انڈین فنڈنگ کاالزام:متحدہ رہنما کا'انٹرویو' منظرعام پر

اپ ڈیٹ 27 جون 2015
ایم کیو ایم کے حوالے سے بی بی نے ایک ڈاکومینٹری نشر کی تھی ۔۔۔ فائل فوٹو: بشکریہ mqm.org
ایم کیو ایم کے حوالے سے بی بی نے ایک ڈاکومینٹری نشر کی تھی ۔۔۔ فائل فوٹو: بشکریہ mqm.org

کراچی: سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ پر لندن پولیس کی چند مبینہ دستاویزات سامنے آئی ہیں جن میں متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے رہنما کی جانب سے ہندوستان کی خفیہ ایجنسی را (ریسرچ اینڈ اینالسز ونگ) سے روابط کا انکشاف کیا گیا ہے۔

یہ دستاویزات متحدہ قومی موومنٹ کے ایک سینئر رہنما کے مبینہ طور پر لندن پولیس کو دیئے گئے بیان پر مشتمل ہے۔

متعدد صفحات پر مشتمل ایجوئر پولیس کو دیے گئے مبینہ انٹرویو میں ایم کیو ایم رہنما طارق میر کا کہنا ہے کہ ان کی جماعت کو ہندوستانی حکومت کی حمایت حاصل تھی جبکہ پارٹی قائد الطاف حسین کو ہندوستان سے فنڈنگ ملتی تھی۔

خیال رہے کہ طارق میر کو مئی 2012 میں ایم کیو ایم کی سینئر قیادت کے خلاف منی لانڈرنگ کیس کے سلسلے میں لندن پولیس نے ایجوئر پولیس اسٹیشن میں کچھ دیر کے لیے حراست میں لیا تھا۔

ایجویر پولیس اسٹیشن میں دیئے گئے بیان میں ایم کیو ایم کے رہنما نے کہا کہ " الطاف حسین ہندوستان سے پیسے لیتے رہے ہیں، جو ان کو مختلف ذرائع سے موصول ہوتے تھے" ۔

ان دستاویزات کے بارے میں واضح نہیں ہو سکا ہے کہ یہ کس نے جاری کیے ہیں، اس حوالے سے ڈان ڈاٹ کام نے لندن پولیس سے رابطہ کیا تو اس کے پریس آفس کی جانب سے کوئی تبصرہ کرنے سے انکار کیا گیا کہ جن افراد کے انٹرویو کیے جاتے ہیں ان پر کسی قسم کا تبصرہ نہیں کر سکتے۔

دوسری جانب لندن میں مقیم نجی ٹی وی چینل جیو نیوز کے ایک رپورٹر نے ٹوئیٹ کیا کہ طارق میر نے کہا ہے کہ وہ دستاویز پر کوئی تبصرہ نہیں کریں گے۔

دستاویزات کے مطابق طارق میر نے لندن پولیس کو یہ انٹرویو 3 سال قبل مئی 2012 میں دیا تھا۔

طارق میر کو "ٹی ایم" کا نام دیا گیا ہے،دستاویزات میں ٹی ایم نے مبینہ بیان میں کہا کہ "ہندوستانی حکومت نے ہماری اس لیے حمایت کی کیوں کہ انہیں لگتا تھا کہ یہ ان کے لیے اچھا رہے گا"

اس کے بعد کی تحریری کو سیاہ مارکر سے مٹا دیا گیا ہے۔

مزید کہا گیا ہے کہ "مجھے یاد نہیں کہ میں کب ہندوستانیوں سے پہلی مرتبہ ملا لیکن میں ان سے ملا ضرور تھا"۔

ٹی ایم کا کہنا تھا کہ میری سمجھ کے مطابق ان افراد کا تعلق "را" سے تھا، ان میں ایک اعلیٰ افسر بھی موجود تھا، جسے وزیراعظم یا سینئر قیادت تک رسائی حاصل تھی۔

را کی جانب سے ممکنہ فنڈنگ کے حوالے سے طارق میر کا کہنا تھا کہ انہیں یاد نہیں کہ کتنے پیسے طلب کیے گئے تھے تاہم ان کے خیال سے یہ رقم 15 لاکھ (1.5ملین) امریکی ڈالر تھی۔

انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ پہلی ملاقات شاید روم (اٹلی) میں ہوئی تھی، یہ ملاقاتیں اس وقت ہی ہوتی تھیں جب وہ ملاقات کرنا چاہتے تھے۔

ٹی ایم کا کہنا تھا کہ ہمیں یقین تھا ہندوستانی افراد اپنے اصلی نام ہم پر ظاہر نہیں کرتے۔

لندن پولیس کو دیئے گئے بیان میں طارق میر نے بتایا کہ ان معلومات کو صرف 4 افراد ہی جانتے تھے کیونکہ ہم نہیں چاہتے تھے کسی کو علم ہو کہ ایم کیو ایم ہندوستان سے فنڈز وصول کررہی ہے، "یہ سب بہت خفیہ تھا"۔

"ایم کیوایم خود ساختہ بیان کی تحقیقات کر رہی ہے "

طارق میر کے حالیہ بیان پر متحدہ قومی موومنٹ کی رابطہ کمیٹی نے 2 لائن کا ایک بیان جاری کیا۔

رابطہ کمیٹی کے بیان میں کہا گیا کہ متحدہ قومی موومنٹ برطانیہ کے سینئر رکن طارق میر سے منسوب کر کے میڈیا میں چلائے جانے والے مبینہ بیان ایم کیو ایم کے میڈیا ٹرائل کا تسلسل ہے ۔

رابطہ کمیٹی نے کہا کہ ایم کیوایم اس خود ساختہ بیان کی تحقیقات کر رہی ہے۔

یہ بھی بتایا گیا کہ اس بارے میں ایم کیو ایم کی لیگل ٹیم متعلقہ برطانوی تحقیقاتی اداروں سے رابطے میں ہے ۔

طارق میر متحدہ قومی موومنٹ کا حصہ

ایم کیو ایم کے ایک عہدیدار نے ڈان ڈاٹ کام کو بتایا کہ طارق میر طویل عرصے سے متحدہ کے ساتھ وابستہ رہے ہیں اور وہ رابطہ کمیٹی کے رکن بھی رہ چکے ہیں۔

انہوں نے تصدیق کی کہ طارق میر ابھی بھی ایم کیو ایم کا حصہ ہیں۔

ایک ایم کیو ایم ترجمان نے کہا کہ انہیں اس دستاویز کا علم ہے تاہم وہ اس وقت اس پر مزید تبصرہ نہیں کرسکتے۔

بی بی سی کی رپورٹ : 'ہندوستان سے ایم کیو ایم کو مالی مدد ملتی رہی'

خیال رہے کہ اس سے قبل رواں ہفتے برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی نے ایک ڈاکومینٹری رپورٹ پیش کی تھی، جس میں ایم کیو ایم پر ’را‘ سے فنڈنگ لینے اور کارکنوں کی تربیت کا الزام لگایا گیا تھا۔

رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ برطانیہ میں ایم کیو ایم کے رہنما کی رہائش گاہ سے منی لانڈرنگ کی رقم اور ہتھیاروں کی فہرستیں بھی حاصل ہوئی تھی۔

یاد رہے کہ برطانیہ میں ایم کیو ایم کے خلاف تحقیقات کا آغاز 2010 میں اس وقت کیا گیا جب سینئر پارٹی رہنما عمران فاروق کو ان کے گھر کے باہر قتل کر دیا گیا۔

اسی تحقیقات کے دوران تحقیقاتی حکام کو ایم کیو ایم کے لندن آفس اور الطاف حسین کے گھر سے 5 لاکھ پاؤنڈ بھی ملے تھے۔

اس کے بعد ایم کیو ایم کے خلاف ممکنہ منی لانڈرنگ کی تحقیقات بھی شروع کی گئی جو کہ ابھی بھی جاری ہیں۔

اپریل میں منی لانڈرنگ کے الزام کے سلسلے میں الطاف حسین کی ضمانت میں 9 جولائی تک تو سیع کی گئی تھی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (3) بند ہیں

Khuram Jun 27, 2015 12:35pm
اسے الزامات کا یم کیو ایم کو جواب دینا پڑے گا۔ اب کسی بھی سیاسی مصلحت کو درمیان سے نکال کے ملک و قوم کے غداروں کا حساب کرنا ہو گا تاکہ پاکستان سے یہ موذی بلائیں ہمیشہ کے لئے ختم کر دی جائیں۔ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو سرخرو فرمائے جو گمنام رہ کر وطن کی حفاظت اور سالمیت کا دفاع کر رہےہیں۔ آمین
Haider Shah Jun 27, 2015 02:48pm
No Surprise at all, bit more wider digging you will be shock who else are precipitant of US$. From top to grass root all are the beneficiary as they all have water tide relation "today you scratch my back I will tomorrow"
MIAN ABDUL WAHID Jun 28, 2015 12:22am
BILQUL TAHQEQAAT HONI CHAHIYEN JURM SABAT HONE PAR WATNE AZIZ KI SALMEYAR SE KEHLNE WALO KO NISHANE IBRAT BANA DIYA JAE ( QOM KI NAZREN APNI AFWAG KI TARAF LAGI HAN )