سیلاب سے متاثرہ چترال میں بارشوں سے مزید تباہی

22 جولائ 2015
وادیٔ لوٹکوہ کے ایک تباہ شدہ گاؤں شوگور کا ایک منظر۔ —. فوٹو ڈان
وادیٔ لوٹکوہ کے ایک تباہ شدہ گاؤں شوگور کا ایک منظر۔ —. فوٹو ڈان

چترال: سات دنوں سے جاری موسلادھار بارش سے منگل کے روز وادیٔ طورخو میں چترال گرم چشمہ روڈ اور رائین پر سیلابی پانی سے بہت سے دیہات متاثر ہوئے جبکہ کاست گاؤں میں گھروں کی ایک بڑی تعداد بہہ گئی۔

چونکہ مقامی لوگ محفوظ مقامات پر پہلے سے منتقل ہوگئے تھے، اس لیے کسی جانی نقصان کی خبر نہیں ملی۔

متاثرہ علاقوں تک رسائی نہ ہونے کی وجہ سے متعلقہ سرکاری محکمے سیلاب سے ہونے والے نقصان کا تخمینہ لگانے سے قاصر ہیں۔

حکام نے ڈان کو بتایا ہے کہ تباہ شدہ سڑکوں، پینے کے پانی کی فراہمی اور آبپاشی کے منصوبوں اور ہائیڈرو پاور اسٹیشن پر ایک ہفتے میں کام شروع ہوجائے گا۔

ضلعی انتظامیہ اور پاک فوج کے اہلکاروں نے گرم چشمہ، مردان، اورغوچ، کورغ، کوشت، ریشون اور بمبوریٹ کے متاثرہ افراد میں خوراک اور غیرغذائی اشیاء تقسیم کیں۔

ایسے افراد جو اپنے گاؤں میں عید منانے کے لیے آئے ہوئے تھے، سڑکیں بند ہونے اور پلوں کی تباہی کی وجہ سے وہ بدھ کے روز اپنے دفاتر میں حاضر نہیں ہوسکیں گے۔

پشاور کے کور کمانڈر لیفٹننٹ جنرل ہدایت الرحمان نے کورغ کے علاقے کا دورہ کیااور گرم چشمہ اور بمبوریٹ کی وادیوں کا فضائی جائزہ لیا۔

پاک فوج کے دو ہیلی کاپٹروں نے متاثرہ علاقوں میں خوراک کے پیکٹس بھی گرائے۔

انٹر سروسز پبلک ریلیشن (آئی ایس پی آر) نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ پاک فوج نے چترال کے سب سے زیادہ متاثرہ علاقوں میں چھٹے روز بھی امدادی کام جاری رکھے۔ فوج اور فرنٹیئر کور نے سول انتظامیہ کی مدد سے 16 ٹن راشن تقسیم کیا۔

اس بیان میں کہا گیا ہے کہ پاک فوج کے جوانوں نے گرم چشمہ، کورغ اور بمبوریٹ میں پھنسے ہوئے 73 افراد کو بحفاظت نکال لیا۔ فرنٹیئر کور نے 100 ٹن راشن اور غذائی اشیاء عطیہ کیا ہے اور اسے تقسیم کے لیے پشاور سے روانہ کیا جارہا ہے۔

پاک فوج کے ڈاکٹروں اور طبّی عملے میڈیکل کیمپ کے قیام کے لیے متاثرہ علاقوں میں بھیج دیا گیا ہے۔

اسی دوران خیبر پختونخوا کے وزیرِ اطلاعات مشتاق غنی نے ڈان کو بتایا اس سیلاب کا سبب پچھلے تین روز سے جاری شدید بارشیں اور گلیشئر کے تیزی سے پگھلنا تھا۔

انہوں نے کہا کہ وزیراعلیٰ صورتحال کی نگرانی کررہے ہیں۔

صوبائی وزیر نے کہا کہ ضلعی انتظامیہ امدادی اور بحالی کی سرگرمیوں میں مصروف ہے، جبکہ مواصلات اور ورکس ڈیپارٹمنٹ کے سیکریٹری اور پبلک ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ کے ڈائریکٹر جنرل کو چترل پہنچ کر امدادی کاموں کی نگرانی کرنے کی ہدایت کردی گئی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ سرکاری اسکولوں میں متاثرہ افرادکی عارضی رہائش کا بندوبست کیا جارہا ہے۔ تاہم ڈپٹی کمشنر کے آفس کے حکام نے اس فیصلے کے بارے میں لاعلمی کا اظہار کیا۔

اس سے قبل صوبائی وزیر مشتاق غنی نے پشاور میں ایک پریس کانفرنس کو بتایا کہ سیلاب سے چترال میں تقریباً تین لاکھ افراد متاثر ہوئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ 26 گاؤں تباہ ہوگئے ہیں، جبکہ چترال کے بالائی علاقے کورغ کا باقی ضلع سے رابطہ منقطع ہوگیا ہے، جہاں سیلابی ریلے سے چترال بونی روڈ بہہ گیا ہے اور تقریباً دو لاکھ افراد وہاں پھنسے ہوئے ہیں۔

وادیٔ کیلاش جہاں تقریباً پچیس ہزار افراد آباد ہیں، اور تحصیل لوٹکوہ جس کی آبادی ساٹھ ہزار سے زیادہ ہے، ان دونوں وادیوں کا بھی باقی ضلع سے رابطہ منقطع ہے۔

صوبائی وزیر نے کہا کہ خیبر پختونخوا کی حکومت نے سڑکوں کی تعمیر اور بحالی کے کاموں کے لیے 10 کروڑ روپے، تین کروڑ روپے پینے کی پانی کی فراہمی اور آبپاشی کے ذرائع کی بحالی کے لیے ایک کروڑ روپے مختص کیے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ضلع میں 20 ٹن کا امدادی سامان تقسیم کردیا گیا تھا، جبکہ مزید 20 ٹن بعد میں تقسیم کیا جائے گا۔

صوبائی وزیر مشتاق غنی نے یہ بھی بتایا کہ چترل کے ڈپٹی کمشنر کو ضلع میں امدادی کاموں کے لیے دو کروڑ روپے کے دستیاب فنڈز کے استعمال کا بھی اختیار دے دیا گیا تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

Muhammad Ayub Khan Jul 22, 2015 01:10pm
wah zabardast