پانچ کتابوں کا مصنف موچی

اپ ڈیٹ 09 جولائ 2017
منور نے اپنی شاعری کمزور لوگوں کی نبض پر ہاتھ رکھ کر کی ہے۔ — فوٹو رضوان صفدر/پنجاب لوک سجاگ
منور نے اپنی شاعری کمزور لوگوں کی نبض پر ہاتھ رکھ کر کی ہے۔ — فوٹو رضوان صفدر/پنجاب لوک سجاگ

منور نے اپنی شاعری کمزور لوگوں کی نبض پر ہاتھ رکھ کر کی ہے۔

فیصل آباد کی تحصیل جڑانوالہ کے نواحی قصبے روڈالا کے مین بازار میں سڑک کنارے بیٹھا منور شکیل پچھلی 3 دہائیوں سے دیہاتیوں کے پھٹے پرانے جوتے مرمت کرنے میں مصروف ہے۔

لیکن حالیہ برسوں میں منور کی عارضی دکان پر جوتے مرمت کروانے والے گاہکوں سے زیادہ ان کی تلخ اور شریں حقیقتوں پر مبنی شاعری سننے والوں کا رش لگا رہتا ہے۔

منور پنجابی شاعری کی 5 کتابوں کے مصنف ہیں اور اپنی شاعری کی وجہ سے شہر کے مضافاتی علاقوں کی رہتل اور لوگوں کی زندگیوں کی حقیقتوں کا ترجمان مانے جاتے ہیں۔

1969ء میں پیدا ہونے والے منور شکیل نے ہوش سے پہلے ہی اپنے باپ کو کھو دینے اور رسمی تعلیم سے یکسر محروم رہنے کے باوجود 13 سال کی کم عمری میں شاعری کا آغاز کیا اور ان کی پہلی کتاب 'سوچ سمندر' 2004ء میں منظرِ عام پر آئی۔

انہوں نے بتایا کہ وہ خاندانی موچی ہیں۔

"میں سارا دن جوتوں کی مرمت اور صبح سویرے قصبے کی دکانوں پر اخبار فروشی کر کے ڈھائی سو سے 3 سو روپے کماتا ہوں جن میں سے روزانہ 10 روپے اپنی کتابیں شائع کروانے کے لیے جمع کرتا رہتا ہوں"۔

منور کی دوسری کتاب 'پردیس دی سنگت' 2005ء، تیسری کتاب 'صدیاں دے بھیت' 2009ء، چوتھی کتاب 'جھورا دھپ گواچی دا' 2011ء اور پانچویں 'آکھاں مٹی ہو گیئاں' 2013ء میں شائع ہوئی۔

ان کی اب تک شائع ہونے والی تمام کتابیں ایوارڈ یافتہ ہیں۔

وہ رویل ادبی اکیڈمی جڑانوالہ اور پنجابی تنظیم نقیبی کاروان ادب کے رکن ہونے کے ساتھ ساتھ آشنائے ساندل بار، پاکستان رائٹرز گلڈ، اور پنجابی سیوک جیسی ادبی تنظیموں سے اب تک کئی ایوارڈز اپنے نام کر چکے ہیں۔

منور جوتوں کی مرمت کے ساتھ ساتھ اخبار فروشی بھی کرتے ہیں۔

اپنی شاعری کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ مختلف طبقات میں تقسیم ہمارے معاشرے میں نچلے طبقے کے لوگوں کو درمیانے اور اعلیٰ طبقے کے لوگوں کی طرف سے روز مرہ زندگی میں امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن کمزور لوگوں کے ساتھ کیے جانے والے اس سلوک کے خلاف آواز اٹھانے والا کوئی نہیں۔

"میں اپنی شاعری کے ذریعے نچلے طبقے کی آواز بننا چاہتا ہوں اور جو باتیں براہ راست نہیں کی جا سکتیں، انہیں اپنی شاعری کے ذریعے دوسروں تک پہنچانا چاہتا ہوں۔"

اینوں کنے پانی دِتا، اینوں کنے بویا اے

پتھر دے جو سینے اتے، بوٹا اگیا ہویا اے

انہوں نے بتایا کہ "بچپن میں میری خواہش تھی کہ میں پڑھ لکھ کر نام کماؤں لیکن ہوش سنبھالنے سے پہلے ہی والد کی وفات اور مالی وسائل کی کمی کے پیش نظر ایسا ممکن نہ ہو سکا تو میں نے خود کتابیں خرید کر مطالعہ شروع کیا اور اب کام سے واپس جا کر 3 سے 4 گھنٹے کتاب نہ پڑھوں تو نیند نہیں آتی۔"

وہ کہتے ہیں کہ اپنی ماں بولی پنجابی اور ان کا تعلق وہی ہے جو ایک بیٹے کا اپنی ماں کے ساتھ ہوتا ہے۔

"پنجابی پنجاب میں رہنے والے لوگوں کی مادری زبان ہے اور یہ ان کا بنیادی حق ہے کہ انہیں اس زبان میں تعلیم دی جائے اور حکومت کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ پنجابی سمیت تمام علاقائی زبانوں کے فروغ کے لیے اقدامات کرے"۔

ان کا ماننا ہے کہ ایک اچھے شاعر کے لیے لازمی ہے کہ اس کے دل میں انسانیت کے لیے درد ہو جسے محسوس کرتے ہوئے وہ اپنے الفاظ کو شاعری میں ترتیب دے سکے۔

انہوں نے بتایا کہ ان کی 112 غزلوں پر مشتمل چھٹی کتاب 'تانگھاں' رواں سال کے آخر تک شائع ہو جائے گی۔

"محنت میں عظمت ہوتی ہے۔ مجھے جوتے مرمت کرنے میں کوئی شرمندگی نہیں لیکن میں چاہتا ہوں کہ لوگوں میں شعور پیدا ہو اور وہ کتابوں کا مطالعہ شروع کریں تاکہ ہم بھی ترقی یافتہ قوموں کی صف میں کھڑے ہو سکیں۔"

منور شکیل کے ادبی استاد غلام مصطفیٰ آزاد نقیبی کہتے ہیں کہ منور نے اپنی شاعری کمزور لوگوں کی نبض پر ہاتھ رکھ کر کی ہے جو عشق، صحبت حسن، زلف، اور رخسار وغیرہ کے قصوں سے نہیں بلکہ عام لوگوں کی ضروریات، خواہشات اور مشکلات سے نتھی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ مضافات میں رہنے والے لوگوں میں صلاحیتوں کی کمی نہیں ہوتی لیکن مالی وسائل کی کمی کے باعث وہ دوسروں سے پیچھے رہ جاتے ہیں۔

سنئیےمنور شکیل کی سجاگ کے ساتھ خصوصی گفتگو:


نوٹ: جو دوست منور شکیل کی کتابیں خریدنا چاہتے ہوں وہ [email protected] پر ای میل کے ذریعے اپنے نام پتے اور فون نمبر کے ساتھ رابطہ کریں۔

بشکریہ پنجاب لوک سجاگ فیصل آباد۔

تبصرے (10) بند ہیں

سجاد خالد Jul 14, 2015 02:52pm
اس فیچر میں منور صاحب کی شاعری کا نمونہ بھی ہونا چاہئیے تھا۔ اگر ہو سکے تو شامل کر دیا جائے۔ بصورتِ دیگر نیچے تبصرے ہی میں شیئر کر دیں۔
ak Jul 14, 2015 03:41pm
Unbelievable. . . . Blogger is much appreciated for highlighting such talents.
anees Jul 14, 2015 04:21pm
mashallah
Muhammad Ayub Khan Jul 14, 2015 05:10pm
zabardast
MUMTAZ AHMED SHAH Jul 14, 2015 05:29pm
we should appreciate and encourge the talent and Government should give award in cash and appreciation letters.to thje learned poet.We pray for his success in promoting poetry. (MUMTAZ AHMED SHAH SAN ANTONIO TEXAS USA )
نجیب احمد سنگھیڑہ Jul 14, 2015 08:32pm
ڈان نیوز ڈیسک، برائے مہربانی ڈان فیس بُک پیج کے ھیڈ سے پوچھا جائے کہ آخر مجھے ڈان نیوز فیس بُک پیج پر سے بلاک کیوں کیا گیا ہے؟ میں حیران ہوں کہ نہ کوئی بات نہ لہنا نہ دینا، اور ڈائریکٹ بلاک کر دیا گیا مجھے۔ ہو سکتا ہے کسی اور میرے نام کے ممبر کو بلاک کرنا تھا مگر کر مجھے غریب کو دیا۔ لہذا آپ انویسٹی گیشن کروا دیں۔ تب تک میں ڈان نیوز سائٹ کے بلاگز پر اپنے تبصرے بھیجنا بند کر رہا ہوں۔ شکریہ
mustfa kamal new yourker Jul 15, 2015 06:23am
اسلام علیکم ہم نے آپ کا لکھا ایک ایک لفظ پڑھا بے شک آپ ایک رائٹر مصنف لکھاری ہیں ۔ اللہ آپ کو سلامت رکھے ۔۔ پاکستا ن میں آپ شوز میکر اور شاندار کالمسٹ ہیں آپ کو پاکستان کے اخبارات میں وطن اے عزیز کی سلامتی خوشحالی ترقی اور استحکام کے لیے ۔محنت کش طبقہ اور اپنے محلہ گاؤں شہر ضلع اور پاکستان کے کرتا دھرتا صاحبان کی توجہ کو سہی راہوں پر گامزن کرنا چاھیۓ ۔ لکھیۓ اور مچ گچ کر لکھیۓ اللہ آپ کا نگہبان اور حامی وناصر ہو گا انشاءاللہ و تعاءاللہ العزیز ۔۔۔۔۔،،،۔۔۔۔۔۔
Shahzad Ahmed Jul 15, 2015 09:25am
I really surprised to read the un known and exemplary personality of our area who not only continued his livelihood along with his Shairi but also his Khudi. His commitment is exemplary for the younger generation and He may be presented as the torch bearer of our new Generation. Behind this discovery, I congratulate Lok Sujag team for discovering such a mysterious personality. The commitment of the team seems to have the leading role in near future for positive change in the area. May the team of Lok Sujag succeed in its sincere efforts for the real CHANGE.
Inder Kishan Jul 15, 2015 10:25pm
پاکستان میں ٹیلنٹ کی بھی کم نہیں ہے اور ساتھ میں ہنر کی بھی۔ سب کو مساوی موقع دیا جائے تو امیروں کے مقابلے میں غریب اور منور شکیل جیسے لوگ بھی ابھر کر سامنے آ سکتے ہیں کیونکہ ہمارے یہاں موقع اکثر امیر لوگوں کو ہی ملتا ہے کیونکہ ورثے میں دولت کی وجہ سے انہیں کیریئر کے معاملے میں کوئی مشکلات پیش ہی نہیں آتیں جبکہ دوسری طرف تکلیفیں اور مصائب و مصیبتیں غریب کے گھر کی چوکھٹ سے جاتی ہی نہیں۔ مجھے یاد ہے کہ پنجاب میں ایک غریب لڑکے کو میٹرک بورڈ میں پوزیشن لی تو خادمِ اعلیٰ نے اس کے اعزاز میں تقریب منعقد کی۔ لیکن افسوس کہ بیچارے کو بیٹھنے کیلئے جگہ ہی نہیں ملی تو وہ سیڑھیوں پر ہی بیٹھ گیا۔ ملک کا سب سے بڑا مسئلہ پانی بجلی اور خوراک نہیں بلکہ تعلیم اور آبادی ہے۔ آبادی پر کنٹرول کیا گیا تو وسائل سب کو مل سکیں گے اور ملک کو اچھی قیادت میسر آئے گی بصورت دیگر جاہل اور گنوار لوگ ہی حکومت کرتے رہیں گے اور اخلاق سے عاری آبادی اسی طرح ذلیل و خوار ہوتی رہے گی۔
M AQIB N Jul 16, 2015 01:00pm
MA SHAA ALLAH bahi jan