جنید مہلک ہتھیار نہیں رہے

29 جون 2015
۔ — فائل فوٹو
۔ — فائل فوٹو

جنید خان نے اچھی لینتھ پر ایک باؤنسر پھینکی لیکن سری لنکن بلے باز کتھوروان وتھاناگے نے پُل سٹروک کھیلتے ہوئے گیند کو مڈ وکٹ کے راستے باؤنڈری کی راہ دکھا دی۔

ای ایس پی این کرک انفو کی ایک رپورٹ کے مطابق، ایک وقت تھا جب باؤنسر جنید کا مہلک ہتھیار ثابت ہوتی تھی لیکن رواں سال بنگلہ دیش دورے سے یہ ہتھیار مزید خطرناک نہیں رہا۔

کولمبو میں کھیلے گئے دوسرے ٹیسٹ کے آخری دن جنید کو محض دو اوورز کے بعد ہی باؤلنگ سے ہٹا لیاگیا۔ انہوں نے دوسری اننگز میں چار اوورز میں 30 رنز ریتے ہوئے کوئی وکٹ حاصل نہیں کی۔

میچ کی پہلی اننگز میں وہ 89 رنز دے کر صر ف ایک وکٹ ہی حاصل کر پائے تھے جبکہ گال میں کھیلے گئے پہلے ٹیسٹ میں وہ مکمل ناکام رہے۔

اس پرفارمنس کو دیکھتے ہوئے خدشہ ہے کہ انہیں تیسرے ٹیسٹ میں جگہ نہ مل سکے کیونکہ پاکستانی کپتان مصباح الحق کہہ چکے ہیں کہ جنید کی فارم ٹیم کیلئے ’تشویش کا سبب‘ ہے۔

کولمبو ٹیسٹ میں سات وکٹوں سے ہارنے کے بعد مصباح نے جنید کا ذکر کرتے ہوئے کہا ’مجھے بالکل معلوم نہیں کہ اس(جنید) کے ساتھ کیا ہورہا ہے، میرے خیال میں انجری کے بعد وہ مکمل اعتماد اور ردھم حاصل نہیں کر پائے‘۔

’ہمیں امید تھی کہ ایک دو میچ کھیلنے کے بعد وہ اپنی کھوئی ہوئی فارم حاصل کر لیں گے لیکن شاید ایسا نہیں۔ دیکھیں آگے کیا ہوتا ہے۔ہمارے پاس تین سیمرز کی شکل میں آپشنز موجود ہیں اور پالی کیلے میں کنڈیشنز کو دیکھتے ہوئے فیصلہ کریں گے‘۔

جنید 2010 میں میچ فکسنگ سکینڈل کے بعد عالمی کرکٹ میں آئے اور ان کی کامیابیوں سے پاکستان کو محمد آصف اور محمد عامر کی کمی زیادہ محسوس نہیں ہوئی۔

انہوں نے اپنے دوسرے ہی ٹیسٹ میچ میں پانچ وکٹیں حاصل کیں اور اس طرح ٹیم کے فرنٹ لائن فاسٹ باؤلر بن گئے۔

انہوں نے چودہ ٹیسٹ مقابلوں میں 50 وکٹیں حاصل کیں جبکہ عامر کی اتنے ہی میچوں میں51 وکٹیں تھیں۔جنید کی واسط 27.54 جبکہ عامر کی 29 رہی۔

2011 اور 2014 کے دوران وہ سعید اجمل کے بعد پاکستان کے سب سے اہم باؤلر ثابت ہوئے۔ مصباح نے ایک دفعہ دونوں کی تعریف کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’سعید اور جنید جیسے باؤلر میری زندگی آسان بنا دیتے ہیں‘۔

جنید نے سیکیورٹی وجوہات کی بنا پر ہوم سیریز سے محروم پاکستان کو 2010 کے بعد دوبارہ اپنے قدموں پر کھڑےہونے میں مدد فراہم کی۔

تاہم، چار سال بعد یہی جنید سری لنکا دورے پر آئی پاکستان ٹیم کے باؤلنگ اٹیک کی سب سے کمزور کڑی دکھائی دیتے ہیں کیونکہ ان کی باؤلنگ میں تیزی اور موومنٹ ختم ہو رہی ہے، لائن اور لینتھ میں تسلسل نہیں اور ان کی موجودگی حریف بلے بازوں کیلئے خطرہ نہیں۔

اس دورے سے قبل جنید سری لنکا کے خلاف ہمیشہ کامیاب رہے تھے۔ان کی 70 وکٹوں میں 49 سری لنکا کے خلاف تھیں۔

جنید کے مسائل کاآغاز اکتوبر،2014 میں اس وقت ہوا جب گھٹنے میں فریکچر کی وجہ سے وہ یو اے ای میں آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے خلاف ہوم سیریز کا حصہ بننے سے محروم رہے۔

صحت یابی کے بعد انہیں نیوزی لینڈ میں ون ڈے سیریز کیلئے منتخب کیا گیا لیکن لاہور کی نیشنل کرکٹ اکیڈمی میں تربیت کے دوران وہ زخمی ہو ئے اور نیوزی لینڈ دورے اور بالا آخر ورلڈ کپ سے باہر ہو گئے۔

جنید اپنی واپسی کے بعد سے چار ٹیسٹ میچوں میں چھ وکٹیں ہی حاصل کر پائے ہیں اور یہ ان کے کیرئیر کی سب سے خراب پرفارمنس ہے۔

یہاں یہ دلیل دی جا سکتی ہے کہ عالمی کرکٹ میں فوری واپسی کی بجائے جنید کو پہلے پاکستان میں پریکٹس میچ کھیلنا چاہیےتھے۔وہ اپنی بحالی کے زمانے میں این سی اے میں نیٹس میں باؤلنگ کرتے رہے تھے لیکن تقریباً آٹھ مہینے کرکٹ سے دور رہنے کے بعد بنگلہ دیش دورے پر جانے سے قبل انہوں نے کوئی پریکٹس میچ نہیں کھیلا۔

اب زخمی وہاب ریاض کی جگہ راحت علی کے آنے سے اور بینچ پر احسان عادل اور عمران خان کی موجودگی سے شاید جنید پالی کیلے میں کھیلتے نظر نہ آئیں۔

پاکستان کے سابق کپتان رمیز راجہ کہتے ہیں’انہیں ڈراپ کیا جا سکتا ہے اور ایسا کیوں نہ کیا جائے؟‘

’وہ شاید اپنا پیس کھو بیٹھے ہیں اور انجری کے بعد ایسا ہو جاتا ہے، تاہم وہ وقت کے ساتھ ساتھ اپنا کھویا اعتماد واپس لا سکتے ہیں‘۔

بشکریہ ای ایس پی این کرک انفو

تبصرے (0) بند ہیں