نریندرا مودی کی بیٹیوں کے ساتھ سیلفی کی اپیل

اپ ڈیٹ 03 جولائ 2015
مودی کے ٹوئٹر پر فالورز کی تعداد 13 ملین کے لگ بھگ ہے اور وہ اکثر سوشل میڈیا کو اپنے اقدامات کو فروغ دینے کے لیے استعمال کرتے ہیں— اے پی فائل فوٹو
مودی کے ٹوئٹر پر فالورز کی تعداد 13 ملین کے لگ بھگ ہے اور وہ اکثر سوشل میڈیا کو اپنے اقدامات کو فروغ دینے کے لیے استعمال کرتے ہیں— اے پی فائل فوٹو

نئی دہلی : ہندوستان کے وزیراعظم نریندرا مودی کی جانب سے والدین سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ سوشل میڈیا پر اپنی بیٹیوں کے ہمراہ تصاویر کو شیئر کریں تاکہ انڈیا میں لڑکوں اور لڑکیوں کی آبادی میں عدم توازن پر قابو پایا جاسکے۔

انٹرنیٹ کے شوقین ہندوستانی وزیراعظم کی جانب سے اتوار کو ماہانہ ریڈیو خطاب کے دوران مردوں کی بالادست ملک میں صنفی مساوت کو فروغ دینے کے خطاب کے بعد سے #SelfieWithDaughter کی اپیل ہندوستان میں ٹوئٹر پر خوب چھائی ہوئی ہے۔

نریندرا مودی نے یڈیو خطاب کے بعد اپنے ٹوئٹر پیغام میں کہا " میں آپ سب پر زور دیتا ہے کہ #SelfieWithDaughter شیئر کریں"۔

انہوں نے ہریانہ کے ایک گاﺅں کے سربراہ کو اس خیال کا کریڈٹ دیا، خیال رہے کہ یہ وہ ریاست ہے جہاں لڑکوں کے مقابلے میں لڑکیوں کی شرح پیدائش بہت کم ہے۔

حکومتی وزراء، کاروباری رہنماﺅں بشمول صنعتکار نوین جندال کے ساتھ ساتھ کھیلوں سے تعلق رکھنے والے اسٹارز جیسے کرکٹ آئیکون سچن ٹنڈولکر نے اپنی بیٹی سارا کے ہمراہ تصویر ٹوئٹر پر پوسٹ کی ہے۔

گزشتہ سال کے عام انتخابات میں کامیابی کے بعد اقتدار میں آنے کے بعد سے نریندرا مودی خود کو حقوق نسواں کے چیمپئن کی پوزیشن پر لانے کے لیے کوشاں ہیں، جس کے لیے انہوں نے لڑکیوں کی تعلیم اور لڑکیوں کے غیر قانونی اسقاط حمل کی روک تھام پر زور دیا ہے۔

مودی کے ٹوئٹر پر فالورز کی تعداد 13 ملین کے لگ بھگ ہے اور وہ اکثر سوشل میڈیا کو اپنے اقدامات کو فروغ دینے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

تاہم کچھ خواتین سماجی کارکنوں نے اس آن ائن مہم کو دھوکا قرار دیتے ہوئے کہا کہ مودی حکومت نے درحقیقت آخری بجٹ میں " خواتین کے حوالے سے ہر شعبے میں فنڈز کم کردیئے ہیں"۔

اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے آل انڈیز پروگریسیو ویمن ایسوسی ایشن کی سیکرٹری کویتا کرشنن نے کہا " ایک مہم کو صرف سوشل میڈیا پر نہیں چلایا جاسکتا بلکہ آپ کو خواتین کو باہر نکالنے کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ وہ عوامی خلاءکو بھر سکیں دوسری صورت میں یہ کسی کام کی نہیں "۔

ہندوستان میں گزشتہ برسوں کے دوران جنسی تشدد کا مسئلہ سنگین صورت اختیار کرچکا ہے اور اس حوالے سے مسلسل خبریں سامنے آتی رہتی ہیں۔

گزشتہ برس اقوام متحدہ نے خبردار کیا تھا کہ ہندوستان میں دونوں صنفوں کی شرح پیدائش میں عدم توازن ایمرجنسی کی حد تک پہنچ چکا ہے۔

ہندوستان میں پیدائش سے قبل بچے کی جنس کا تعین غیر قانونی ہے اور ایسا کرنے کی صورت میں پانچ سال تک قید کی سزا سنائی جاسکتی ہے مگر 2011 میں برٹش میڈیکل جرنل میں شائع ہونے والی ایک تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ گزشتہ تین دہائیوں کے دوران ہندوستان میں 12 ملین سے زیادہ بچیوں کا پیدائش سے قبل اسقاط کرایا گیا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

Muhammad Ayub Khan Jul 04, 2015 10:18am
kiya baat hey