آخر بغاوت کیوں نہیں ہو رہی؟

اپ ڈیٹ 01 اگست 2015
وہ لوگ جو نا انصافی کی سب سے زیادہ قیمت چکاتے ہیں، آج کے نظام میں بالکل بے معنی ہو چکے ہیں۔ — AP/File
وہ لوگ جو نا انصافی کی سب سے زیادہ قیمت چکاتے ہیں، آج کے نظام میں بالکل بے معنی ہو چکے ہیں۔ — AP/File

آج کے دور میں غریب اور مزدور طبقہ خاموش کیوں ہے؟ غریب احتجاج کر کے کیوں طوفان برپا نہیں کر رہے؟ آج ووٹر زیادہ مراعات کیوں نہیں مانگتا؟ میرے خیال میں اس کی وجہ یہ ہے کہ مجموعی سطح پر آج عوام میں بغاوت نہیں پائی جاتی۔

1970 میں جب مجموعی عوامی تحریکیں لوگوں کی توجہ کا مرکز بنیں تو یکایک معاشرہ بہت تیزی سے بدلا، جبکہ آج لوگ مجموعی طبقاتی جدوجہد کے بجائے ایک خاص قسم کے دباؤ کے تحت انفرادی جدوجہد کرنا پسند کرتے ہیں۔ طبقاتی سطح پر جدوجہد کے لیے معاشرے کے مختلف حصوں میں بہت کم یکجہتی پائی جاتی ہے۔ انفرادیت جہاں ایک سطح پر مثبت اور جمہوری عمل ہے وہیں دوسری سطح پر اپنے ساتھ کچھ ذمہ داریاں اور بوجھ لے کر آتی ہے جو انفرادی سطح پر انسان کی مقامی زندگی پر اثر انداز ہوتا ہے۔

میرے خیال میں انفرادیت ایک دو دھاری تلوار ہے جس میں فرد کچھ نئی آزادیاں اور انفرادی حقوق تو حاصل کر لیتا ہے لیکن اس کے بدلے وہ نہ چاہتے ہوئے بھی نئی ذمہ داریوں اور خطرات کو اپنا لیتا ہے۔ جہاں انفرادیت انسان کی ذات کی تکمیل میں کردار ادا کرتی ہے وہیں انفرادی حقوق اور آزادیوں کے لیے چلنے والی تحریکیں اجتماعی مقاصد کو پس پشت ڈال دیتی ہیں۔

پوری دنیا کی طرح پاکستان میں بھی انفرادی جدوجہد نے اپنی جڑیں مضبوط کر لیں ہیں۔ آج پاکستان میں غریبوں کی حمایت کے لیے مجموعی تحریک کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ غریبوں کی حمایت کے لیے مجموعی تحریک پر یقین یہ تقاضا کرتا ہے کہ ریاست تمام شہریوں کو سہولیات فراہم کرنے کی ذمہ دار ہے لیکن اس عمل یا عقیدے کو (کہ ریاست تمام لوگوں کو حقوق دے گی) انفرادیت نے بدل کر رکھ دیا ہے۔

انفرادیت کے نظریے کے مطابق چونکہ ریاست نے فرد کو کچھ آزادیاں دی ہیں اس لیے اب ساری ذمہ داریاں فرد پر ہیں۔ یعنی ریاست اپنے چند فرائض ادا کر کے باقی تمام ذمہ داریاں فرد پر ڈال رہی ہے۔

مجموعی سماجی عمل نے اب ایک مختلف شکل اختیار کر لی ہے۔ مثال کے طور پر انفرادی جدوجہد کے ساتھ جڑی تحریکیں جن میں علاقائی، لسانی، شناختی، حقوق نسواں کی تحریکیں اور ہم جنس تحریکیں شامل ہیں، اپنے آپ کو طبقاتی جدوجہد کے معاشی تقاضوں کے ساتھ نہیں جوڑتیں۔ پاکستان میں اس کی مثال یوٹیوب، سائبر کرائم بل اور سماجی رابطے کی ویب سائٹس پر امریکا میں پاس ہونے والے ہم جنسی شادیوں کے قانون پر بحث کی صورت میں موجود ہے۔

ان سب تحریکوں کا مسئلہ یہ ہے کہ یہ نظام میں موجود بڑی تفریق کو ختم کرنے کے بجائے خود کو انفرادی شناخت یا انفرادی حقوق تک محدود کر لیتی ہیں۔ یہ تحریکیں خود کو طبقاتی جدوجہد کی بنیاد پر اٹھنے والی تحریکوں کے ساتھ نہیں جوڑتیں، جس سے نقصان یہ ہوتا ہے کہ ریاست لوگوں کی توجہ ان انفرادی تحریکوں پر مرکوز کر کے طبقاتی تفریق کے بنیادی مسئلے سے جان چھڑا لیتی ہے۔

یہ سب لکھنے کے بعد میں دوبارہ اس سوال کا جواب ڈھونڈ رہا ہوں کہ آج بڑھتے ہوئے سماجی اور معاشی استحصال کے باوجود عوام کی طرف سے اتنی کم مزاحمت کیوں دیکھنے کو ملتی ہے۔ تو میرے مطابق اس کا جواب یہ ہے کہ وہ لوگ جو نا انصافی کی سب سے زیادہ قیمت چکاتے ہیں، آج کے نظام میں بالکل بے معنی ہو چکے ہیں۔ وہ اس نئے سیاسی ڈھانچے میں سیاسی یتیم ہیں۔ یہ طبقہ شاید شہری سیاست میں کہیں نہ کہیں آواز بلند تو کرتا ہے مگر قومی سطح پر سیاسی دھارے میں شامل نہیں ہو سکتا۔

انتخابات کے دن کے علاوہ جب کہ سیاسی جماعت کو ان کے ووٹ گننے ہوتے ہیں، یہ طبقہ کسی سیاسی قوت کے لیے کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔

تبصرے (8) بند ہیں

ارشد علی خان Jul 30, 2015 06:21pm
جہاں تک بات ہے غریبوں کے جدو جہد کی یا غریب طبقے کی مجموعی بغاوت کی تو ایسی صورتحال میں جہاں کوئی لیڈر یا رہنما نہ ہو وہاں کیسے کوئی تحریک منظم کی جا سکتی ہے۔جو لیڈران کرام ہمارے درمیان پائے جاتےہیں وہ مراعات یافتہ طبقے سے ہوتے ہیں جن کو ووٹ کے علاوہ غریبوں کے کسی مسئلے سے کوئی سروکار نہیں۔ دوسری بات غریب کو تو اس معاشرے نے دو وقت کی روٹی کی تلاش پر لگا رکھا ہے جہاں روز اس کا استحصال ہوتا ہے اور غریب یا ان پڑھ کی بات تو چھوڑیں یہاں تو آپ کا کارپوریٹ سکیٹر اچھے اچھے تعلیم یافتہ اور ماسٹر ڈگری ہولڈرز کا دل کھول کر استحصال کر رہا ہے (وہ کچھ نہیں کر پاتے اور اپنی نوکری بچنے کے لئے زہر کے گھونٹ جیسی خاموشی اپنانے پر مجبور ہیں ) کیا آپ کو پتہ ہے کہ کارپوریٹ سیکٹر کے زیادہ تر آفسز میں تنخواہیں دو ، تین ماہ تاخیر سے دینے کا رواج دن بدن زور پکڑتا جا رہا ہے ۔ ایسے میں غیر بے چارہ کیا کرے جب آپ کے معاشرے کا متوسط طبقہ بھی استحصال کی بھٹی میں جل رہا ہو ۔
Mohammad Ayub Khan Jul 30, 2015 07:48pm
BHAIYA TUM KARDO NAAn
Naveed Alam Jul 30, 2015 08:03pm
My suggestion is to writer of the Article that to change the name of organisation to some simple name as any body want to associated to such organisation might be afraid of name. Name indicate some kind of political involvement and as you aware that there may be victimization if we raise voice. This organisation may work for unjustification and do something to wake people.
Malik USA Jul 30, 2015 08:53pm
I do not agree with writer, the reason for not revolution in Pakistan is the people are divided on ethnic basis and they hate with each other. All four provinces like Punjabi, Sindhi, Balochi, Pakhtoons and urdu speaking are divided. Those who want to weaken Pakistan, the Group play these cards all times. These are not ready to listen each other, even someone speaking truth. The Federal Government has to play a very important role. But everybody knows the Federal Government itself does not look the Federal Govt. The other province has a minimum representation in the Federal Govt. Once all four provinces people will start understanding to each other and start recognizing who is their enemy. That day will be revolution day in Pakistan.
سجاد خالد Jul 31, 2015 12:37pm
'ان سب تحریکوں کا مسئلہ یہ ہے کہ یہ نظام میں موجود بڑی تفریق کو ختم کرنے کے بجائے خود کو انفرادی شناخت یا انفرادی حقوق تک محدود کر لیتی ہیں۔ یہ تحریکیں خود کو طبقاتی جدوجہد کی بنیاد پر اٹھنے والی تحریکوں کے ساتھ نہیں جوڑتیں، جس سے نقصان یہ ہوتا ہے کہ ریاست لوگوں کی توجہ ان انفرادی تحریکوں پر مرکوز کر کے طبقاتی تفریق کے بنیادی مسئلے سے جان چھڑا لیتی ہے۔' یہ تو بیانِ واقعہ جو مجھے بھی درست لگتا ہے لیکن اس واقعے کے بیچھے جو محرکات ہیں، اُن پر ابھی سیزِ حاڈل بحث باقی ہے۔
sharminda Jul 31, 2015 03:21pm
Pakistani awam ki majority baradri system ya jagirdar/zameendar system say taaluq rakhti hai. aisay system main infaradi ya mahdood ijtamaii mufadad foqiat rakhtay hain. pichlay kuch arsay main taleem ka shaoor barhnay say loag in systems say door hat rahay hain. Is liay aisi hai awazain buland hona shurru ho gaii hain. Insha-Allah waqt kay saath loago ki sooch main tabdeeli aay gi aur khamoosh inqalab aay gaa.
نجیب احمد سنگھیڑہ Jul 31, 2015 03:48pm
بغاوت یا انقلاب اس لیے نہیں وقوع پذیر ہو رہا کیونکہ آج کی نسل ولائیتی گھی کھا کر پلی بڑھی ہے اور جس میں طاقت کی بجائے صرف کولسیٹرول ہی ہوتا ہے۔ پرانی جنریشن دیسی گھی کا استعمال کرنے کے ساتھ ساتھ ملاوٹ سے پاک خوراک کھاتی تھی جس کے نتیجہ میں ان کے دل اور اعصاب مضبوط تھے۔ اس وجہ سے پرانی جنریشن لاٹھی چارج، قید و بند کی صعوبتوں اور دھونس دھمکیوں میں نہیں آتی تھی اور اٹھ کھڑی ہوتی تھی۔ برعکس اس کے آج کی نسل جون کی لو برادشت کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی کہ یہ ائرکنڈیشنڈ اور روم کولرز کی عادی ہے۔ نصاب بھی پہلے بغاوتی جراثیم پیدا کرتا تھا کیونکہ یہ حقیقت پر مبنی ہوتا تھا۔ لیکن موجودہ نسل ضیائی نصاب سے مستفید رہی۔ ملا ازم کے ہوتے ہوئے بغاوت یا انقلاب کا خواب دیکھنا مشکل ہے۔ بغاوت کے لیے پہلے اس ازم کو بھسم کرنا ہو گا کہ اس ازم نے آج کی نسل کو مکمل جکڑا ہوا ہے۔ پارٹیوں اور یونینز کے کرتا دھرتا پس پردہ حکومتوں کے ایجنٹ کا کام کرتے ہیں جس کے نتیجہ میں بغاوت کی راہ ہموار نہیں کی جاتی۔۔۔۔۔
asad Jul 31, 2015 07:24pm
Very composed and brilliant writing. Need of the Day.