کیا سندھ 20 سال بعد بنجر ہو جائے گا؟

اپ ڈیٹ 04 جولائ 2015
بروقت اقدامات نہ کیے گئے تو دریائے سندھ کے بائیں طرف کا سارا علاقہ اگلے 10 سے 15 سال میں نمکین پانی کی جھیلوں میں بدل جائے گا۔ — فوٹو Dawn.com
بروقت اقدامات نہ کیے گئے تو دریائے سندھ کے بائیں طرف کا سارا علاقہ اگلے 10 سے 15 سال میں نمکین پانی کی جھیلوں میں بدل جائے گا۔ — فوٹو Dawn.com

خدا یار خان نے ساری زندگی اپنی زمینوں پر کاشت کاری کی ہے لیکن اب اس نے اپنا اور بچوں کا پیٹ پالنے کے لیے مزدوری شروع کر دی ہے، کیونکہ پاکستان کے صوبہء سندھ کے ضلع گھوٹکی میں دریائے سندھ کے ساتھ اس کی 3 ایکڑ زرعی اراضی سیم اور تھور کی وجہ سے بنجر ہو گئی ہے۔

اس کا کہنا ہے کہ بار بار گنے اور چاول کی فصل کاشت کرنے کی وجہ سے اس کی زرخیز زمین سیم زدہ ہوگئی ہے اور اب اس کے پاس سوائے ایک کارخانے میں مزدوری کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں بچا ہے۔ یہ صرف خدا یار خان کی بربادی کا قصہ نہیں ہے جس کی زمین دریائے سندھ سے سیراب ہوتی تھی۔ دریائے سندھ ایشیاء کا سب سے بڑا دریا ہے اور اس سے پاکستان میں لاکھوں لوگ مفید ہوتے ہیں۔

خان نے حکومت سے استدعا کی ہے کہ سیم اور تھور کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے کوئی مؤثر حکمت عملی اختیار کی جائے کیونکہ ان مسائل کی وجہ سے سالانہ سینکڑوں ایکڑ زمین بنجر ہو رہی ہے، گنے اور چاول جیسی فصلوں کے لیے زیادہ پانی استعمال کرنے کی وجہ سے گھوٹکی اور کچھ ساتھ والے علاقوں میں زیر زمین پانی کی سطح بلند ہو گئی ہے۔

ماہرین اور کچھ کتابی معلومت خدا یار کے اس دعویٰ کے ساتھ اتفاق کرتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ فصلوں کے لیے زائد پانی کے استعمال، کچی نہروں، اور خراب نکاسی آب کی وجہ سے اس علاقے میں سیم اور تھور کا مسئلہ تیزی کے ساتھ بڑھ رہا ہے۔

سندھ زرعی چیمبر کے جنرل سکیرٹری نبی بخش کا کہنا ہے کہ سیم اور تھور کو روکنے کے لیے اگر بروقت اقدامات نہ کیے گئے تو دریائے سندھ کے بائیں طرف کا سارا علاقہ اگلے 10 سے 15 سال میں نمکین پانی کی جھیلوں میں بدل جائے گا۔ ان کا کہنا ہے کہ گنے اور چاول کی فصل اُگانے کے لیے سب سے زیادہ پانی کی ضرورت ہوتی ہے اور اسی وجہ سے زیرِ زمین پانی کی سطح خطرناک حد تک اوپر آجاتی ہے، ان کے اندازے کے مطابق، دریائے سندھ کے بائیں طرف کے تقریبا 90 فیصد کسان گذشتہ تین دہائیوں سے یہ دونوں فصلیں کاشت کررہے ہیں۔

بخش کے مطابق کسانوں کو ان فصلوں سے ابتداء میں بہت فائدہ ہوتا ہے، لیکن کچھ وقت کے بعد زائد پانی کے استعمال کی وجہ سے زرخیز زمین بنجر ہونا شروع ہو جاتی ہے اور پیداوار میں بھی خاطر خواہ کمی آجاتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس علاقے میں تمام نہریں چونکہ کچی ہیں، اس لیے پانی زمین کے اندر جذب ہوتا رہتا ہے اور اس کا بالآخر نتیجہ سیم کی صورت میں سامنے آتا ہے، کھڑا پانی آہستہ آہستہ کھارا ہو جاتا ہے، اور قریب قریب کی تمام زرخیز زمین کو بنجر کردیتا ہے۔

اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے حکومت کو کچھ ٹھوس اقدامات کرنے ہوں گے، مثال کے طور پر کوٹری بیراج میں پانی کے بہاؤ میں گد اور کیچڑ سب سے بڑی رکاوٹ بنتے ہیں، جبکہ متعلقہ حکام کی سندھ میں نکاسی آب کو بہتر بنانے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔

بخش کا کہنا ہے کہ حکومت نکاسی آب کے نظام کو اس طرح ترتیب دے تاکہ تازہ پانی آسانی کے ساتھ سمندر برد کیا جاسکے، اس کے علاوہ زرخیز زمین سے پانی کے اخراج کے لیے نئے ٹیوب ویل بھی لگائے جائیں۔

ایک تحقیقاتی مقالے کے مطابق انڈس بیسن کے ارگرد تقریبا 43 فیصد رقبہ سیم کی نظر ہو گیا ہے کیونکہ زیر زمین پانی کی سطح 3 میٹر سے بھی کم ہو گئی ہے جس سے 7.1 ملین ہیکٹر رقبہ کو نقصان پہنچ رہا ہے، 2001 سے لے کر 2003 تک کے درمیان محکمہ پانی و بجلی کی طرف سے کیے جانے والے ایک سروے کے مطابق اس علاقہ کا تقریبا 27 فیصد رقبہ تھور کی زد میں آ چکا ہے۔

سیم اور تھور کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے حکومت سندھ نے حال ہی میں دریائے سندھ کے بائیں کنارے والی نہر کی طرف والے سارے علاقے میں چاول اور گنے کی کاشت پر پابندی لگا دی ہے اور جو کسان بھی اس پابندی کی خلاف ورزی کرے گا اس پر 25,000 روپے فی ایکڑ کے حساب سے جرمانہ عائد کیا جائے گا یا اسے تین سال کی قید کا سامنا کرنا پڑے گا، لیکن کسانوں کی اکثریت شکایت کر رہی ہے کہ حکومت اس پابندی کا اطلاق صرف چھوٹے کسانوں پر کر رہی ہے۔

وہ علاقے جہاں چاول کی کاشت پر پابندی لگائی گئی ہے ان میں گھوٹکی، خیرپور، سانگھڑ، میر پور خاص، اور ٹنڈو اللہ یار شامل ہیں۔

صرف سندھ نہیں

پاکستان کے معاشی سروے 14-2013 کے مطابق پاکستان کا زرعی شعبہ ملکی معیشت کا پانچواں حصہ ہونے کے ساتھ ساتھ ملک کی تقریباً آدھی آبادی کو روزگار بھی فراہم کرتا ہے۔

سردار محمد طارق جو گلوبل واٹر پارٹنر شپ جنوبی ایشیا کے سربراہ رہے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ سیم کی وجہ سے ملک میں ہر سال تقریباً ایک لاکھ ایکڑ زمین بنجر ہو رہی ہے، جبکہ ملک کی ساحلی پٹی کے ساتھ والے علاقوں میں سمندر کے کٹائو کی وجہ سے تھور کے مسئلہ میں بھی ہر گزرتے دن کے ساتھ خاطر خواہ اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ زرعی شعبہ میں پانی کے استعمال پر نظر رکھنے کے لیے پاکستان میں کوئی قانون موجود نہیں ہے اور کسان چاول اور گنے جیسی فصلیں چلتے پانی میں کاشت کرتے ہیں، انہوں نے حکومت کو تجویز دی کہ تھور زدہ علاقوں میں ایسی فصلوں کو ترویج دی جائے جو وہاں بہتر پیداوار دے سکیں کیونکہ یہ اس مسئلہ کو ختم کرنے پر پیسے لگانے سے کہیں بہتر عمل ہے۔

طارق نے حکومت کو یہ تجویز بھی دی کہ سیم کے مسئلہ سے نمٹنے کے لیے نکاسی آب کو بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ ٹیوب ویل بھی لگائے جائیں، اور اس علاقہ میں سیم اور تھور کے مسئلہ کو مد نظر رکھتے ہوئے فصلوں کے لیے بیج کی نئی اقسام بھی تیار کی جائیں

دوسری جانب حکومتی افسران کا کہنا ہے کہ وہ اپنے تئیں اس مسئلے سے نمٹنے کی پوری کوشش کر رہے ہیں۔ ایک عہدیدار نے بتایا کہ صوبے میں سیم اور تھور کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے حکومتِ سندھ نے ورلڈ بینک کے ساتھ مل کر 1967 میں ایک منصوبے کا آغاز کیا تھا، جس کے تحت صوبہ کے مختلف اضلاع میں 3657 ٹیوب ویل لگائے گئے تھے۔

محکمہ آبپاشی سندھ کے سیکرٹری ظہیر حیدر شاہ کا کہنا ہے کہ یہ ٹیوب ویل روزانہ 8 گھنٹے چلتے ہیں اور 7588 کیوسک پانی زرعی زمینوں سے خارج کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ 2400 ٹیوب ویل بالکل ٹھیک حالت میں چل رہے ہیں جبکہ باقیوں میں کوئی معمولی نقص آگیا ہے۔ ان ٹیوب ویلوں کی مرمت پر آنے والا تمام خرچ اور ماہانہ بجلی کا بل صوبائی حکومت ادا کرتی ہے، تاہم سندھ زرعی چیمبر کے بخش کا کہنا ہے کہ صرف پانچ فیصد ٹیوب ویل ٹھیک کام کررہے ہیں۔

شاہ نے اس بات کا اعتراف کیا کہ سیم اور تھور زرعی شعبہ کے لیے ایک بہت بڑا مسئلہ ہیں، اور زیر زمین پانی کی سطح کو قابو میں رکھنے کے لیے حکومت سندھ مختلف علاقوں میں مزید ٹیوب ویل لگانے کے لیے ایک جامع منصوبہ شروع کرنے پر کام کر رہی ہے۔

بشکریہ تھرڈ پول ڈاٹ نیٹ۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (2) بند ہیں

راشد نذیر Jul 04, 2015 06:42pm
خدا نہ کرے کے ایسا ہو۔ مگر سندھ حکومت کو اس مسئلے کو سنجیدگی سے لینا چاہئے۔ قوم پرست ویسے تو ہرمعاملے پر پنجاب کو رگیدتے ہیں، مگر یہ خالص ایک مقامی مسئلہ ہے اور بر وقت توجہ سے اسکے اثرات کم کیے جا سکتے ہيں۔ مقامی سیاستدانوں کو صوبائی حکومت سے فوری اور موثر ایکشن کے لیے دباؤ ڈالنا چاہیے
Muhammad Ayub Khan Jul 04, 2015 10:08pm
kabhi bhi banjar naheyiN hoga