ہندوستان میں کمرشل سنیما کے ساتھ ساتھ کئی دہائیوں سے پیرالیل سنیما (جس میں آرٹ و دستاویزی فلمیں تخلیق کی جاتی ہیں) بھی اپنا مقام بنا رہا ہے، پر ان فلموں کو باکس آفس پر زیادہ کامیابی نہیں ملتی تھی۔ مگر کچھ عرصے سے یہ فلمیں مالی لحاظ سے بھی فائدہ دینے لگی ہیں، لیکن اس کی وجہ وہ فلمیں ہیں جو سوانحی اسکرپٹ کو بنیاد بنا کر تخلیق کی گئیں۔ 2011 میں ڈرٹی پکچر،2012 میں پان سنگھ تومار، 2013 میں بھاگ ملکا بھاگ اور اب 2015 میں 21 اگست کو ریلیز ہونے والی یہ فلم ”مانجھی ۔ دی ماؤنٹین مین“ شامل ہے۔ باکس آفس پر یہ تمام فلمیں کامیاب رہیں۔

”مانجھی ۔ دی ماؤنٹین مین“ صرف ایک فلم نہیں، بلکہ ایک انسان کے جنون کی داستان ہے۔ ہندوستان کے مشرقی صوبے بہار میں ضلع گائیا کے ایک قصبے گیہلور کے رہائشی ”دشراتھ مانجھی“ کی حقیقی زندگی پر بنائی گئی یہ فلم ایسے حوصلہ مند شخص کی داستانِ زیست ہے، جس نے پہاڑ کا سینہ چیر کر اس سے اپنی بیوی کی ہلاکت کا انتقام لیا۔ صرف یہی نہیں، اس نے یہ بھی ثابت کیا کہ اگر انسان ٹھان لے تو پھر پہاڑ بھی اس کا راستہ نہیں روک سکتے۔ انسان اپنے ارادوں سے بلند و بالا پہاڑوں کا سینہ بھی چیر دیتا ہے، جیسا کہ ”دشراتھ مانجھی“ نے کر دکھایا۔

دشراتھ مانجھی کی حقیقی تصویر۔       .
دشراتھ مانجھی کی حقیقی تصویر۔ .

اس فلم کا موضوع دور دراز علاقے میں واقع عام سہولتوں سے محروم ایک چھوٹا سا گاؤں ہے۔ نہ کوئی پکی سڑک ہے، نہ ہی ہسپتال، اس کے باوجود وہاں کے باسی کسی نہ کسی طرح زندگی گزارتے ہیں۔ اس گاؤں اور جدید دور کی سہولتوں کے درمیان سب سے بڑی رکاوٹ ایک پہاڑ ہے، جس کے دوسری طرف وزیرگنج نامی شہر ہے، جہاں ہر طرح کی سہولت میسر ہے، مگر وہاں تک پہنچنے کے لیے اس گاؤں کے باسیوں کو 40 کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنا پڑتا ہے، جبکہ یہ دونوں شہر ایک دو میل کے فاصلے پر ہیں اگر ان کے درمیان پہاڑ رکاوٹ نہ ہو۔

اس گاؤں کے ایک رہائشی کی بیوی اس پہاڑ سے گر کر شدید زخمی ہو کر جان دے دیتی ہے، اس کا شوہر، جس کو اس سے بے پناہ محبت ہوتی ہے، غصے میں پہاڑ سے انتقام لینے کاعہد کرتا ہے اور اپنی زندگی کے 22 قیمتی سال (1982-1960) اس اٹل ارادے کو پورا کرنے میں لگا دیتا ہے، آخرکار جیت آدم زاد کی ہوتی ہے۔ اس شخص کی دیوانگی قابلِ تعریف ہے، جس کو اس فلم میں عکس بند کیا گیا۔

فلم کا مرکزی خیال دل کو چھو لینے والا ہے، مگر انڈین سنیما میں طویل کہانیوں کو فلمانے کی عادت نے اس فلم میں بھی غیر ضروری کردار بھر دیے ہیں جس کی وجہ سے مرکزی کردار کا تاثر کم ہوا اور فلم سست روی کا شکار ہوئی، البتہ فلم کے مکالمے بہت اچھے لکھے گئے۔ جن مقامات پر اس کی فلم بندی کی گئی، وہ انتخاب بھی ٹھیک رہا۔ فلم کی کہانی اور ماحول میں مطابقت ہے، جس کی وجہ سے مناظر میں حقیقی رنگ پیدا ہوا۔ فلم کی موسیقی کہانی کی مناسبت سے دھیمی مگر عمدہ ہے، جس نے فلم میں جذبات کے تاثر کو ابھارنے میں مدد دی۔ اینیمیشن اور گرافکس کا کام بھی اچھا کیا گیا۔ صرف ایک گیت جس میں دونوں میاں بیوی آبشار کے قریب فضا میں اڑان بھر رہے ہیں، وہ مناظر غیر حقیقی محسوس ہوئے۔ کرداروں کا لہجہ، ترتیب، اور لباس کا انتخاب بھی شاندار تھا۔

فلم کا مرکزی کردار نواز الدین صدیقی نے ادا کیا۔ کہانی اور اس باصلاحیت اداکار کے انتخاب سے فلم کے ہدایت کار کیتن مہتا کی وسعت نظری کا اندازہ ہوتا ہے، البتہ انہوں نے فلم کی کہانی کو طول دے کر اسے سست روی کی طرف دھکیلا۔ اگر اس کا دوارنیہ کم ہوتا۔ غیر ضروری مناظر اور کرداروں کی بھیڑ نہ ہوتی تو یہ مزید اثر انگیز فلم ثابت ہوسکتی تھی۔ اس کے باوجود یہ فلم ٹھیک رہی۔ یہ الگ بات ہے کہ ریلیز سے 11 دن پہلے اس کو غیر قانونی طریقے سے انٹرنیٹ پر اپ لوڈ کر دیا گیا، جس سے اس کے بزنس پر فرق پڑا، لیکن اس نقصان کی تلافی یوں ہوگئی کہ بہار کی سرکار نے اسے ابتدائی 30 دن کے لیے ٹیکس کی چھوٹ دے دی۔

اس فلم میں نوازالدین صدیقی نے اپنی زندگی کا یادگار کام کیا ہے، اس میں کوئی شک نہیں، یہ فلم مکمل طورسے ان پر انحصار کر رہی تھی، جسے انہوں نے اپنی تھیٹر کی تربیت کام میں لاتے ہوئے کامیاب بنایا۔ رادھیکا آپٹے نے بھی معاون اداکارہ کے طور پر اپنے ہونے کا بھرپور احساس دلایا ۔رادھیکا بھی تھیٹر سے تربیت یافتہ ہیں جس کی جھلک فلم میں محسوس ہوئی، کیونکہ چہرے کے خدوخال اور تاثرات نے ان کے کردار میں جان ڈال دی۔ ثانوی کردار ہونے کے باوجود انہوں نے فلم بینوں کو متاثر کیا، پیرالیل سنیما میں ان کی آمد ایک اچھا اضافہ ہے۔

مجموعی حیثیت میں فلم کامیاب اور پیرالیل سنیما کے مزاج کی حامل یاد رہنے والی فلم ہے، لیکن اس میں بھی کچھ تکنیکی غلطیاں ہیں، جس پر ہدایت کار نے غور نہیں کیا۔ بحوالہ فلموں کی مشہور ویب سائٹ آئی ایم ڈی بی۔IMDb، ”فلم میں گنگا آرتھی کے منظر میں پس منظر میں ایک سائن بورڈ دکھائی دے رہاہے۔ جس کمپنی کا وہ اشتہار ہے، وہ اس زمانے میں موجود ہی نہیں تھی۔ پھر مانجھی اپنے گاؤں میں آنے کے لیے جس بس میں سوار ہوتا ہے، اس پر مراٹھی زبان میں ہدایات درج ہیں، جبکہ ریاست بہار میں یہ زبان نہیں بولی جاتی۔ اسی طرح جب مانجھی دلی جانے کے لیے اسٹیشن پر جاتا ہے، تو وہاں ریل گاڑی کی آمد پر پلاسٹک کی تھیلیاں ہوا میں اڑتی دکھائی دیتی ہیں، جبکہ پلاسٹک کی تھیلیوں کا استعمال ہندوستان میں بہت عرصے کے بعد شروع ہوا۔“

جنوبی ایشیاء دنیا کا وہ خطہ ہے جو ابھی ترقی پذیر ہے، اس لیے انفرادی حیثیت میں جن لوگوں نے کامیابیاں حاصل کیں، ان کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور عوام ان کی تقلید بھی کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس انداز کی سوانحی فلمیں پیرالیل سنیما کاحصہ ہونے کے باوجود پسند کی جا رہی ہیں۔ دشراتھ مانجھی کی زندگی پر بننے والی اس فلم نے دنیا کو یہ بتا دیا کہ وہ کتنے عظیم انسان تھے۔

2007 میں دشراتھ مانجھی کا انتقال ہوگیا مگر تب تک ان کا خواب شرمندہ تعبیر ہوچکا تھا۔ ہندوستانی سرکار نے اب وہاں پکی سڑک بھی بنا دی ہے۔ اب 2015میں ان پر بننے والی اس فلم نے ثابت کردیا کہ عزم و ہمت کا راستہ کوئی نہیں روک سکتا، نہ ہی کوئی گمنامی اور نہ ہی کوئی پہاڑ۔ حقیقی زندگی میں جاگتی آنکھوں سے خوابوں کے حصول کی خاطر جدوجہد کرنے والوں کو یہ فلم ضرور دیکھنی چاہیے۔

تبصرے (0) بند ہیں