'عسکریت پسندوں کے حملے عروج پر'

02 جون 2015
عسکریت پسندوں نے اپنی حکمت عملی تبدیل کرلی ہے اور وہ اب عام لوگوں کی طرز کے نرم اہداف کو نشانہ بنارہے ہیں۔ —. فائل فوٹو اے ایف پی
عسکریت پسندوں نے اپنی حکمت عملی تبدیل کرلی ہے اور وہ اب عام لوگوں کی طرز کے نرم اہداف کو نشانہ بنارہے ہیں۔ —. فائل فوٹو اے ایف پی

اسلام آباد: 2014ء کے وسط میں فوجی آپریشن ضربِ عضب شروع ہونے کے بعد دہشت گرد حملوں میں ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد میں کمی آئی تھی، تاہم اب اس میں اضافے کا رجحان ظاہر ہوا ہے۔

ایک تھنک ٹینک، پاکستان انسٹیٹیوٹ برائے تنازعات اور سیکیورٹی اسٹڈیز کی جانب سے جاری کی گئی سیکیورٹی تجزیے پر مبنی ماہانہ رپورٹ کے مطابق اپریل کے مقابلے میں مئی کا ریکارڈ ظاہر کرتا ہے کہ ملک بھر میں عسکریت پسندوں کی سرگرمیوں میں 33 فیصد سے زیادہ کا اضافہ ہوا ہے، ہلاکتوں کی تعداد میں 60 فیصد سے زیادہ کا اضافہ اور زخمیوں کی تعداد میں 16 فیصد سے زیادہ کا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

رپورٹ کا کہنا ہے کہ عسکریت پسندوں نے اپنی حکمت عملی تبدیل کرلی ہے اور وہ اب عام لوگوں کی طرز کے نرم اہداف کو نشانہ بنارہے ہیں۔

مئی کے دوران عسکریت پسندوں اور باغیوں کی جانب سے ریاست مخالف تشدد کے 162 واقعات ریکارڈ کیے گئے، جس میں 311 افراد ہلاک ہوئے، 136 زخمی اور تین کو اغوا کیا گیا۔ تقریباً 503 مشتبہ افراد کو سیکیورٹی فورسز نے گرفتار کیا۔

162 پرتشدد واقعات میں سے 75 عسکریت پسندوں سے منسوب کیے گئے، جو 175اموات اور 116 افراد کو زخمی کرنے کا سبب بنے۔

سوائے فاٹا کے ملک کے تمام حصوں میں عمومی طور پر اور بلوچستان میں خاص طور پر عسکریت پسند حملوں کی تعداد میں اضافہ دیکھا گیا۔ درحقیقت فاٹا میں ان حملوں کی تعداد میں 21 فیصد تک کمی دیکھنے میں آئی ہے۔

بلوچستان میں عسکریت پسند حملوں میں تقریباً 62 فیصد تک اضافہ ہوا ہے، جس کے نتیجے میں ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد بھی تقریباً 32 فیصد تک بڑھ گئی ہے، جبکہ زخمیوں کی تعداد میں 37 فیصد سے زیادہ کا اضافہ ہوا ہے۔

سندھ میں ان حملوں کی تعداد 50 فیصد اور خیبرپختونخوا میں 22 فیصد تک بڑھی ہے۔

اس رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ اگرچہ عسکریت پسند اہم اہداف جیسے فوجی تنصیبات پر حملے کرنے کے قابل نہیں رہے ہیں، (سوائے کراچی میں پولیس افسروں کی ٹارگٹڈ کلنگ کے)، تاہم وہ عام آبادی جیسے نرم اہداف کو نشانہ بنانے میں کافی سرگرم پائے گئے ہیں۔

مئی 2015ء میں دو ہائی پروفائل حملے دیکھے گئے، جن میں سے ایک کراچی میں اسماعیلی برادری اور دوسرا مستونگ میں پشتونوں پر حملہ تھا۔

اس کے علاوہ صدر ممنون حسین کے بیٹے کو ایک دیسی ساختہ بم دھماکے کے ذریعے نشانہ بنایا گیا تھا، لیکن وہ اس میں محفوظ رہے۔

بلوچستان میں مئی کے دوران 34 عسکریت پسند سرگرمیوں کا مشاہدہ کیا گیا، جس میں 44 افراد ہلاک اور 51 زخمی ہوئے۔

پاکستان انسٹیٹیوٹ برائے تنازعات اور سیکیورٹی اسٹڈیز کی رپورٹ کا کہنا ہے کہ ’’بلوچستان میں ہندوستانی انٹیلی جنس ایجنسی کے ملوث ہونے کے الزامات عائد کیے گئے، اور اس طرح کی پالیسی کو ہندوستانی وزیرِ دفاع کی جانب سے تسلیم بھی کیا گیا۔اس صوبے میں تشدد کی لہر کے تازہ ترین اضافے میں بیرونی ہاتھ دیکھا گیا ہے، جس کا بظاہر مقصد پاکستان چائنا اقتصادی راہداری کو نقصان پہنچانا ہے۔‘‘

مستونگ میں بس کے پشتون مسافروں کے قتل عام نے صوبے میں پہلے سے قائم امن و امان کی نازک صورتحال کو ایک نئی سمت دی ہے۔

پی آئی سی ایس ایس کا کہنا ہے کہ ’’پشتون آبادی کو نشانہ بنانے کا مقصد بلوچ اور پشتونوں کے درمیان اختلافات پیدا کرنا ہے، جس سے صوبے کی سماجی اور سیکیورٹی کی حالت پر دور رس اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔‘‘

اس رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ 22 اپریل سے 28 مئی کے دوران دیسی ساختہ بم حملوں میں اضافہ ہوا ہے، جس میں گیارہ سے اکیس افراد کو نشانہ بنا کر ہلاک کیا گیا۔

پی آئی سی ایس ایس کی جانب سے اکھٹا کیے گئے اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ مئی کے مہینے کے دوران سیکیورٹی فورسز کی 87 کارروائیاں کی گئیں، جس سے اس طرح کی سرگرمیوں میں معمولی کمی دیکھی گئی۔ ان کارروائیوں میں 137افراد ہلاک جبکہ 12 زخمی ہوگئے۔

آئی ایس پی آر کے سابق ڈائریکٹر جنرل اختر عباس نے ڈان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ فوج دہشت گردوں کو ہلاک کرسکتی ہے، لیکن دہشت گردی کا خاتمہ نہیں کرسکتی۔

انہوں نے کہا کہ انتہاء پسندوں کی توجہ نرم اہداف کی جانب مبذول ہونے کی دو وجوہات ہیں۔

اختر عباس نے کہا کہ ’’پہلی وجہ یہ ہے کہ طالبان اپنے قبائلی علاقے سے محروم ہوگئے ہیں، جسے وہ تنصیبات پر حملے سے پہلے منصوبہ بندی اور مشقوں کے لیے استعمال کرتے تھے۔ اب وہ مذہبی اور کالعدم تنظیموں میں اپنے حمایتیوں کو دہشت گردی کے لیے استعمال کررہے ہیں، جو نرم اہداف کو ہی نشانہ بناسکتے ہیں، اس لیے کہ ان کے پاس طالبان کی مانند مشقوں کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔‘‘

انہوں نے کہا کہ ’’دوسری وجہ یہ ہے کہ اب طالبان کھل کر سامنے آگئے ہیں، اس لیے کہ وہ جانتے ہیں کہ ان کے لیے عوام میں کوئی ہمدردی موجود نہیں ہے۔ انتہاءپسندوں کی پوزیشن کمزور ہوگئی ہے اور اب یہ سول انتظامیہ کا کام ہے کہ وہ دہشت گردی کے خاتمے کا آغاز کرے، اس لیے کہ ایسا صرف سول محکموں کی جانب سے ہی کیا جاسکتا ہے۔‘‘

سیکیورٹی اور دفاع کے تجزیہ نگار بریگیڈیئر محمود شاہ نے کہا کہ طالبان اب پیچھے ہٹنے پر مجبور ہورہے ہں، اس لیے کہ لوگوں نے ان کے خلاف بات کرنا شروع کردی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’’اب سول محکموں کو دہشت گردی کے خاتمے کے لیے مضبوط بنایا جائے۔ حکومت کے کئی دعووں کے باوجود نیکٹا کو حقیقی معنوں میں متحرک نہیں کیا گیا ہے۔ محکموں کو فعال بنایا جائے تو وہ فوج کی جانب سے حاصل ہونے والی کامیابیوں کا زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل کریں گے۔‘‘

تبصرے (0) بند ہیں