اسلام آباد: سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ اور نارکوٹکس نے وفاقی وزارت تعلیم کو تجویز پیش کی ہے کہ منشیات کے عادی طلبہ و طالبات کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لیے کالج اور یونیورسٹیز میں داخلے کے وقت میڈیکل ٹیسٹ کروائے جائیں۔

کمیٹی کی جانب سے یہ تجویز بھی دی گئی ہے کہ وزارت اطلاعات میڈیا کو ہدایات جاری کرے کہ وہ اپنے ایئر ٹائم کا اعشاریہ 5 فیصد وقت منشیات کے استعمال کے خلاف عوامی رہنمائی کے لیے وقف کرے۔

کمیٹی کا اجلاس گذشتہ روز سینیٹر رحمان ملک کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاؤس میں منعقد ہوا، جس میں ڈائریکٹر جنرل نارکوٹکس فورس (اے این ایف) جنرل خاور حنیف اور دیگر حکام نے کمیٹی کو ملک میں موجود منشیات کے مسائل کے حوالے سے آگاہ کیا۔

کمیٹی کو بتایا گیا کہ گذشتہ سال 15 سال سے 64 سال کے درمیانی عمر کے 80 لاکھ افراد منشیات کے استعمال کے عادی تھے اور 30 لاکھ سے زائد افراد منشیات کے طور پر استعمال کی جانے والی ادویات کے عادی تھے۔

کمیٹی کے ممبران کو بتایا گیا کہ 2015ء میں منشیات اسمگلنگ کے 324 مقدمات درج ہوئے جن میں 89 فیصد کا فیصلہ سنادیا گیا۔

سال 2014ء میں 27 ہزار 1 سو کلو گرام جبکہ 2015ء میں 62 ہزار کلو گرام منشیات قبضے میں لے کر تلف کی گئی جبکہ 1 ارب 55 کروڑ کی مالیت کے اثاثے کو قبضے میں لیا گیا اور 1 ارب 88 کروڑ کی مالیت کی منشیات سے متعلق اشیاء کو ضبط کیا گیا۔

اجلاس کے دوران سینیٹر رحمان ملک نے کہا کہ افغانستان سے تجارتی معاہدے پر دوبارہ غور کیا جانا چاہیے۔ انھوں نے بتایا کہ اس معاہدے کے تحت افغانستان جانے والے کنٹینرز پاکستان میں انتہائی معمولی فیس ادا کرتے ہیں جبکہ افغان طالبان فی کنٹینر کا 7 ہزار ڈالر زبردستی وصول کرتے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ حکومت اور طالبان کے زیر قبضہ افغانستان کے 32 فیصد علاقے میں پوست کی کاشت کی جارہی ہے۔

سینیٹر رحمان ملک نے کہا کہ منشیات کے عادی لوگ دنیا کے لیے بڑا مسئلہ ہیں، یہاں تک کہ خود کش بمباروں کو بھی ان کے سہولت کاروں کی جانب سے منشیات فراہم کی جاتی ہیں۔

عوامی نیشنل پارٹی سے تعلق رکھنے والے سینیٹر شاہی سید نے ڈان کو بتایا کہ کچھ طلبہ منشیات کا استعمال کرتے ہیں اور ان کی وجہ سے ان کے ساتھی بھی اس سے متاثر ہوتے ہیں۔

انھوں ںے کہا کہ تعلیمی داروں میں داخلے کے وقت میڈیکل ٹیسٹ سے معلوم ہوجائے گا کہ طلب علم منشیات استعمال کا عادی تو نہیں ہے۔

سینیٹر شاہی سید نے مزید کہا کہ منشیات افغانستان سے اسمگل کی جاتی ہے اور اس کو چیک کرنے کے لیے صرف دو ہزار 6 سو افسران موجود ہیں۔ انھوں ںے کہا کہ نہ صرف سیکیورٹی افسران بلکہ فنڈز میں بھی اضافہ کیا جانا چاہیے۔

تبصرے (1) بند ہیں

MUHAMMAD AYUB KHAN Jul 07, 2015 12:16pm
kitni mazaey ki baat hey? mujhey yeh batao ki test karney waloN ko kon test karey ga?