اسلام آباد: افغان حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات کا دوسرا دور آئندہ ہفتے شروع ہوگا جس کے دوران مفاہمتی عمل کو آگے بڑھایا جائے گا۔

توقع ظاہر کی جارہی ہے کہ مذاکرات جمعے کو یعنی 31 جولائی کو شروع ہوں گے جس میں پاکستان، امریکا اور چین کے حکام بھی شرکت کریں گے۔

مقام: مذاکرات کے مقام کے حوالے سے متضاد دعوے سامنے آرہے ہیں۔

ایک پاکستانی افسر نے ڈان کو بتایا کہ مذاکرات کے دوسرے دور کا انعقاد پاکستان میں ہوگا۔

تاہم افغان حکام کابل میں میڈیا کو بتارہے ہیں کہ چین ان مذاکرات کی میزبانی کرے گا۔

ایجنڈا: حکام کا کہنا ہے کہ اس بار مذاکرات کے ایجنڈے پر جنگ بندی اور دیگر اعتماد سازی کے امور شامل ہوں گے۔

ایک حالیہ بیان میں صدر اشرف غنی نے طالبان نمائندوں سے درخواست کی کہ وہ آئندہ ملاقات میں اپنے مطالبات تحریری طور پر پیش کریں۔

مری میں طالبان وفد نے افغانستان سے غیر ملکی فوجیوں کے انخلا اور اقوام متحدہ میں ان کے رہنماؤں کے خلاف پابندیاں ہٹانے کا مطالبہ کیا تھا۔

اس موقع پر انہوں نے افغان جیلوں میں طالبان قیدیوں کے ساتھ بہتر سلوک کی بھی مانگ کی تھی۔

مذاکرات کا پہلا دور مثبت انداز میں اختتام پذیر ہوا تھا جہاں دونوں اطراف نے اعتماد سازی کے اقدامات بڑھانے پر اتفاق کیا تھا۔

مذاکرات کے دوران ہونے والی پیشرفت پر کو دیکھتے ہوئے طالبان سربراہ ملا عمر نے عید کے موقع پر اپنے پیغام میں ان مذاکرات کو 'جائز' قرار دیا تھا۔

ادھر صدر اشرف غنی نے بھی اپنے عید کے پیغام میں ملا عمر کی مذاکرات کی حمایت کو خوش آمدید کہتے ہوئے کہا کہ مذاکرات ہی جنگ کے خاتمے کا واحد راستہ ہے۔

طالبان کی جانب سے حملوں کو مختصر طور پر روکنے کو بھی تجزیہ کار مثبت قدم کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔

وفود: افغان حکومت اور طالبان دونوں ہی ان دنوں ملاقات کے لیے اپنے وفود کو ختمی شکل دے رہے ہیں۔

مذاکرات کے پہلے دور کے دوران طالبان وفد کی سربراہی طالبان دور کے اٹارنی جنرل ملا عباس درانی کررہے تھے جبکہ افغان حکومت کی نمائندگی ڈپٹی وزیر خارجہ حکمت خلیل کرزئی کررہے تھے جو کہ صدر اشرف غنی اور چیف ایگزیکیٹیو عبد اللہ عبداللہ کے مشیروں میں سے ایک ہیں۔

اس مرتبہ کے مذاکرات کے وفود کے لیے چھوٹی تبدیلیاں ہوسکتی ہیں۔ طالبان کے وفد میں ان کے دوحہ کے سیاسی دفتر کا کوئی نمائندہ شامل ہوسکتا ہے جبکہ افغان حکومت کی جانب سے سول سوسائٹی اور خواتین کی نمائندگی کرنے والےاراکین شامل ہوسکتے ہیں۔

پاکستانی فوج کے کردار کی پذیرائی: ان مذاکرات کے آغاز کا کریڈٹ پاکستانی فوج کا دیا جارہا ہے۔

افغانستان میں امریکی فوج کے کمانڈر جنرل جان کیمبل نے جمعرات کو راولپنڈی کے اپنے دورے کے دوران پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف کی امن مذاکرات میں کردار ادا کرنے پر تعریف کی۔

جنرل راحیل نے فروری میں صدر غنی تک طالبان کا پیغام پہنچایا تھا کہ وہ مفاہمتی عمل شروع کرنے کے لیے تیار ہیں۔

تاہم کابل سے معلومات لیک ہونے کے باعث یہ عمل کئی ماہ موخر ہوگیا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں