’ہم آج بھی 80 اور 90 کی دہائی کی کرکٹ کھیل رہے ہیں‘

27 جولائ 2015
چیئرمین پی سی بی شہریار خان۔ فائل فوٹو اے ایف پی
چیئرمین پی سی بی شہریار خان۔ فائل فوٹو اے ایف پی

لندن: چیئرمین پاکستان کرکٹ بورڈ(پی سی بی) شہریار خان نے کہا ہے کہ پاکستان نے سری لنکا میں ایک روزہ میچوں کی سیریز تو جیت لی لیکن ٹیم کی رینکنگ میں تنزلی کی وجہ کھیل کے بدلتے رویوں اور رجحانات، خود کو بدلنے میں ناکامی اور اسکواڈ میں نوجوان کھلاڑیوں کی کمی ہے۔

1992 میں ورلڈ کپ جیتنے والی ٹیم بنگلہ دیش کے ہاتھوں ایک روزہ میچوں کی سیریز میں 0-3 کی کلین سوئپ شکست کے بعد آئی سی سی رینکنگ میں تاریخ کی بدترین نویں پوزیشن پر پہنچ گئی تھی.

تاہم, سری لنکا کے خلاف سیریز میں 2-3 سے کامیابی کے بعد پاکستانی ٹیم نے نویں درجے پر موجود ویسٹ انڈیز پر سبقت لیتے ہوئے 2017 چیمپیئنز ٹرافی میں رسائی کے امکانات بھی روشن کر لیے۔

ہوم گراؤنڈ پر چھ سال بعد منعقد ہونے والے سیریز میں زمبابوے کے خلاف 0-2 سے کامیابی سے قبل پاکستان کو لگاتار پانچ ایک روزہ میچوں کی سیریز میں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔

لندن میں ڈان سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے شہریار خان نے آئی سی سی رینکنگ میں تنزلی کی بڑی وجہ جدید کرکٹ کا تیزی سے آگے بڑھنا قرار دیتے ہوئے کہا ’ہم ابھی تک 1980 اور 90 کی دہائی میں موجود اور اس وقت کھیلی گئی کرکٹ کو اپنائے ہوئے ہیں‘۔

’دوسری بات یہ کہ ہم زیادہ نوجوان کھلاڑی بھی کھیل میں متعارف نہیں کرا رہے۔ ہم نے شعیب ملک اور محمد سمیع کو ٹیم میں واپس آتے دیکھا اور اگر میں سلیکٹرز کے سامنے رکاوٹ نہ ہوتا تو وہ اس سے بھی زیادہ پرانے کھلاڑیوں کو ٹیم میں واپس لے آتے‘۔

انہوں نے کہا ’ہم اچھا خاصا ٹیلنٹ پیدا کر رہے ہیں لیکن اصل مسئلہ یہ ہے سلیکٹرز ایسے کھلاڑیوں کو موقع دینے سے کتراتے ہیں جنہیں وہ نہیں جانتے اور انہیں موقع دینا چاہتے ہیں جنہیں وہ جانتے ہیں‘۔

’وہ سہیل تنویر، توفیق عمر اور ناصر جمشید کو ٹیم میں شامل کرنا چاہتے ہیں کیونکہ مصباح الحق اور وقار یونس انہیں جانتے ہیں۔لیکن جب وہ ایسا کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو میں ان کے سامنے رکاوٹ بن کر کھڑا ہو جاتا ہوں، حقیقتاً پھر حتمی فیصلہ میرا ہی ہوتا ہے‘۔

شہریار خان کے مطابق نئے کھلاڑیوں کو کھلانے میں کوچ اور کپتان کی ہچکچاہٹ اور پرانے کھلاڑیوں کو برقرار رکھنے کی بڑی وجہ میچ ہارنے کا ڈر اور اس کی جیت کو اہمیت دینا ہے۔

چیئرمین پی سی بی نے نئے کپتان اظہر علی اور ان کے نائب سرفراز احمد کی کارکردگی کو سراہنے کے ساتھ ساتھ شعیب ملک کی بھی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے اپنی اہمیت کو ثابت کردیا حالانکہ انہیں شعیب کی ٹیم میں واپسی پر تحفظات تھے۔

شہریار خان پاکستان سپر لیگ کے مستقبل کے حوالے سے زیادہ پرامید نظر نہیں آئے۔

پاکستان کی اپنی ٹی ٹوئنٹی لیگ لانے کا منصوبہ درکار وسائل کی کمی اور متحدہ عرب امارات میں میدانوں کی عدم دستیابی کی بدولت تعطل کا شکار ہے۔

یہ ایونٹ آئندہ سال فروری میں متحدہ عرب امارات میں ہونا تھا لیکن چھ ٹیموں پر مشتمل مجوزہ ماسٹرز چیمپیئنز لیگ کے انعقاد کے سبب تمام اہم میدان دستیاب نہیں ہو سکیں گے۔

اس حوالے سے 2014 میں ویمن ٹیم کے ایک روزہ اور ٹی ٹوئنٹی میچوں کی میزبانی کرنے والے قطر کا نام بھی متبادل کے طور پر پیش کیا گیا لیکن وہاں عالمی معیار کا صرف ایک وینیو ہونے کے سبب ٹورنامنٹ کو ملتوی کرنا پڑ سکتا ہے۔

’میں ٹی ٹوئنٹی کے معاملات میں زیادہ اچھا نہیں، لہٰذا میں نے یہ منصوبہ نجم سیٹھی اور دیگر کے سپرد کردیا ہے۔ لیکن اس وقت یہ غیر یقینی نظر آتا ہے۔ اور اب عین موقع پر قطر جا کر ہر چیز کو فروی تک بہترین طریقے سے انجام دینا کافی مشکل ہو گا‘۔

’میرا ماننا ہے کہ اگر آپ کوئی کام بہترین طریقے سے نہیں کر سکتے ہیں تو اسے نہ کریں‘۔

چیئرمین پی سی بی نے مزید کہا کہ اگر سیکیورٹی خدشات کی بنا پر نامور کھلاڑی لیگ میں شرکت نہ کرتے تو بھی وہ اسے پاکستان میں ہی منعقد کرانا چاہتے تھے۔

انہوں نے کہا کہ ’میں نے ممکنہ وینیوز کے طور پر کراچی، لاہور، فیصل آباد اور ملتان کے نام تجویز کیے اور میرا ماننا تھا کہ اگر اچھی رقم کی پیشکش کی جاتی تو بڑے کھلاڑیوں کو پاکستان میں کھیلنے پر آمادہ کیا جا سکتا تھا‘۔

’میرا خیال تھا کہ ہم اس کی پاکستان میں میزبانی کر سکتے تھے لیکن انہوں نے میری تجویز نہیں سنی‘۔

’ہمیں کیون پیٹرسن، گلین میکس ویل اور اے بی ڈی ویلیئرز جیسے بڑے کھلاڑی میسر نہ ہوتے لیکن پیسوں کی قلت کا شکار کھلاڑی جیسے ڈیوین براوو، جیسن ہولڈر، ایلٹن چگمبرا اور کچھ سری لنکن کھلاڑی کھیلنے پر آمادہ ہو سکتے تھے۔

انہوں نے کہا کہ ان کھلاڑیوں کو کچھ رقم دینی پڑتی، اس طریقے سے ہم میدانوں کو بھر سکتے تھے اور اس سے ناصرف غیر ملکی کھلاڑی پاکستان میں کھیلتے بلکہ اگلے سال پی ایس ایل کے لیے بڑا اسٹیج سیٹ ہوجاتا جہاں ہم متحدہ عرب امارات کے میدانوں تک رسائی حاصل کر لیتے۔

مستقبل میں پاکستان کو ہوم سیریز کے انعقاد میں بھی اسی مشکل کا سامنا ہے اور پی سی بی اب آئندہ سال سے بنگلہ دیش اور جنوبی افریقہ کی صورت میں نئے مقامات پر نظر رکھے ہوئے ہے۔

پاکستان رواں سال کے آخر میں انگلینڈ کی متحدہ عرب امارات میں میزبانی کرے گا لیکن شہریار خان نے تصدیق کی کہ ہم دو متبادل مقامات پر بھی غور کر رہے ہیں تاکہ ہمارے پاس مختلف آپشنز اور کھیلنے کیلئے کرکٹ کا بہتر ماحول میسر ہو۔

’متحدہ عرب امارات اچھا لیکن مہنگا ہے اور وہاں ہم زیادہ شائقین کو لانے میں بھی کامیاب نہیں ہوتے۔ بنگلہ دیش بہت اچھا متبادل ثابت ہو سکتا ہے۔ ان کے گراؤنڈ بہت شاندار ہیں اور شائقین بھی بہت دوستانہ رویہ رکھتے ہیں۔ جنوبی افریقہ بھی متبادل میں سے ایک ہے اور وہ ہماری میزبانی کرنا چاہتے ہیں۔ ہم دونوں بورڈز سے بات چیت کر رہے ہیں‘۔

ان کا کہنا تھا کہ اس وقت سیاسی صورتحال کی وجہ سے ہندوستان میں میچوں کی میزبانی کرنا ممکن نہیں اگر کرکٹ کے تناظر میں دیکھا جائے تو اس میں کچھ غلط نہیں۔ اگر تعلقات بہتر ہوتے ہیں تو ہم اس بارے میں سوچ سکتے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں