ایک پاکستانی کی سمندر میں9 گھنٹے موت سے جنگ

اپ ڈیٹ 29 اگست 2015
لیبیا کے سمندر میں ڈوبنے والی کشتی سے ریسکیو کیے گئے کچھ تارکین وطن—۔فوٹو/ اے ایف پی
لیبیا کے سمندر میں ڈوبنے والی کشتی سے ریسکیو کیے گئے کچھ تارکین وطن—۔فوٹو/ اے ایف پی

زوارہ (لیبیا): ایک نوعمر پاکستانی شیفض حمزہ کو لیبیا کے سمندر میں ڈوبنے والی تارکینِ وطن کی ایک کشتی کے تختے پر تقریباً 9 گھنٹے تک زندگی اور موت کی جنگ لڑنی پڑی اور جب تک کوسٹ گارڈز پہنچے ،اس کی والدہ اور چھوٹی بہن جان کی بازی ہار چکی تھیں۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی نے ریڈ کریسنٹ کے ترجمان محمد المصراتی کے حوالے سےبتایا ہے کہ جمعرات کو لیبیا کے مغربی ساحل زوارہ کے قریب تارکین وطن کی کشتی ڈوبنے سے کم از کم 76 افراد ہلاک ہوگئے۔

انھوں نے بتایا کہ تقریباً 198 افراد کو بچا لیا گیا جن میں عرب اور افریقی پس منظر رکھنے والے افراد شامل ہیں تاہم درجنوں لوگ ابھی بھی سمندر میں لاپتہ ہیں۔

زوارہ کے قریب ایک پولیس اسٹیشن میں زمین پر اپنے بھائی کے برابر بیٹھے حمزہ کو بھی بحفاظت سمندر سے نکالا گیا۔

17 سالہ حمزہ نے بتایا: "ہم نے رات ڈیڑھ بجے کے قریب سفر کا آغاز کیا، وہ ایک لکڑی کی کشتی تھی، جس میں 350 افراد سوار تھے، میرے ساتھ میرے والد، والدہ، میری 11 سالہ بہن، 27 سالہ بہن اور 16 سالہ بھائی بھی کشتی میں موجود تھے۔"

حمزہ نے زمین کو گھورتے ہوئے کہا: "تقریباً آدھے گھنٹے بعد کشتی نے ہچکولے کھانے شروع کردیئے اور پانی کشتی میں داخل ہوگیا اور پھر ہم نے خود کو کھلے سمندر میں پایا۔"

"کشتی لکڑے کے ٹکڑوں میں تقسیم ہوگئی، میری والدہ اور میں نے ایک ٹکڑا پکڑ لیا اور پھر میں نے اپنے بھائی اور چھوٹی بہن کو بھی برابر میں دیکھا۔"

حمزہ نے بتایا: "کسی نے میرے بھائی سے لائف جیکٹ چھیننے کی کوشش کی، لیکن بھائی کے دھکا دینے پر وہ دور جاگرا"۔

"کوئی میری چھوٹی بہن کے اوپر چڑھ گیا جس سے وہ پانی میں ڈوب گئی، جب میں نے اسے آخری مرتبہ دیکھا تو وہ پانی کے نیچے تھی اور کوئی شخص اس کے اوپر تھا"۔

"میری بہن نے میرے ہاتھوں میں دم توڑا"۔

حمزہ کا کہنا تھا :" میں نے اور میری والدہ نے ایک لکڑی کے ٹکڑے کے سہارے سمندر میں تقریباً 9 گھنٹے گزارے، میں انھیں یقین دلاتا رہا کہ سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا، لیکن ریسکیو ٹیم کے آنے سے پونے گھنٹے پہلے وہ جان کی بازی ہار گئیں"۔

"انھوں نے میرے ہاتھوں میں دم توڑا، میں نے ریسکیو اہلکار سے کہا کہ مجھے اپنی ماں کی لاش کو ساتھ لے جانے دیا جائے لیکن اس نے انکار کردیا، میری والدہ مرچکی ہیں، میری چھوٹی بہن مر چکی ہے"۔

بعد ازاں حمزہ کو علم ہوا کہ اس کے والد اور دوسری بہن کو بحفاظت نکال کر ہسپتال منتقل کردیا گیا ہے۔

حمزہ کا کہنا تھا کہ وہ اور اس کا خاندان اٹلی میں "بہتر قسمت" کی امید کر رہے تھے۔

ریسکیو کیے گئے افراد میں سے ایک نے بتایا کہ "اُس نے اور اس کے دوست نے اس بدقسمت کشتی میں سفر کرنے کے لیے 22 سو دینار (تقریباً 16 سو ڈالر) ادا کیے تھے"۔

لیبیا کے ایک کوسٹ گارڈ افسر کےمطابق کشتی میں 300 سے 400 افراد سوار تھے۔

زوارہ کے قریب پولیس میں حمزہ کے قریب ہی بیٹھے شام سے تعلق رکھنے والے سمیع مقصود کا بار بار ایک ہی سوال تھا کہ "ہمارے ساتھ کیا ہوگا؟"

25 سالہ سمیع الجیریا میں 3 سال ملازمت کے بعد 4 ماہ قبل لیبیا آئے، ان کا کہنا تھا: " میں نے ایک کے بعد ایک اپنے 3 دوستوں کو مرتے ہوئے دیکھا ہے"۔

سمیع کا مزید کہنا تھا کہ وہ 3 سال سے اپنے خاندان سے نہیں ملے جو نیدر لینڈ میں پناہ گزین ہے، "میں اس کشتی میں اس لیے سوار ہوا کیونکہ مجھے ان سے ملنے کی اجازت نہیں ملی تھی، لہذا میں نے سمندر میں موت کا سفر کیا"۔

اقوام متحدہ کے مطابق رواں برس سمندری راستے سے یورپ جانے کی کوشش میں تقریباً 2500 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ ایک لاکھ سے زائد تارکین وطن اٹلی پہنچے جبکہ ایک لاکھ 60 ہزار کے قریب افراد یونان کے راستے یورپ میں داخل ہوئے۔

تبصرے (1) بند ہیں

Yusuf Aug 29, 2015 04:15pm
Thats why they say greed is a curse.....