انسان کے مفادات میں حیوان کی شامت

اپ ڈیٹ 31 اگست 2015
جب ریاستیں اپنی حفاظت نہیں کرسکتیں تو اپنی خفت مٹانے اور اپنے جنون کی تسکین کے لیے وہ بے زبانوں کو بھی نہیں بخشتیں.— Reuters
جب ریاستیں اپنی حفاظت نہیں کرسکتیں تو اپنی خفت مٹانے اور اپنے جنون کی تسکین کے لیے وہ بے زبانوں کو بھی نہیں بخشتیں.— Reuters

دنیا کتنی بھی مہذب کیوں نہ ہوجائے مگر انسان کی جبلت کہیں نہ کہیں اسے غیر مہذب ضرور بنا دیتی ہے۔ جب ریاست کے تصور نے اپنی عملی شکل اختیار کی تو اس ریاست کو محفوظ کرنے کے لیے جو اقدامات اور تدابیر کی گئیں، ان میں سب پہلے اس بات کو مد نظر رکھا گیا کہ ریاست کا دفاع مضبوط کیسے بنایا جائے۔ کس طرح اس کے دفاع کو اتنا مضبوط کیا جائے کہ وہ کسی سازش کا شکار نہ ہو سکے۔ فوج، قانون نافذ کرنے والے ادارے، اور خفیہ ایجنسیوں کا قیام اس سلسلے کی کڑی ہیں۔

انسانی جاسوسی کے قصے تو ہم نے نہ صرف کہانیوں اور افسانوں میں پڑھے ہیں، بلکہ حقیقی زندگی میں بھی انہیں سنتے آئے ہیں۔ واسکو ڈی گاما سے لے کر کرسٹوفر کولمبس تک دنیا کو دریافت کرنے اور ٹٹولنے کے جو سفر کیے گئے، ان کے بارے میں ایک خیال یہ بھی ہے کہ ان کا مقصد صرف دنیا کے مختلف خطوں کو دریافت کرنا نہیں تھا بلکہ اپنی ریاستوں کے لیے جاسوسی کرنا بھی تھا۔ اسی طرح دنیا کے کسی دوسرے کونے میں بسے ہوئے لوگوں کا پتا چلا کہ ان کا تہذیب و تمدن کیا ہے۔ یہ راز بھی افشاء ہوا کہ جس زمین کو دریافت کیا گیا ہے، وہ وسائل سے کتنی مالا مال اور زرخیز ہے۔ سائنسی ترقی نے آخرکار دنیا کو ایک ایسے تعلق سے جوڑ دیا ہے کہ فاصلے اب مٹ گئے ہیں۔

مگر اپنے آپ کو عدم تحفظ کا شکار سمجھنے والے وہم نے انسان کو بے سکون بنا دیا ہے۔ دورِ حاضر میں مختلف ممالک پر یہ الزامات لگ رہے ہیں کہ وہ اب جانوروں اور پرندوں سے جاسوسی کروانے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں۔ اس 'جاسوس فوج' میں گدھ، کبوتر، شارک مچھلیوں سے لے کر گلہریاں اور ڈولفن شامل ہیں۔ کچھ عرصہ قبل ایران نے اسرائیل پر الزام لگایا تھا کہ اس کے سرحدی علاقوں میں گلہریاں جاسوسی کے لیے چھوڑی گئی ہیں۔ مئی کے مہینے میں ہندوستان کو ایک کبوتر کیا ہاتھ لگا کہ اس بے زبان پرندے کو تھانے میں قید کر کے اس پر پاکستانی جاسوس ہونے کا الزام لگا دیا۔

سعودی عرب کو لگا کہ ایک گدھ ان کی جاسوسی پر معمور ہے، جسے موساد کا ایجنٹ سمجھا گیا۔ حال ہی میں حماس نے ایک 'اسرائیلی جاسوس' ڈولفن کو پکڑ لیا ہے جس کے بارے میں کوئی ٹھوس شواہد تو نہیں ہیں مگر کوئی بھی ریاست جو ہر وقت اس خوف میں مبتلا ہو کہ کوئی اس کی جاسوسی کر رہا ہے تو اس قسم کے الزامات جانوروں اور پرندوں پر ضرور لگتے ہیں۔

میں یہ تو نہیں جانتا کہ جس ڈولفن کو جاسوسی کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے اسے کتنے وقت تک قید میں رکھا جائے گا اور اس سے کیا کیا تفتیش کی جائے گی۔ مگر اتنا خیال ضرور رکھنا چاہیے کہ پرندوں اور جانوروں کو قید کرنے سے 'سازشوں' کا سلسلہ بند نہیں ہوگا کیونکہ پرندے اور جانور نہ تو سیاسی ہوتے ہیں اور نہ ہی نظریاتی، جو ان پر تشدد کرکے سچ اگلوانے کی کوشش کی جائے اور سزا دے کر باقی پرندوں کو سرحد پار کرنے سے روک دیا جائے. سازشیں کرنا، کسی کو قتل کرنا، اور کسی ملک کی تباہی کا خواب دیکھنا یہ عمل انسان کے سوا اور کون کرسکتا ہے۔ پرندوں پر چارج شیٹ تیار کر کے ان پر مقدمہ نہیں چلایا جاسکتا، مگر اگر واقعی کل کو ان پر مقدمات چلنا شروع ہو گئے تو قانون نافذ کرنے والے ادارے ایسے ایسے کیس پیش کریں گے کہ پرندوں اور جانوروں کو انسانوں کی طرح پھانسی پر لٹکانے کے احکامات دیے جائیں گے۔

پرندے اور جانور سرحدوں سے بے خبر ہوتے ہیں۔ ان کی کوئی سرحد نہیں ہوتی، وہ انسان نہیں ہیں جو لکیریں کھینچ کر ملک بناتے ہیں۔ پرندوں کا گھونسلا اور جانوروں کا غار کسی ملکی سرحد کے محتاج نہیں ہوتے۔ انہیں یہ پتا نہیں ہوتا کہ بارڈر کس بلا کا نام ہے۔ انہیں وطن کے نام پر بنائی گئی لکیریں نظر نہیں آتیں۔ انہیں تو یہ بھی پتا نہیں کہ وہ جس دھرتی کو اپنا وطن سمجھتے ہیں اسے انسانوں نے تقسیم کر دیا ہے۔

جب ریاستیں اپنی حفاظت نہیں کرسکتیں تو اپنی خفت مٹانے اور اپنے جنون کی تسکین کے لیے وہ کچھ ایسا ہی کرتی ہیں۔ اس کی اعلىٰ مثال ان جانوروں اور پرندوں کی گرفتاریاں ہیں، جنہیں قانون نافذ کرنے والے ادارے اپنا بہت بڑا کارنامہ سمجھتے ہیں۔ انسان اپنی قیمتی توانائیاں صرف اس معاملے پر خرچ کر رہا ہے کہ کون سا ملک ان کی جاسوسی کر رہا ہے، کون سا نیا پرندہ یا جانور اب جاسوس کے روپ میں داخل ہوا ہے۔ کیا اس سے بہتر نہیں کہ یہ سب ممالک اپنے لوگوں کی فلاح و بہبود کے لیے کام کریں اور انسانیت کا ثبوت دیتے ہوئے کم از کم حیوانوں کو تو اپنے قومی مفادات کی جنگ میں بخش دیں۔

مگر اب لگتا ہے کہ انسان کے جنگی جنون نے پرندوں، ہواؤں اور دریاؤں کی بھی سرحدیں مقرر کر دی ہیں، اور انہیں سرحدوں کا پابند بنا دیا ہے۔ نہ تو اب پرندے اور جانور آزاد ہیں اور نہ ہی ہوائیں۔ جنگی جنون اور عدم تحفظ کے شکار ممالک شاید مستقبل میں ہوا کو بھی قید کرنے کے لیے کوئی ماحول تیار کریں، شاید انہیں لگے کہ ہوا بھی جاسوس ہے۔ اس لیے اسے بھی مقید کیا جائے۔ مگر پرندوں اور جانوروں کو قید کرنے سے ملک محفوظ نہیں رہتے بلکہ دوسروں کو امن سے جینے کا حق دینے سے ریاستیں محفوظ رہتی ہیں۔ تبھی جنگ کے خطرات کو ٹالا جاسکتا ہے۔

تبصرے (1) بند ہیں

نجیب احمد سنگھیڑہ Aug 29, 2015 06:32pm
پرندوں اور جانوروں پر جو مقدمات بنائے جاتے ہیں وہ ایک ضابطے کی کاروائی ہوتے ہیں تاکہ ریکارڈ پر رہے۔ گرفتاری کے بعد چرند پرند کو رسمی تفتیش کی بھینٹ نہیں چڑھایا جاتا جسے ہمارے ہاں چھترول کہا جاتا ہے۔ ان سے تفتیش کا معاملہ متعلقہ ماہرین کی مدد سے لیا جاتا ہے جس میں ماہر حیوانیات اور ماہر چرند پرند ہوتے ہیں جو حیوانوں اور پرندوں کی بولیاں بھی سمجھتے ہیں۔ اس کے علاوہ گرفتار چرند پرند کی فزیکل حالت اور ایکسرے سے بھی ایسی سازشوں کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ چند ہفتے پہلے خبر نظروں میں آئی کہ داعش نے مرغی بم استعمال کرنے شروع کر دئیے ہیں۔ اب کُکڑیوں کو اگر گرفتار یا ہلاک نہیں کیا جائے گا تو وہ بم پھاڑ دیں گی جس سے جانی نقصان کا اندیشہ ہو گا۔ اس لیے ایسے پرند چرند کو گرفتار کرنا اور تفتیش کرنا درست ہے۔ ڈینگی مچھر کی افزائش بھی کی جاتی ہے دشمن کی فوج کو جسمانی طور پر کمزور اور بیمار کرنے کے لیے۔ اس لیے حیوانوں کی گرفتاریاں اور ان سے تفتیش کی اہمیت کو نہ سمجھنا ناسمجھی ہے !