۔ کہہ رہا تھا کہ اپنے کسی دوست کے ساتھ گھومنے جارہا ہے۔" یہ کہہ کر بیوی نے ایک بار پھر رونا شروع کردیا۔

اس کے ہاتھ پاؤں پھول گئے۔ اس نے بیوی کو حوصلہ دیتے ہوئے فون بند کردیا اور دوڑتے قدموں سے واپس دوستوں کی طرف جانے لگا۔

تب دوست تاش کی بازی لپیٹ کر دسترخوان بچھا چکے تھے جس پر رکھے کبابوں سے دھواں اٹھ رہا تھا۔

وہ وہاں پہنچا تو اس کے چہرے پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں۔ اس نے پھولی سانسوں کے درمیان دوستوں کو گھر سے آنے والی فون کال کے بارے میں بتایا۔ یہ سن کر تمام دوستوں کے چہرے سفید پڑ گئے اور وہ اپنے اپنے فون نکال کر کال کرنے لگ گئے۔ سب کو اپنوں کی فکر تھی۔

فون کے سگنلز چونکہ پوری طرح نہیں آ رہے تھے اس لیے انہیں چیخ چیخ کر بولنا پڑ رہا تھا، جس کی وجہ سے دیکھتے ہی دیکھتے دھماکے کی خبر وہاں آئے تمام لوگوں تک پہنچ گئی، اور ہر طرف ایک سراسیمگی سی پھیل گئی۔ موقع کی نزاکت دیکھتے ہوئے لوگوں نے موسیقی کی آوازیں بند کردیں اور ایک دوسرے سے واقعے کے بارے میں استفسار کرنے لگے۔ کسی کے پاس چونکہ کوئی ٹھوس اور تفصیلی اطلاع نہیں تھی، اس لیے سب اپنے پیاروں کے بارے میں سوچ کر فکرمند ہونے لگے۔

نوید اس لیے بھی زیادہ پریشان تھا کیونکہ اس کے بیٹے انور کا فون نہیں لگ رہا تھا۔ وہ اس کا اکلوتا بیٹا تھا جو ابھی کالج کا امتحان دے کر فارغ ہوا تھا۔ وہ بڑا نیک اور فرمانبردار لڑکا تھا۔ اس میں بس ایک ہی خامی تھی کہ موقع ملتے ہی اپنے دوستوں کے ساتھ موٹرسائیکل پر گھومنے نکل جاتا تھا۔ لیکن کیونکہ اس کے دوست کافی سلجھے ہوئے اور اچھے گھرانوں کے تھے اور وہ خود بھی ہمیشہ اندھیرا ہونے سے پہلے ہی گھر لوٹ آتا تھا، اس لیے اس کے ماں باپ اس کی اس خامی کو نظر انداز کر دیا کرتے تھے۔ آج بھی وہ اپنے دوستوں کے ساتھ کہیں گھومنے نکلا تھا اور پریشانی کی بات یہ تھی کہ اس سے رابطہ نہیں ہو پارہا تھا۔

مزید پڑھیے: سچ کو کیسے ہرایا گیا؟

خدا خیر کرے! اس کا دل ڈوبنے لگا۔ وہ آہستہ سے ایک بڑے پتھر پر بیٹھ گیا۔ اس کے باقی دوست بھی اس کے قریب آگئے۔ کسی کے پاس کوئی مصدقہ اطلاع نہیں تھی۔ اس لیے سب نے فیصلہ کیا کہ انہیں جلد گھر لوٹ جانا چاہیے۔ انہوں نے جلدی میں اپنا سامان لپیٹنا شروع کیا اور کچھ دور کھڑی گاڑی میں رکھنے لگے۔ دسترخوان بھی اسی طرح لپیٹ دیا گیا جس میں رکھے کبابوں سے اب بھی ہلکا سا دھواں اٹھ رہا تھا۔ ان کی بھوک ختم ہو گئی تھی اور وہ سب کچھ بھول کر دل ہی دل میں بس یہی دعا کر رہے تھے کہ کاش ان کے پیارے خیریت سے ہوں۔

وہ سب گاڑی میں بیٹھ گئے تو نوید نے گاڑی آگے بڑھائی۔ لیکن اس سے پہلے کہ وہ کچا راستہ طے کر کے پکی سڑک پر پہنچتے، انہیں سامنے سے ایک اور گاڑی آتی دکھائی دی جو غالباً شہر کی طرف سے آرہی تھی۔ نوید نے ایک ہی نظر میں گاڑی والے کو پہچان لیا۔ وہ اس کے ہی محلے میں رہنے والا اختر تھا۔ اس نے ہاتھ سے اشارہ کیا تو سامنے سے آنے والی گاڑی رک گئی۔ نوید تیزی سے گاڑی سے اترا اور اختر کے پاس جا کر آج کے واقعے کے بارے میں پوچھنے لگا۔ پھر اس نے جیب سے موبائل نکالا اور ایک مختصر بات چیت کے بعد فون بند کر کے واپس جیب میں رکھ لیا۔

باقی دوست گاڑی میں بیٹھے بے صبری سے اس کا انتظار کر رہے تھے۔ وہ واپس آیا تو اس کے چہرے پر خوشی صاف دکھائی دے رہی تھی۔ اپنی سیٹ پر بیٹھتے ہی اس نے سٹیئرنگ گھمائی اور گاڑی کا رخ واپس موڑ دیا۔

دوست حیران ہوئے اور بیک زبان بول پڑے کہ کیا ہوا، ہمیں بھی تو کچھ بتاؤ؟

"اختر ابھی شہر سے ہی آرہا ہے۔ اس نے بتایا ہے کہ دھماکہ ایک پارک کے گیٹ پر ہوا ہے جس میں پچاس سے زیادہ لوگ ہلاک ہوگئے ہیں۔" نوید نے پرانی جگہ گاڑی روکتے ہوئے مطمئن انداز میں کہا!

"لیکن اس میں خوش ہونے والی کون سی بات ہے اور تم نے گاڑی واپس کیوں موڑ لی" ایک دوست نے پوچھا۔

"خوشی کی بات یہ ہے کہ دھماکے میں ہلاک ہونے والوں میں اپنا کوئی نہیں۔ اب پرائے لوگوں کے غم میں ہم کیوں اپنی پکنک خراب کریں۔ اور ہاں میرا بیٹا بھی بالکل خیریت سے ہے۔ ابھی میں فون پر اسی سے بات کر رہا تھا۔"

نوید کی بات سن کر سب دوستوں کی جان میں جان آئی اور وہ گاڑی سے اتر کر دوبارہ زمین پر دری بچھانے لگے۔ نوید نے دسترخوان کھولا تو کباب اب بھی گرم تھے۔ ان کی بھوک دوبارہ چمک اٹھی تھی، اس لیے سب نے جلدی جلدی ندی میں ہاتھ دھوئے اور کباب پر جھپٹ پڑے کیونکہ انہیں کھانا ختم کر کے پھر سے تاش کی بازی جمانی تھی۔

تبصرے (7) بند ہیں

عادل عمر Jun 01, 2015 06:05pm
زبردست ہر کوئی سوچتا ہے کہ اک میرا گھر نہ جلا
Mazhar Jun 01, 2015 06:39pm
Real painting of our present mentality...
Anwar ul Haq Jun 01, 2015 06:53pm
خود غرضی کی منفرد مثال پیش کی گئی ہے
ثناء اللہ Jun 01, 2015 06:55pm
تلخ حقیقت اور بدقسمتی سے پاکستانی معاشرے کی سچی بدصورت تصویر ۔
A Siddiqui Jun 01, 2015 08:46pm
Jab tak ham aik insan ban kar nahi sochaingai hamara aisa hi khoon hota rahega . Excellent .
Saleem Jun 02, 2015 12:11am
والد صاحب کا انتقال ہوگیا۔ والدہ ماجدہ، چھوٹے بہن بھائی اور میں افسردہ تھے۔ محلہ کی عورتوں نے گھر والوں کو سنبھالا دے رکھا تھا۔ مگر وہ منہ میں کپڑا ٹھوسے، دل پر پتھر رکھے گھٹے گھٹے آنسو بہائے جارہے تھے۔ تھوڑی دیر میں قریب رھنے والے عزیز آنا شروع ہوئے۔ ان میں میری ایک عزیزا تھی۔ ایک وقت تھا جب اس پر بہت کڑا وقت آیا تھا اور سخت مصیبت میں تھی۔ میرے والد اور والدہ نے اس کا دامے، درمے، سخنے نہ صرف ساتھ دیا بلکہ اس کو وہاں سے نکال بھی لائے اور اپنے گھر میں پناھ دی۔ اسے اپنے پیروں پر کھڑا کیا اور اس کا گھر بسا دیا۔ کچھ ہی سالوں بعد اس کا میرے والدین سے اختلاف ہوگیا۔ آنا جانا، بات چیت اور خیر خبر لینا دینا بند ہوگیا۔ والد صاحب ١۹۷۰ میں جوں بستر علالت پر گرے تو ١۹۹۰ میں چلتے پھرتے بیماری سے لڑتے بیروزگاری کی حالت میں دنیا چھوڑگئے۔ اس دؤران شاید ہی کبھی خبر لی ہو۔ والد صاحب کے مماتی کا سن وہ آئیں اور گھر میں گھستے ہی دھاڑیں مارکر رونے لگیں۔ میں نے انہیں دھاڑیں مارکر رونے سے منع کیا تو اپنا منہ میرے کانوں کے پاس لاکر آھستہ سے کہنے لگیں، ایسے رونا پڑتا ہےإ میری آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔
Sadaf Jun 02, 2015 10:38am
Beautifully written,the end is shocking and thought provoking.