اسلام آباد: قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے قانون، انصاف اور انسانی حقوق نے ’ہندو میرج بل2014‘ اور ’ہندو میرج بل2015‘ کی منظوری تیرہ جولائی تک موخر کر دی۔

یہ فیصلہ پیر کو یہاں حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ-نواز کے ایم این اے چوہدری محمد بشیر ورک کی سربراہی میں کمیٹی کے اجلاس میں کیا گیا۔

پی پی پی کے رمیش لعل اور ن لیگ کے ڈاکٹر درشن نے ہندو میرج بل،2014 گزشتہ سال جبکہ ’ہندو میرج بل2015‘ سرکاری بل ہے، جسے وزیر قانون پرویز رشید نے مارچ میں پیش کیا۔

ان دو بلوں کے ذریعے پاکستان میں ہندو برادری میں شادی و طلاق سے متعلق قوانین متعین کیے جانے ہیں کیونکہ فی الحال ملک میں ہندو برادری میں شادی کو کسی قانونی دستاویز سے ثابت نہیں کیا جا سکتا۔

رمیش لعل کے مطابق، دونوں بلوں میں کوئی خاص فرق نہیں اور سرکاری بل کا مقصد صرف اور صرف کریڈٹ لینا ہے۔

لعل نے بتایا کہ انہوں نے یہ بل گزشتہ سال مارچ میں متعلقہ کمیٹی کے سامنےپیش کیا تھا، جبکہ سرکاری بل رواں سال آیا۔

لعل نے بتایا کہ انہوں نے سرکاری مسودہ پر ہندو برادری کے عمائدین اور قانونی ماہرین سے مشاورت کی ہے اور اس پر کوئی بڑا اعتراض سامنے نہیں آیا۔’کچھ چھوٹے موٹے مسئلے ہیں جنہیں جلد حل کر لیا جائے گا‘۔

دونوں مسودوں میں سب سے بڑا فرق حدود کا ہے۔ وفاقی حکومت نے ہندو شادی کو صوبائی معاملہ قرار دیا ہے۔دوسری جانب نجی بل میں قانون کو ملک بھر میں نافذ کرنے کی تجویز ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں