پکوان کہانی: کھٹی دال

30 اگست 2015
منفرد حیدرآبادی ذائقے کے ساتھ کھٹی دال کو مسور یا مونگ کی دالوں کے ساتھ پکایا جاسکتا ہے۔— تصاویر بسمہ ترمذی
منفرد حیدرآبادی ذائقے کے ساتھ کھٹی دال کو مسور یا مونگ کی دالوں کے ساتھ پکایا جاسکتا ہے۔— تصاویر بسمہ ترمذی

کھٹی دال سے میرا تعارف اس وقت ہوا جب اسے میری ایک بہترین دوست کے گھر پر بنایا گیا، اس کی آیا جسے پیار سے اماں کہا جاتا تھا، کا تعلق حیدرآباد دکن سے تھا۔

میرے اپنے گھر میں شاید ہی کبھی کھٹی دال تیار کی گئی ہو اور میں حیران ہوتی ہوں کہ نسلی پس منظر روزمرہ کے کھانوں کے انتخاب کے تعین میں کس حد تک اہم کردار ادا کرتا ہے۔

میری تحقیق نے مجھے بتایا کہ اس خطے کے پکوانوں پر جنوبی ہند کا مضبوط اثر پایا جاتا ہے. سبزیوں، دالوں، بیجوں، بیسن، ناریل کے دودھ، املی اور مونگ پھلی سمیت دیگر کو پکانے کے تخلیقی طریقہء کار انہیں وہ ذائقہ دیتے ہیں جو انہیں منفرد حیدرآبادی پکوان بناتے ہیں۔

کھانوں کی تاریخ کی ماہر لزی کولنگھم اپنی کتاب Curry میں حیدرآبادی پکوانوں کی ارتقاء کے حوالے سے بتاتی ہیں "جنوبی ہندوستان دوسرے خطوں سے آنے والے افراد کی جانب سے پکوانوں کے اثر و رسوخ کی طویل تاریخ رکھتا ہے۔ ہندوستان کا وہ حصہ جسے دکن کے نام سے جانا جاتا ہے، وہاں ایران سے تعلق رکھنے والے اہلِ تشیع افراد کو 14 ویں صدی کے دوران بہمنی ریاست میں روزگار کے مواقع ملے۔ بہمنی ریاست بتدریج مختلف چھوٹی چھوٹی ریاستوں کی شکل میں تقسیم ہوگئی جس میں سے ایک گولکنڈہ تھی جسے بعد میں حیدرآباد کے نام سے جانا گیا"۔

"دو مختلف انداز کے ملنے سے پکوانوں کا ایک نفیس انداز غیر معمولی امتزاج کے ساتھ ابھرا، جیسے بکروں کو بیجوں اور املی کے ساتھ پکایا جانے لگا (دالوں اور سبزیوں کو بھی املی کے ساتھ بنایا گیا تاکہ ایک انوکھا ذائقہ دیا جاسکے)"۔

تاہم خطے کی تاریخ سے عندیہ ملتا ہے کہ حیدرآبادی پکوان جنھیں آج ہم جانتے ہیں، درحقیقت 17 صدی میں ارتقاء پا کر سامنے آئے۔ مغل شہنشاہ اورنگزیب نے دکن میں پیشقدمی کرتے ہوئے خطے کو فتح کرنے کی توقعات کے ساتھ گولکنڈہ کے قلعے کا محاصرہ کیا۔

دکنی عوام نے مغل حکمران کے خلاف آٹھ ماہ تک مزاحمت کی، اس وقت جب مغل فوج انتظار کر رہی تھی، اس وقت قلعے میں محاصرے کے دوران باورچیوں اور باہر موجود ان کے ہم منصبوں کو اتنا وقت ملا کہ وہ جدید عہد کے حیدرآبادی پکوانوں کو تخلیق کرسکیں۔

حیدرآبادی کھٹی دال مسور یا مونگ سمیت دیگر دالوں کو استعمال کرکے پکائی جاسکتی ہے۔

اکنامکس ٹائمز میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں وکرم ڈاکٹر بتاتے ہیں "دالوں کو آگ پر جلانا پکوانوں کے اس انداز کی جانب اشارہ کرتا ہے جو 11 ہزار سال قبل مسیح کے یونان میں کھائے جاتے تھے. مشرقی بحیرہ روم میں سب سے پہلے دالوں کو دیگر ابتدائی اناج کے ساتھ کاشت کیا۔ کین البالا اپنی کتاب 'history of legumes' میں وضاحت کرتے ہیں کہ دالیں اس عہد میں بہت اہم سمجھی جاتی تھیں کیونکہ انہیں اگانے کے لیے بہت کم بارش کی ضرورت ہوتی ہے اور اسے کسی بھی طرح کی زمین پر اگایا جاسکتا ہے۔ ایک شخص اس کی بدولت سبزی پر مشتمل غذا کا خرچہ اٹھا سکتا تھا اور دالوں سے ایسی بڑی آبادی کی مدد بھی کی جاسکتی تھی جو شکار نہیں تھی"۔

کے ٹی اچایا نے انڈین فوڈ کی تاریخ میں امکان ظاہر کیا ہے کہ لفظ مسور بنیادی طور پر ہندوستان کے قدیم باشندے استعمال کرتے تھے، مگر اس حوالے سے ایک اور خیال بھی موجود ہے، دالوں کے حوالے سے مصری شہرت بھی سفر کرکے یہاں پہنچی اور ہمیں مصری کا نام ملا، یہ وہ قدیم نام ہے جو مصر سے متعلق ہر چیز کے لیے استعمال ہوتا تھا۔

اچایا یہ نکتہ اٹھاتے ہیں کہ ان دالوں کا ریکارڈ سنسکرت کتابوں میں موجود ہے جو کہ ممکنہ طور پر براہ راست مصری رابطوں سے پہلے کی ہیں، مگر الفاظ حیرت انگیز طور پر پھیلنے کے ساتھ موجود رہے اور اس نام کو فروغ اس وقت ملا جب مسلمان ہندوستان پہنچے اور یہاں کے کھانوں کو اپنے پکوانوں سے ملتا جلتا پایا۔

دالیں آئرن اور وٹامن بی سے بھرپور ہوتی ہیں اور دالوں کی کچھ اقسام میں پروٹین کی مقدار بھی کافی ہوتی ہے یعنی گوشت کے برابر یا اس سے زیادہ۔

جب میں نے کھٹی دال بنائی تو میں نے شازلی آنٹی کی کک بک سے ایک بار پھر رجوع کیا، بدقسمتی سے اماں کی کھٹی دال کی ترکیب مل نہیں سکی اور اس کی وجہ کوشش کی کمی نہیں تھی۔

اب یہ میرے کچن سے آپ کے کچن کا رخ کررہی ہے۔

اجزاء

ایک کپ مسور یا مونگ کی دال

ایک ٹماٹر

آدھا چائے کا چمچ تازہ لہسن

آدھا چائے کا چمچ تازہ ادرک

آدھا چائے کا چمچ ہلدی

سرخ مرچ پاﺅڈر حسب ذائقہ

نمک حسب ذائقہ

¾ چائے کا چمچ دھنیا پاﺅڈر

املی کا ایک انچ کا گچھا (اسے ایک سے ڈیڑھ کپ گرم پانی میں بھگو کر رکھیں) ٹھنڈا کرنے کے بعد ہاتھ سے مسلیں اور گھٹلیاں نکال دیں

بگھار کے لیے اجزاء

دو خشک سرخ مرچیں

دو سبز مرچیں

آدھا چائے کا چمچ زیرہ

تین لہسن کی پوتھیاں کٹی ہوئیں

تین سے چار کڑی پتے

طریقہ کار

دالوں کو دھو کر آدھے گھنٹے تک پانی میں بھگو کر رکھیں، پانی پھینک کر دالوں کو دھوئیں اور ان میں تین سے چار کپ پانی شامل کرلیں۔

اب اسے ابالنے کے لیے رکھیں اور املی کے سوا دیگر تمام اجزاءشامل کردیں۔

اسے نرم ہونے تک پکنے دیں پھر ایک کپ یا حسب ذائقہ املی شامل کرکے دس سے پندرہ منٹ تک پکائیں، مطلوبہ مقدار کے لیے اس میں پانی شامل کرلیں۔

تیل کو گرم کریں اور اس میں بگھار کے اجزاءڈال کر کچھ سیکنڈ تک پکائیں اور پھر دال پر ڈال دیں۔

اب اسے مکس کریں اور سادہ چاولوں کے ساتھ اور دھنیے سے سجا کر پیش کریں۔


مزید پکوان کہانیوں کے لیے کلک کریں۔

انگلش میں پڑھیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (2) بند ہیں

Asim Aug 30, 2015 07:04pm
Bahan Jee aap ny jo "Tarkeeb" my likha hy k daal ko 1/2 ghanta bheega kar us ka pani pheek day to is trha daal ki protien & etc to aap ny zaya kardi. bahtar yah hy k daal ko achi tarha dho kar chahay to adha ghanta beega nay k lia rakh day ya achi tarha dhoo kar direct cooking start kar day. So this is how its potent elements will be remain in Khatti daal as well. Some how this is an excellent Dish specially when you use it with Tali howi machli & sady chawal.
Mohammad Ayub Khan Aug 30, 2015 09:25pm
wonderful