کراچی : کراچی میں بدھ کو ایک خاتون استاد کو اغوا کے بعد قتل کرنے کے حوالے سے سنسنی خیز انکشافات ہوئے ہیں۔

اس سے قبل ایس پی لانڈھی عفان امین نے بتایا تھا کہ اس خاتون استاد جس کی شناخت 26 سالہ قرة العین کے نام سے ہوئی، کی لاش کورنگی کے اللہ والا ٹاﺅن کے سنسان علاقے میں دریافت ہوئی۔

قرة العین کو بدھ کی صبح پی آئی بی کالونی کے ایک اسکول سے لے جایا گیا جبکہ دوپہر کو اس کی لاش دریافت ہوئی۔

ایس پی لانڈھی نے بتایا کہ تفتیش کاروں نے ملزمان کی شناخت اور مقصد کے حوالے سے " اہم شواہد" حاصل کیے ہیں جبکہ ایک شخص کو پوچھ گچھ کے لیے حراست میں لیا گیا ہے۔

لاش کو جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر میں منتقل کردیا گیا ہے اور ہسپتال کے ایمرجنسی ڈیپارٹمنٹ کی سربراہ ڈاکٹر سیمی جمالی کا کہنا ہے کہ موت کی وجہ کا تعین کیمیکل معائنے کے بعد ہوگا۔

ان کا کہنا تھا کہ لاش پر خراشوں کے نشانات پائے گئے ہیں۔

تاہم اب ایس پی گلشن عابد قائم خانی نے بتایا کہ مقتول کے ورثاء نے پی آئی بی پولیس اسٹیشن میں رپورٹ درج کراتے ہوئے بتایا تھا کہ ان کی بیٹی صبح ساڑھے سات بجے سے پی آئی بی کالونی کے ایک نجی اسکول سے غائب ہے۔

انہوں نے بتایا کہ اسکول کے سی سی ٹی وی فوٹیج سے علم ہوا ہے کہ ایک لڑکی جس کی شناخت عالیہ کے نام سے ہوئی، صبح اپنی دوست رباب اور ایک شخص باقر کے ساتھ اسکول پہنچی۔

ایس پی قائم خانی کے مطابق یہ تینوں قرة العین کو ڈیفنس میں سعودی قونصلیٹ کے پاس ایک 'ریسٹ ہاﺅس' میں لے گئے۔

اس علاقے کے سی سی ٹی وی فوٹیج سے پتا چلتا ہے کہ عالیہ، قرة العین اور ایک شخص گاڑی سے باہر آئے اور ریسٹ ہاﺅس کے اندر چلے گئے، جبکہ رباب اس گاڑی میں وہاں سے چلی گئی۔ بعد ازاں قرة العین کی لاش کورنگی سے دریافت ہوئی جس کے ہاتھ پیر بندھے ہوئے تھے۔

ایس پی گلشن نے بتایا کہ پولیس نے عالیہ اور ایک شخص حسن کو حراست میں لے لیا ہے جس کا دعویٰ ہے کہ وہ مقتولہ کا منگیتر ہے۔

عابد قائم خانی کے مطابق " ابتدائی تفتیش سے عندیہ ملتا ہے کہ عالیہ نے قرة العین کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا تھا تاکہ اس کے منگیتر حسن سے شادی کرسکے"۔

تفتیش کاروں کا ماننا ہے کہ عالیہ نے قرة العین کی دوست رباب کی مدد لی تاکہ مقتولہ کو گروپ کے ساتھ جانے کے لیے تیار کرسکے۔

ایس پی قائم خانی کا کہنا تھا کہ عالیہ نے مقتولہ کو " قرة العین اور حسن کے درمیان کچھ غلط فہیموں کو دور کرانے کے وعدے کا جھانسا دے کر لے گئی"۔ ان کے مطابق حسن نے خود کو ایک سماجی رضاکار کے طور پر متعارف کرایا مگر اس کی سرگرمیاں " مشتبہ " ہیں اسی لیے اسے پوچھ گچھ کے لیے حراست میں لیا گیا ہے۔

پولیس عہدیدار کا کہنا تھا کہ ایک اور تفتیشی ٹیم تشکیل دی گئی ہے جو تفتیش کرے گی کہ ڈیفنس کے ریسٹ ہاﺅس میں کون کون موجود تھا اور کیا مقتولہ کو اسی مقام پر تشدد کا نشانہ بناکر قتل کیا گیا تھا یا نہیں۔

ملزمان کی شناخت چھپانے کے لیے ان کے نام تبدیل کردیے گئے ہیں.

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

جارج خمینی Sep 03, 2015 10:43am
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔ پولیس کو اور کوئی نام نہیں ملے تھے؟؟ دنیا جانتی ہے کہ یہ نام کن عظیم ہستیوں کے تھے اور ان ناموں کو کون سی کمیونٹی اپنے بچوں کو دیتی ہے۔۔۔۔ حکومت اور ایجنسیوں کی پہلے ہی بیلنس پالیسی کے تحت کی جانی والی گرفتاریاں حکومت اور ایجنسیوں کی نااہلی اور بے عدالتی کا ثبوت ہیں اور سونے پر سہاگہ مجرموں کے اصل نام چھپا کر جعلی نام ایک خاص کمیونٹی کے ناموں کو استعمال کرنا اس بات کو ظاہر کررہا ہے کہ یہ کمیونٹی اپنے تحفظ کیلئے اور اپنی بقا کی حفاظت کیلئے ایسے اقدامات کرے جس سے حکومت اور ایجنسیوں کو ہوش کے ناخن لینے پڑیں۔