استاد جی: سڑک پر پڑھاتے ایک بے غرض معلم

کچھ لوگ پیدا ہی بے غرض ہوتے ہیں، جنہیں اپنی پرواہ یا بالکل نہیں ہوتی۔ میں اکثر اس بارے میں سوچتی ہوں کہ ایسے جینا کیسا ہوتا ہوگا جس میں آپ صرف دوسروں کی خدمت کریں، جس میں صرف دینا ہو اور لینا نہیں، اور میں جانتی ہوں کہ مکمل طور پر دوسروں کے فائدے کے لیے کام کرنا کتنا مشکل ہے۔ کسی بھی دنیاوی فائدے کے بغیر صرف اچھا کرتے رہنا، اور کبھی نہ رکنا۔

گلستانِ جوہر میں ایک پرانے درخت کے نیچے 66 سالہ محمد شوکت نیاز صدیقی فٹ پاتھ پر بیٹھ کر 6 سے 10 سال کی عمر کے بچوں کو اپنے گرد جمع کر کے انہیں مفت میں پڑھاتے ہیں۔

انہیں ان کے شاگرد استاد جی کہتے ہیں۔ اس ضعیف شخص نے گذشتہ 6 سالوں سے اپنی زندگی مکمل طور پر غریب بچوں کے لیے وقف کر دی ہے۔

استاد جی اپنے شاگردوں کے ساتھ۔
استاد جی اپنے شاگردوں کے ساتھ۔

بچے اپنے والدین سے استاد جی کے پاس جانے کے لیے ضد کرتے ہیں۔
بچے اپنے والدین سے استاد جی کے پاس جانے کے لیے ضد کرتے ہیں۔
استاد جی ریاضی پڑھاتے ہوئے۔
استاد جی ریاضی پڑھاتے ہوئے۔

وہ اتوار چھوڑ کر روزانہ دوپہر 3 بجے سے شام 6 بجے تک انہیں پڑھاتے ہیں۔ وہ ایک پسندیدہ شخصیت ہیں، اتنی کہ ان کے کئی شاگردوں نے جنہیں پڑھنے کی اجازت نہیں تھی، اپنے والدین پر زور دیا کہ وہ انہیں پڑھنے کے لیے استاد جی کے پاس بھیجیں۔

رخسانہ کہتی ہے، "استاد جی کے پاس پڑھنے میں بہت مزہ آتا ہے۔ میں ضد کرتی ہوں تو ابو آنے دیتے ہیں۔"

شوکت اداس لہجے میں بتاتے ہیں کہ وہ یہ دیکھ کر افسردہ ہیں کہ پاکستان کے بچے اتنے ذہین ہیں، لیکن ان کی ذہانت، ان کے ہنر، پڑھنے کے لیے ان کی لگن، ان کی تخلیق، سب کچھ چھن جاتی ہے کیونکہ انہیں کام کرنا پڑتا ہے، اور وہ چائلڈ لیبر کے بھنور میں پھنس جاتے ہیں۔

وہ بچوں کو اردو، انگریزی، ریاضی، اور مذہب پڑھاتے ہیں۔ کسی زمانے میں ایک زبردست ڈراما رائٹر رہ چکے شوکت کو اب ضرورتمند بچوں کو پڑھانے میں سکون ملتا ہے۔

وہ ہر بچے کو مساوی توجہ دیتے ہیں۔
وہ ہر بچے کو مساوی توجہ دیتے ہیں۔

وہ اخلاقیات بھی پڑھاتے ہیں۔
وہ اخلاقیات بھی پڑھاتے ہیں۔
ایک بچی پڑھنے کے بعد گھر جا رہی ہے۔
ایک بچی پڑھنے کے بعد گھر جا رہی ہے۔

استاد جی اب دل کے مریض ہیں، لیکن پھر بھی ایک بھی چھٹی نہیں کرتے۔

"اپنے دل کے مرض کی وجہ سے مجھے روزانہ پیدل یہاں تک آنے میں بہت مشکل ہوتی ہے، اس لیے میں اپنے دوستوں سے لفٹ لیتا ہوں۔ لیکن میں صرف صحت کے مسائل کی بناء پر اپنا مشن نہیں چھوڑ سکتا۔ جب تک جسمانی طور پر ممکن ہے، میں انہیں پڑھاتا رہوں گا۔"

ایک استاد اور ایک انسان کے طور پر ان کا سفر نہایت متاثر کن ہے۔ ان کی ایک سادہ سی کاوش یہ یاد دلاتی ہے کہ ٹوٹ پھوٹ کے شکار معاشرے کو ایک چھوٹی سی اچھائی کتنا بہتر بنا سکتی ہے۔ تمام مشکلات کے باجود ان کے جذبے میں کوئی کمی نہیں آئی ہے۔

استاد جی کی جوانی کی تصویر۔
استاد جی کی جوانی کی تصویر۔
قرآن پڑھاتے ہوئے۔
قرآن پڑھاتے ہوئے۔

ان کی دھیمی آواز ان کے کردار کے بارے میں بہت کچھ کہتی ہے، جبکہ دوسروں کی خدمت کرنے کے لیے ان کے مضبوط جذبے نے انسانیت پر میرا یقین واپس قائم کر دیا ہے۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ وہ دوسروں کو پڑھانے کی اس بے لوث خدمت کا کریڈٹ کسے دیں گے، تو ان کا کہنا تھا:

"اپنی والدہ کو، انہوں نے مجھے ہمیشہ سکھایا کہ بغیر وسائل کے بھی دوسروں کی مدد کرنی چاہیے۔ وہ کہتی تھیں کہ اس سے بڑی خوشی کوئی نہیں کہ آپ ان لوگوں کی خدمت کریں جو بدلے میں آپ کو کچھ نہیں دے سکتے۔"

  • تصاویر بشکریہ لکھاری

انگلش میں پڑھیں۔


ارم شاہد انسٹیٹیوٹ آف بزنس مینیجمنٹ کراچی میں میڈیا اسٹڈیز کی طالبہ ہیں۔