کینجھر: رومان، روزگار اور زندگی کی جھیل

پانی کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اس کا نہ کوئی رنگ ہے اور نہ ہی کوئی ذائقہ، فطرت کے بھی عجیب اسرار ہیں جن میں حیرانگی کی کئی پگڈنڈیاں نکلتی ہیں اور دور تک چلی جاتی ہیں، شعور کی سرحد سے بھی باہر۔ پانی جس کا کوئی رنگ نہیں ہے پر جس رنگ میں ملاؤ اس رنگ میں رنگ جاتا ہے، دنیا کی ساری خوبصورتیاں، سارے رنگ، سارے کیفیتیں اور سارے ذائقے اس پانی کی وجہ سے ہی ہیں لیکن پھر بھی ہے بے رنگ اور بے ذائقہ۔

رچرڈ ایف برٹن نومبر 1845 میں کراچی سے حیدرآباد جانے کے لیے نکلا تھا، ساتھ میں کچھ اونٹ بھی تھے جن پر اس کا سامان لدا ہوا تھا اور اس سفر سے کچھ زیادہ خوش نہیں تھا۔ وہ مکلی اور ٹھٹہ سے ہوتا ہوا، جاڑوں کے ابتدائی دنوں میں یہاں "کینجھر" پہنچا تھا۔ وہ لکھتا ہے: "یہ مچھِیروں کی ایک بستی ہے۔ یہاں میٹھے پانی کی جھیل ہے جس کے کناروں پر سرکنڈے، پھوس، دوب اور دوسری جنگلی گھاس اگی ہوئی ہے۔ یہاں سے سامنے ایک چھوٹی سی پہاڑی پر سرخ پتھر کا مزار نظر آتا ہے۔ یہ 'جام تماچی' کی محبوب گھر والی 'نوری' کا مزار ہے۔"

اس کے بعد برٹن صاحب 'جھرک' کی طرف بڑھا اور یہاں کے گھنے جنگلوں اور جنگلی حیاتیات کو دیکھا اور جنگلوں کے فائدوں کے متعلق بہت کچھ تحریر بھی کیا۔ برٹن صاحب کو یہیں پر چھوڑتے ہیں، کیونکہ یہاں کے جنگلوں میں اس کے قافلہ کا ایک اونٹ کھو گیا تھا۔

مغربی کنارے سے.
مغربی کنارے سے.
مغربی کنارے سے.
مغربی کنارے سے.

ابن بطوطہ 1333 میں یہاں آیا تھا یا نہیں، اس کے متعلق یقین سے نہیں کہا جا سکتا۔ البتہ کینجھر کی قدامت کے متعلق 'سمہ دور حکومت' (1519-1351) میں اس جھیل کا تذکرہ اور "نوری جام تماچی" کی خوبصورتی کے رنگوں میں ڈوبی ہوئی عشقیہ داستان کا تفصیلی ذکر سننے کو ضرور ملتا ہے۔

حضرت شاہ عبداللطیف بھٹائی (1752-1690) نے 'نوری' اور 'جام تماچی' کے رشتے کو جس رنگ میں دیکھا اور محسوس کیا اس کا اظہار انہوں نے "شاھ جو رسالو" کے 'سر کاموڈ' میں کیا ہے۔ 'کاموڈ' بنیادی طور پر ایک مشہور راگنی کا نام ہے جس کا تعلق دیپک راگ سے بتایا جاتا ہے۔ اس عشقیہ داستان کے متعلق شاہ سائیں کہتے ہیں:

"وہ ملاحوں میں پیدا تو ہوئی تھی، مگر قسمت میں تھے اوصاف حوری،

سمہ سردار نے پہچان کر ہی، اسے بخشا تھا اعزاز حضوری،

'سرندے' میں نیا تاگا ہو جیسے، یوں ہی تھی رانیوں کے بیچ نوری"

کہتے ہیں کہ "سمہ خاندان کے ایک مشہور حاکم 'جام تماچی' کے عہد میں کینجھر جھیل کے اردگرد بہت سے مچھیرے رہا کرتے۔ وہ مچھلی پکڑتے اور بیچتے، بس زندگی کے شب و روز ایسے ہی گزرتے جاتے۔ ان مچھیروں میں ایک کے یہاں چاند جیسی بیٹی پیدا ہوئی، اس کی ماہتابی صورت دیکھ کر اس کا نام 'نوری' رکھ دیا۔ جام تماچی سیر و شکار کا بے حد شوقین تھا۔ ایک مرتبہ وہ ایک خوبصورت شاہی کشتی میں سوار ہوکر کینجھر جھیل کی سیر کر رہا تھا کہ اتفاقاً اس کی نظر اس حسین و جمیل دوشیزہ پر پڑی۔ پہلی ہی نظر میں اس کی طرف کچھ ایسا مائل ہوگیا کہ جب واپس اپنے محلات پہنچا تو نوری کی خوبصورت آنکھوں نے اس کا آرام و چین چرا لیا۔ اسی بے چینی میں ذات پات کے سارے بندھن توڑ کر اس نے نوری سے شادی کرنے کی خواہش ظاہر کی اور بطور خاص اس کے رشتہ داروں کو شاہی محل میں طلب کیا۔ نوری کے عزیز و اقارب نے یہ رشتہ بڑی خوشی سے قبول کیا۔

جام تماچی کے حکم سے شادیانے بجنے لگے۔ مچھیروں سے جو محصول لیا جاتا تھا اسے بالکل معاف کردیا گیا، اور شاہی خزانے سے ہر ایک کو اتنا مال و زر عطا کیا گیا کہ آن کی آن میں ان غریبوں کے دن پھر گئے۔ نوری شاہی محل میں رہنے لگی، اور اکثر شام کے وقت کشتی میں بیٹھ کر کینجھر جھیل کی سیر کرتی۔ نوری کو اس قدر اوج پر دیکھ کر سب لوگ بصد احترام آداب شاہی بجا لاتے، حتیٰ کہ تمام دوسری رانیوں کو بھی اس کے سامنے جھکنا پڑتا۔ لیکن خلافِ توقع اتنا اعزاز حاصل ہونے کے بعد بھی نوری کی سادگی اور نیازمندی میں کوئی فرق نہیں آیا۔ نوری نے اپنی اس سادہ طبیعت اور نیازمندی سے جام تماچی کے محل کی 'مہارانی' کا لقب پایا۔

"کنارہ کش رہی ہر انجمن سے، جدا سب سے تھی اس نوری کی فطرت،

سے کیا اہل کینجھر سے تعلق، تماچی سے ہوئی جس کو محبت۔"

کہا جاتا ہے کہ نوری کو اس کی موت کے بعد کینجھر جھیل کے وسط میں دفن کیا گیا. ایک قبر بھی یہاں پر موجود ہے مگر کچھ مؤرخین کا اس بارے میں اختلاف ہے کہ آیا یہ نوری ہی کی قبر ہے یا نہیں. شاہ عبداللطیف بھٹائی بھی یہاں شاید جاڑوں کے موسم میں آئے ہوں گے۔ اپنی شاعری میں کینجھر کی خوبصورتی بڑے خوبصورت انداز میں بیان کی ہے۔ ایک شعر کا لب لباب یہ ہے کہ: "کینجھر میں پانی اور اوپر پانی میں جھولتی ہوئی گھاس ہے۔ کناروں پر درختوں کی قطاریں ہیں، ایسے میں جب جاڑوں کا موسم آتا ہے اور شمال کی ٹھنڈی ہوائیں لگتی ہیں تو کینجھر جھولنے جیسی ہوجاتی ہے۔"

مگر میں جب مئی میں جھیل کے مغربی کنارے پر پہنچا تو مغربی جنوبی ہوائیں اپنے زوروں پر تھیں اور تیز دھوپ تھی جس کی وجہ سے آنکھیں چندھیا سی جاتیں، اور دور دیکھنے کے لیے سر پر ہتھیلی جمانی پڑتی۔ میں پتھریلے راستے پر چلتا جاتا کہ جھیل کے کنارے کھڑے پیپل کے پیڑ کے پاس پہنچ سکوں۔ مٹیالے رنگ کے پتھر پاؤں کے نیچے آتے اور ایسی آواز آتی جیسے ہم مصری کی ڈلی کو منہ میں رکھ کر توڑتے ہیں۔ میں جب پیپل کے پیڑ تک پہنچا تو پسینے سے تربتر تھا۔ ہوائیں شمال کی نہیں تھیں اس لیے جھیل بھی جھولنے جیسی نہیں تھی پر کنول کے پھول تھے جو کنارے پر کھلتے تھے اور ساتھ میں پھوس بھی تھی جو کنول کے پھولوں کے ساتھ اگی تھی۔

تیز ہوا کی وجہ سے لہروں کو سکون نہیں تھا اور ہوائیں پانی کی سطح پر گاتی گنگناتی دور تک چلی جاتیں۔ ہوا کے تیز جھونکوں پر پیپل کے پتے ایک ردھم سے ایسے بجتے جیسے ننھے منھے ہاتھ تالیاں بجا رہے ہوں اور پھر جھونکا گزر جاتا تو پتے بھی خاموش ہوجاتے۔ میری نظر جہاں تک جاتی ہے ایک نیلی پانی کی لکیر بچھی ہوئی ہے۔ پھر اچانک اس لکیر پر ماہیگیروں کی کشتی ظاہر ہوتی ہے اور پھر دیکھتے دیکھتے اس نیلی لکیر میں کہیں گم ہوجاتی ہے۔

صدیوں سے یہ جھیل یہیں پر ہے البتہ 60 کی دہائی میں اس کے شمال میں دوسری چھوٹی جھیل 'سونہیری' کو اس سے ملا دیا گیا اور کینجھر کو وسعت دی گئی تاکہ کراچی کو اسی جھیل سے پینے کا میٹھا پانی فراہم کیا جا سکے۔ 1976 میں اس کی پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش بڑھائی گئی اور اب کوٹری بیراج جامشورو سے 'کلری بگھار فیڈر' کے ذریعے جھیل کو پانی کی فراہمی ہوتی ہے، اور جھیل سے کراچی کو پینے کا پانی فراہم کیا جاتا ہے۔

کینجھر کو اس وقت دو اعزاز حاصل ہیں۔ ایک یہ کہ یہ ملک کی تازہ میٹھے پانی کی سب سے بڑی جھیل ہے جس کی لمبائی اندازاً 24 کلومیٹر اور چوڑائی 6 کلومیٹر سے زیادہ ہے۔ یہ اندازاً 13,470 ہیکٹرز میں پھیلی ہوئی ہے اور اس کی پانی کی گنجائش 0.53 ملین ایکڑ فٹ ہے۔ دوسرا یہ کہ اس کو 'رامسر' سائیٹ ہونے کا اعزاز ملا ہوا ہے، جو ان جھیلوں کو دیا جاتا ہے جو ماحولیاتی حوالے سے بڑی شاندار اور مالدار ہوتی ہیں۔

کلری بگھار فیڈر.
کلری بگھار فیڈر.

ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ (WWF) کی ایک رپورٹ کے مطابق یہاں سردیوں کے موسم میں 'انڈس فلائی وے زون' کے راستے باہر سے آنے والے پرندوں کی تعداد 1 لاکھ تک ریکارڈ کی گئی ہے۔ اور 1977 سے اس جھیل کو 'وائلڈ لائف سینکچوئری' قرار دیا گیا ہے۔ اس جھیل کے قرب و جوار میں 40 ہزار سے زیادہ مچھیرے رہتے ہیں جن کا ذریعہ معاش اس جھیل سے وابستہ ہے اور 800 کے قریب چھوٹی بڑی کشتیاں ہیں جو اس جھیل سے مچھلی پکڑتی ہیں۔ ڈبلیو ڈبلیو ایف نے اپنی رپورٹ میں یہ حقیقت بھی تحریر کی ہے کہ 1988 میں یہاں مچھلی 58 ہزار میٹرک ٹن پکڑی گئی جبکہ 2005 میں یہ کم ہوکر 15650 میٹرک ٹن رہ گئی۔ اس کے علاوہ سردیوں میں آنے والے مہمان پرندوں کی تعداد 1988 میں 2 لاکھ 5 ہزار تھی جبکہ 2002 میں کم ہو کر 30,610 تک رہ گئی۔

پیپل کے پتے ابھی تک چھوٹے معصوم ہاتھوں سے تالیاں بجا رہے تھے۔ میں کچھ تصاویر بنانے کی تگ و دو کر چکا تھا۔ میں نے جھیل کے مغربی کنارے سے جھیل کی خوبصورتی کو دل کی آنکھوں سے دیکھا۔ یقیناً کینجھر خوبصورت تھی۔ اور اب مشرقی کنارے پر جانا تھا، میں 'جھم پیر' کے نیم غنودگی میں ڈوبے ہوئے چھوٹے سے شہر کے بیچ سے گزرا۔ دھوپ کی وجہ سے بازار ویران پڑا تھا اور دکانداروں کی آنکھیں گاہک کا انتظار کرتی رہتیں۔ گاہک تو نہ آتا مگر نیند کا خمار ضرور آجاتا اور وہ اونگھنے لگتے۔ مجھے کچھ خریدنا نہیں تھا اس لیے میں نے ان کی نیند خراب نہیں کی۔

شہر سے نکلنے کے بعد ایک بے آب و رنگ لینڈاسکیپ آنکھوں کے سامنے پھیل گیا۔ نہ کسی درخت کا وجود اور نہ گھاس کا ہرا تنکا، بس کہیں کہیں زقوم کی جھاڑی اگی تھی جو احساس دلاتی کہ دنیا میں ابھی رنگ ہیں۔ تھوڑا آگے چلے تو پھیکی زرد پہاڑیاں جیسے چار سو اگ سی گئیں۔ پھر اچانک لینڈ اسکیپ تبدیل ہوگیا اور پتھروں کی جگہ بھوری مٹی نے لے لی اور زمینوں سے ہرا رنگ ابل سا پڑا۔ پھر مچھیروں کے چھوٹے چھوٹے گاؤں آئے اور پھر آب جو آئی، پانی سے بھری ہوئی اور کینال کے دروازوں سے پانی شور کرتا کینجھر جھیل سے ملنے کے لیے سرپٹ بھاگ رہا تھا۔

کینال کے کنارے برگد کے گھنے پیڑ ہیں جن کی گھنی چھاؤں آپ کو ٹھنڈک اور سکون کی لوریاں دیتی ہے۔ درختوں سے لمبے لمبے گچھے لٹک رہے ہیں۔پھر اس پرسکون چھاؤں میں ہمیں کچھ بوڑھے ملے جن میں سے کچھ سو رہے تھے۔ ان میں سے ایک نوجوان 'ارشاد عمر گندرو' مقامی پرائمری اسکول میں استاد ہیں۔ میں نے جب کینجھر جھیل کے حال اور مستقبل کے متعلق ان سے پوچھا تو انہوں نے کہا: "1956 میں بند باندھ کر جامشورو سے اس کو دریائے سندھ کا پانی دیا گیا۔ یہ پانی سیدھا کینجھر میں جاتا جس سے مچھلی کا سارا بیج جھیل میں آجاتا جس کی وجہ سے مچھلی بہت ہوتی تھی اور کراچی سے لے کر لاہور تک یہاں کی مچھلی جاتی تھی۔

1960 سے لے کر 1980 کا زمانہ ایسا خوشحال تھا کہ کوئی مہمان آتا تو واپسی پر اسے کئی کئی 'کرڑے' اور 'موراکھے' (میٹھے پانی کی اعلیٰ نسل کی مچھلیاں) تحفے میں دیتے۔ مگر 1980 میں کینجھر کی 'انلیٹ چلیہ سائیٹ RD-189 سے لنک کینال نکال کر جھیل میں سیدھے آتے ہوئے پانی کو روکا گیا، جس کی وجہ سے مچھلی کے بیج کا بڑا حصہ اس لنک کینال میں جانے لگا۔ دوسری طرف 'کراچی ایمرجنسی ریگیولیٹر' اور 'کے بی فیڈر لوور چلیہ' پر جالیاں نہ ہونے کے سبب کینجھر مچھلی کے حوالے سے برباد ہوگئی ہے۔"

برگد کے پیڑ کی چھاؤں گھنی تھی مگر اس نوجوان کی بات نے ایک خاموشی کی چادر سی کھینچ دی۔ میں نے دوسرا سوال نہیں کیا۔ اس نے اپنے گاؤں میں ایک قدیم خستہ اسکول دیکھنے کی دعوت دی جس کی عمارت آزادی کے وقت بنی تھی۔ اس کے بعد اس عمارت کو کسی نے مڑ کر نہیں دیکھا۔ سوچا ہوگا: 'اسکول کا کیا ہے، کہیں بھاگا تو نہیں جا رہا۔ زمانے میں اور بھی اہم کام ہیں۔' بہرحال میں نے اس نوجوان کے گاؤں آنے اور اسکول کو دوسری دفعہ دیکھنے کا وعدہ کیا، اور کینجھر جھیل کے اس حصے کی طرف چل پڑا، جہاں گرمیوں میں لوگوں کے میلے لگتے ہیں۔

لیکن وہاں پہنچنے سے پہلے مجھے مچھیروں کی ان چھوٹی بستیوں سے گزرنا پڑا جہاں چھوٹے چھوٹے کچے گھروں کے آگے ان کے چھوٹے چھوٹے کچے آنگن بکھرے پڑے تھے۔ کچھ لوگ جھیل سے پھوس کاٹ رہے تھے۔ اس کام میں ان کے بچے بھی ان کی مدد کرتے اور ساتھ میں جھیل کے پانی میں ڈبکی بھی لگالیتے۔ صبح ہوتی، شام ہوتی، اور جھیل کے کناروں پر زندگی یوں ہی تمام ہوتی۔ میں کچھ گھروں میں بھی گیا۔ یہ درد کی ایک الگ داستان ہے جو پھر کبھی سہی۔

مچھیروں کی ایک چھوٹی سی بستی.
مچھیروں کی ایک چھوٹی سی بستی.

میں کینجھر کے اس کنارے پر آیا جہاں گرمیوں میں لوگوں کا میلہ لگتا ہے، اور وہاں میلہ ہی لگا ہوا تھا۔ لہریں کنارے کو چھو کر لوٹ جاتیں۔ بچے پانی میں نہاتے۔ بڑے بھی نہاتے۔ ہزاروں لوگوں سے بھرا ہوا کینجھر کا کنارہ۔ تب مجھے کسی نے بتایا کہ 'پاکستان فشر فوک فورم' کے چیئرمین محمد علی شاہ صاحب یہاں کسی میٹنگ کے سلسلے میں آئے ہوئے ہیں۔ شاہ صاحب سے ملنے کا یہ موقع غنیمت تھا۔

میں نے کینجھر کی بگڑتی ہوئی ماحولیاتی صورتحال کے حوالے سے سوال کیا۔ جواب میں شاہ صاحب نے کہا: "مچھلی کے بیج کے اہم مسئلے کے علاوہ دوسرا اہم مسئلہ یہ بھی ہے کہ اس جھیل کو ماحولیاتی گندگی کے ذریعہ برباد کیا جا رہا ہے۔ کوٹری اور نوری آباد کی انڈسٹریوں کا اخراج اس جھیل میں ہوتا ہے۔ کے بی فیڈر میں جو پانی آتا ہے اس میں شہروں کی گندگی کا اخراج ہوتا ہے۔ اب ایسی حالتوں میں ہم امید کریں کہ یہ جھیل ماحولیاتی آلودگی سے پاک ہو، تو یہ ایک دیوانے کا خواب ہی ہے۔ اور اس ماحولیاتی بربادی کا سب سے بڑا اثر مقامی ماہیگیروں پر پڑا ہے۔

"ہزاروں خاندان ہیں جو یہاں سے ہجرت کر کے ابراہیم حیدری، ریڑھی میان اور کراچی کے دوسری فشنگ پوائنٹس پر چلے گئے ہیں۔ جانے کا سبب اس جھیل کے سکڑتے ہوئے وسائل ہیں جو روز بروز سکڑتے جا رہے ہیں۔ اور اگر اس کو پکنک پوائنٹ بنانا ہے تو ماحولیات کے قانون کی پاسداری کیوں نہیں کی جاتی؟ 'سندھ انوائرمنٹل پروٹیکشن ایکٹ 2014' پر عمل کیوں نہیں کروایا جاتا؟ اور ان سب غیر ذمہ دارانہ روش کے اَثرات مقامی ماہیگیر برادری کو سہنے پڑ رہے ہیں۔"

میں ریسٹورنٹ سے باہر آیا۔ سورج ڈوب چکا تھا اور اس کی لالی آسمان پر پھیلی تھی۔ دور کچھ کشتیاں تھیں جن میں مچھیرے تھے جو جھیل کے اس گہرے اور وسیع پانی میں ماہی کی تلاش کرتے تھے کہ گھر کے آنگن میں بنے ہوئے مٹی کے چولھے میں آگ جل سکے اور اس آگ پر سرخ چاول کی روٹی پک سکے۔

جہاں ہزاروں لوگ تھے اب وہاں کچھ لوگ رہ گئے تھے اور وہ بھی جانے کی تیاری میں تھے۔ میں کینجھر کنارے پر آیا۔ منرل واٹر کی خالی بوتلیں، سافٹ ڈرنکس کے ٹن، جوس کے ڈبے، چپس کی تھیلیاں اور بہت کچھ کنارے پر پھیلا ہوا تھا۔ شاہ صاحب کی طرح مجھے بھی انوائرمنٹ ایکٹ کہیں نظر نہیں آیا۔

صدیوں پرانی اس جھیل کے کناروں پر نہ جانے کتنے لوگ آئے اور گئے، ہنسی اور خوشی کے کتنے کنول ان کناروں پر کھلے۔ الوداع کے کتنے موسم آنسوؤں کی چادر اوڑھے روتی ہوئی کوئلوں کی طرح کب کے اڑ چکے۔ پہلی نظر کی کتنی فاختائیں کب کی پھر ہو چکیں، مگر کینجھر وہیں پر ہے اس نے اپنی دین میں کوئی کمی نہیں کی۔

اس کی خوبصورتی اور دین ہزاروں برس چَلے، اس کے لیے ہم سب کو سوچنا پڑے گا، کیونکہ ہم چاہتے ہیں کہ ہماری آنے والی نسلیں ان کناروں پر آئیں اور اس جھیل کی خوبصورتی کو اپنے دل میں آخری دم تک سنبھال رکھیں۔

— تصاویر بشکریہ ابوبکر شیخ


حوالہ جات

رسالہ شاہ عبداللطیف بھٹائیؒ"۔ مترجم: شیخ ایاز۔ سندھیکا اکیڈمی کراچی۔

"تحفتہ الکرام"۔ میر علی شیر قانع۔ سندھی ادبی بورڈ

"سندھ منھںجی نظر میں"۔ رچرڈ ایف برٹن۔ مترجم: عطا محمد بھنبھبرو۔ سندھیکا اکیڈمی، کراچی


ابوبکر شیخ آرکیولاجی اور ماحولیات پر لکھتے ہیں۔ انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر کے لیے فوٹوگرافی اور ریسرچ اسٹڈیز بھی کر چکے ہیں۔


ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دیے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔