ہندو خاتون کا ریپ: پولیس ایف آئی آر سے انکاری

01 اگست 2015
ٹھٹھہ کی رہائشی 30 سالہ ایمی ایک این جی او "مددگار" کی مدد سے انصاف کی تلاش میں ہیں—۔فوٹو/ وائٹ اسٹار
ٹھٹھہ کی رہائشی 30 سالہ ایمی ایک این جی او "مددگار" کی مدد سے انصاف کی تلاش میں ہیں—۔فوٹو/ وائٹ اسٹار

کراچی: ملک کی پسماندہ کمیونٹیز کی خواتین ک بااثر افراد کے ہاتھوں استحصال اور ریاست کی جانب سے اس طرف سے آنکھیں بند کرنے کا معاملے پس پردہ ہی رہتا اگر جمعے کو اس حوالے سے ایک پریس کانفرنس نہ کی جاتی.

ٹھٹھہ کی رہائشی 30 سالہ ایمی خواتین اور بچوں پر تشدد اور بد سلوکی کے حوالے سے کام کرنے والی ایک این جی او "مددگار" کی مدد سے انصاف کی تلاش میں ہیں.

ستم ظریقی یہ ہے کہ پولیس نے نہ صرف ایمی کی شکایت پر ایف آئی آر درج کرنے سے انکار کیا بلکہ انھیں جنسی طور پر ہراساں بھی کیا.

ایمی کے مطابق اس معاملے سے حکومت کو تحریری طور پر آگاہ کیا گیا لیکن کوئی ایکشن نہیں لیا گیا.

مددگار ہیلپ لائن کے تعاون سے ان کے دفتر میں منعقد کی گئی ایک پریس کانفرنس کے دوران ایمی نے بتایا : " جب میں اپنی شکایت لے کر ٹھٹھہ پولیس کے پاس گئی تو کسی نے میری بات کو سنجیدگی سے نہیں لیا اور وہاں موجود اسٹاف نے مجھ پر ہنسنا شروع کردیا، مجھے کہا گیا کہ میں ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ آف پولیس ( ڈی ایس پی) مکلی کے گھر جاکر ایف آئی آر درج کراؤں".

ایمی نے بہتے آنسوؤں کے دوران پولیس افسران پر ان کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کا الزام لگایا اور کہا کہ "میرا 8 سال تک استحصال کیا گیا اور میں نے انصاف کا مطالبہ کیا".

ایمی کی مشکلات کا آغاز اس وقت ہوا جب 2008 میں ان کی ایک شخص سے فون پر دوستی ہوئی. میرپور ساکرو کے رہائشی شہباز نامی شخص نے ایمی کو اپنے گھر کے باہر ملنے کا کہا اور پھر رمضان نامی ایک اور شخص کی مدد سے انھیں اغواء کرلیا.

وہ ایمی کو ایک نامعلوم مقام پر لے گئے جہاں 20 دن تک انھیں ایک اندھیرے کمرے میں رکھا گیا، تشدد کیا گیا اور انھیں ریپ کا نشانہ بنایا گیا.

ایمی نے بتایا کہ بعد ازاں انھیں فروخت کر کے نوابشاہ لے جایا گیا.

نوابشاہ میں ایمی پر دباؤ ڈال کر ہندومت چھوڑ کر اسلام قبول کرنے کے لیے کچھ کاغذات پر دستخط کروائے گئے اور پھر جاوید خاصخیلی نامی ایک شخص سے جعلی شادی کروا دی گئی، جس نے ایمی کو جسم فروشی پر مجبور کیا. انھوں نے 2 مرتبہ فرار ہونے کی کوشش کی جس کی انھیں سزا دی گئی.

ایمی نے بتایا کہ انھیں جلایا گیا، پہلے وہ نوابشاہ کے ایک ہسپتال میں اور پھر حیدرآباد میں کمبائنڈ ملٹری ہسپتال میں زیرِعلاج رہیں.

پریس کانفرنس کے دوران ایمی نے بتایا کہ انھیں جاوید کی اہلیہ کی حیثیت سے اپنی شناخت کروانے کا کہا گیا جبکہ انھیں زہر بھی دیا گیا.

ایمی کے مطابق انھوں نے حیدرآباد میں 6 سال قید میں گزارے جس کے دوران وہاں ان کی 3 لڑکیوں سے ملاقات ہوئی جنھیں جسم فروشی کے لیے خریدا گیا تھا. آخر کار عید کے دوسرے دن وہ فرار ہونے میں کامیاب ہوگئیں اور ٹھٹھہ میں اپنے گھر پہنچیں، لیکن یہاں پہنچ کر انھیں معلوم ہوا کہ ان کے واحد قریبی رشتے دار، والد کا ان کے اغواء کے بعد انتقال ہوگیا تھا.

انھوں نے مزید بتایا کہ ایک دوست کی مدد سے میں کراچی کی عدالت آئی جہاں مجھے کسی نے مشورہ دیاکہ مجھے مددگار سے مدد لینی چاہیے.

ایمی نے ان کو قید میں رکھنے والوں میں سے ایک کی تصویر اور شناختی کارڈ بھی میڈیا بریفنگ کے دوران دکھایا.

اس حوالے سے مددگار کے ایڈووکیٹ ضیاء اعوان نے بتایا کہ ان کی تنظیم نے متاثرہ خاتون کا کیس تیار کرلیا ہے اور متعلقہ پولیس افسران سے بھی رابطہ کیا ہے لیکن پولیس یہ کیس درج کرنا ہی نہیں چاہتی.

انھوں نے بتایا کہ ٹھٹھہ پولیس کا اصرار ہے کہ یہ کیس ان کی حدود میں نہیں آتا اور اس حوالے سے میرپور ساکرو پولیس سے رابطہ کرنا چاہیے. ہم نے مذکورہ خاتون کو وہاں جانے کا کہا لیکن انھوں نے بھی یہ کیس رجسٹر کرنے سے انکار کردیا تاہم دونوں پولیس اسٹیشنز نے درخواست قبول کرلی ہے.

ضیاء اعوان کے مطابق جب ان کی این جی او کو منسٹر برائے کلچر شرمیلا فاروقی سمیت حکومت کی جانب سے کوئی مثبت جواب نہیں ملا تب ہی ہم نے یہ کیس میڈیا کے سامنے لانے کا فیصلہ کیا.

انھوں نے کہاکہ ریاست کی جانب سے ایکشن نہ لیا جانا اور انصاف کی عدم فراہمی بھی ایک طرح کی دہشتگردی ہے، "ہم چاہتے ہیں کہ اس کیس کی سنجیدگی سے تفتیش کی جائے اور مجرمان کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے".

ضیاء اعوان کا مزید کہنا تھا کہ یہ معاملہ تو پہاڑ کی ایک چوٹی جیساہے، زیادہ تر کیسز تو رپورٹ ہی نہیں ہوتے اور بہت سے کیسز جو ہم تک پہنچتے ہیں، ان میں ظلم کا شکار افراد میڈیا کے سامنے آکر بات نہیں کرنا چاہتے.

انھوں نے پولیس اور انصاف کے نظام کو فعال بنانے کی ضرورت پر بھی زور دیا.

تبصرے (8) بند ہیں

Muhammad Usman Aug 01, 2015 01:29pm
That's ridiculous..Islam is not a religion that has spread through oppression..Islam is a religion of peace and Love and does not give freedom to anyone to make any wrong act to make anyone a Muslim..We Strongly condemn such act and these Criminals must be arrested and punished so badly that no one has develop courage again to make such oppression in the Name off Islam..
mianhassan Aug 01, 2015 04:06pm
insaf melna chahya in ko idara thek kam kary dua ha RAB Sa
محمد الطاف Aug 01, 2015 05:26pm
پاک سر زمین پر ایسا کام ممکن نہیں ہے۔ مجھے یقین ہے یہ جھوٹی خبر ہے اور پاکستان اور اسلام کو بدنام کرنے کی سازش ہے۔
عائشہ بخش Aug 01, 2015 06:59pm
@محمد الطاف صاحب : نے اچھا مذاق کیا ہے ۔ پاکستان تو کیا چیز ہے ۔ جناب عورتوں میں ظلم تو سعودی عرب اور ایران ’’جیسے اسلامی‘‘ ریاستوں میں بھی جاری ہے ۔
عائشہ بخش Aug 01, 2015 07:02pm
ہمارے معاشرہ میں کمزور اور بے بس انسان پر ظلم کرنے کا رواج عام ہے ۔ ہمارے بڑے شہروں لاہور ، کراچی ، اسلام آباد، پشاور وغیرہ میں بھی اس طرح کے واقعہ عام ہیں۔ حکومت کے ساتھ ساتھ میڈیا کی بھی ذمہ داری ہے کہ لوگوں کے اخلاقی تربیت کریں۔
انیلا احسان Aug 01, 2015 08:21pm
@محمد الطاف واہ جی واہ، پاکستان اور اسلام پہلے بہت نیک نام ہیں جو اب بدنام ہوں گے
Imran Ali Khan Aug 02, 2015 02:31am
Justice becomes joke for people of Pakistan. Influenced people tried to crush deprived person, s in Pakistan. NGO stop promoting their organization for collection of more foreign funds on the name of this helpless girl .she should be given Justice at any cost to eliminate cruelty from society.
Ali Azhar Aug 02, 2015 11:06am
سوائے افسوس کے میرے پا س الفاظ ہی نہیں ہیں،، پتہ نہیں کب سستا ہوگا اورررررر غریب کو انصاف ملےگا