وسیم اکرم سے معذرت کافی نہیں

اپ ڈیٹ 04 ستمبر 2015
فائرنگ کے واقعے کے بعد وسیم اکرم نیشنل کرکٹ اسٹیڈیم کراچی میں میڈیا سے بات کر رہے ہیں۔ 5 اگست 2015 — AFP
فائرنگ کے واقعے کے بعد وسیم اکرم نیشنل کرکٹ اسٹیڈیم کراچی میں میڈیا سے بات کر رہے ہیں۔ 5 اگست 2015 — AFP

گذشتہ ماہ پاکستان کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان وسیم اکرم کی گاڑی پر ایک ٹریفک جھگڑے کے دوران ایک شخص نے فائرنگ کر دی، مگر خوش قسمتی سے وہ بال بال بچ گئے۔

خبر میں حالات کی واضح تصویر بالکل اسی ترتیب سے ہے جو وسیم اکرم کے مطابق پیش آئے — کس طرح اس شخص نے وسیم اکرم کی گاڑی کو ٹکر مارنے کے بعد بھاگنے کی کوشش کی؛ جب باؤلنگ لیجنڈ نے پیچھا کرنے کی کوشش تو جھگڑا شروع ہوگیا؛ پھر اس شخص نے مجھ (وسیم اکرم) پر بندوق تانی مگر مجھے پہچاننے کے بعد زمین پر فائر کر کے منظر سے غائب ہوگیا۔

واقعے کے فوراً بعد دنیا بھر سے لوگوں نے تشویش کا اظہار کیا اور جب یہ خبر آئی کہ وسیم اکرم محفوظ ہیں، تو قوم نے سکھ کا سانس لیا۔ وسیم اکرم نے واقعے کو 'خوفناک' قرار دیتے ہوئے کہا کہ "میں اس شخص کے خلاف قانونی کارروائی چاہتا ہوں۔"

پولیس کی مناسب کارروائی کی بناء پر واقعے کے ذمہ دار کا پتہ لگایا گیا ہے جو کہ ایک سابق فوجی افسر ہے۔ اپنی غلطی کا اعتراف کرتے ہوئے مذکورہ شخص نے گرفتاری سے بچنے کے لیے وسیم اکرم کے نام ایک معافی نامہ تحریر کیا ہے۔ واقعے کو وہ صرف سڑک کا غصہ قرار دیتے ہوئے اپنے اقدام کا جواز پیش کرتے ہیں۔

وسیم اکرم کو لکھے گئے معافی نامے کا اسکرین شاٹ. — بشکریہ ڈان نیوز
وسیم اکرم کو لکھے گئے معافی نامے کا اسکرین شاٹ. — بشکریہ ڈان نیوز

اس معافی نامے پر کئی ردِ عمل دیکھنے میں آئے ہیں جو ہمارے معاشرے کی عکاسی کرتے ہیں۔

ایک طرف وہ لوگ ہیں جو حملہ آور کو غلط سمجھتے ہیں مگر چاہتے ہیں کہ وسیم اکرم معذرت قبول کر کے آگے بڑھ جائیں۔ ان کے نزدیک پاکستان، خصوصاً کراچی میں زندگی مشکل ہے اور ایک عام شہری کے لیے اس طرح کے خوفناک واقعات معمول کی بات ہیں۔ اس طرح کے معاملات میں کچھ نقصان نہ ہونے پر خدا کا شکر ادا کرنا چاہیے اور واقعے کو بھلا کر زندگی میں آگے بڑھنا چاہیے۔

دوسری جانب کچھ لوگوں نے بجا طور پر قانونی تقاضے پورے کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ اس طرح کے واقعے کے کئی مختلف نتائج ہو سکتے ہیں۔ معافی نامہ تحریر کرنے والے کے مطابق وہ سابق کرکٹر کی عزت کرتا ہے اور اس لیے واقعے پر نادم ہو کر معذرت طلب کرتا ہے۔ (ویسے صرف ایک گولی چلائی گئی تھی اور جان بوجھ کر اس کا رخ وسیم اکرم کی جانب سے ہٹا لیا گیا تھا۔) کیا اس کا مطلب ہے کہ اگر سابق کرکٹر کی جگہ کوئی عام آدمی ہوتا، تو اسے گولی چلانے پر کوئی ندامت نہ ہوتی؟

شہری عام ہوں یا خاص، قانون کی خوبصورتی اس میں ہے کہ یہ سب لوگوں پر بلا امتیاز لاگو ہو۔ وسیم اکرم نے بھلے ہی معذرت قبول کر لی ہو، مگر اس سے جرم کا ارتکاب کرنے والوں کو سزا دینے کی ریاست کی ذمہ داری ختم نہیں ہوجاتی۔

شہریوں کے طور پر ہم سب ہی سڑکوں پر ہوتے جھگڑے دیکھ چکے ہیں جہاں پر کئی دفعہ ٹھنڈے دماغ والے افراد بھی آپے سے باہر ہوجاتے ہیں۔ لیکن اس طرح کے کسی بھی جھگڑے میں اسلحہ نکال لینا کسی صورت بھی قبول نہیں کیا جا سکتا۔

ہمارے معاشرے میں اسلحہ ویسے ہی زہر کی طرح سرایت کر چکا ہے۔ یہاں پر اسلحہ عزت، فخر، طاقت، اور غصے کے اظہار کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

ان کی ضرورت اور ان کے نقصانات پر بحث ایک طرف، ہمیں اتنی تو امید تھی کہ کم از کم ایک ریٹائرڈ میجر ہمارے جیسے نازک معاشرے میں اسلحے کا ذمہ دارانہ استعمال کرے گا۔ لیکن ہوا اس کے بالکل الٹ۔

اور اس طرح کے واقعات پر نرم رویہ اختیار کر کے ہم کیا پیغام دینا چاہ رہے ہیں؟ اس طرح کا ایک واقعہ مشہور شخصیات سمیت عام لوگوں کو حاصل تحفظ کا پول کھول سکتا ہے، جبکہ ملک کا اچھا تاثر پیش کرنے کی سالوں کی محنت پر پانی پھیر سکتا ہے۔ خاص طور پر تب جب ہم دوسرے ممالک کو یقین دلانا چاہ رہے ہیں کہ پاکستان کرکٹ کھیلنے کے لیے محفوظ ہے۔

ہم اس طرح کے حالات میں جی رہے ہیں۔ وسیم اکرم زندہ بچ گئے، اور ان سے معذرت بھی کر لی گئی۔ لیکن ہم عام لوگ کیا اس کی امید رکھ سکتے ہیں؟

انگلش میں پڑھیں.

ضرور پڑھیں

تبصرے (6) بند ہیں

Salma Sep 03, 2015 05:44pm
i fully agree and i had the same opinion about it. if he was no wasim akram there was an other murder indeed and no apology at all
Zeshan Sep 03, 2015 06:33pm
right now I am thinking who these 6 people are who have voted against the view of columnist. as nation we really need to wake up and I believe such incidents are wake up calls for us. Law enforcement institutions must take action against the convict and this funny apology letter must not be accepted and Wasim Akram should not have any right to forgive him, yes he can it in his personal capacity but this acceptance of apology should not impact on the case in any way. May Allah bless us and our country
نجیب احمد سنگھیڑہ Sep 03, 2015 07:18pm
اسلحہ کے زور پر عام سے خواص فرد کو دہشت کا نشانہ بنانا عام ہو چکا ہے۔ اس کی بڑی وجہ پولیس ڈیپارٹمنٹ ہے۔ پولیس محکمہ اسٹریٹ کرائمز کو اب وہ اہمیت نہیں دیتا جو نائن الیون سے پہلے دی جاتی تھی۔ کیوں؟ اس کیوں کا جواب نمبر بنانے کی خواہش ہے۔ پولیس سارا زور دہشتگردی سے نبرد آزما ہونے پر لگا رہی ہے یا لگانے کا تاثر پھیلا چکی ہے کہ اس کی بدولت پولیس کے نمبر راتوں رات بڑھ جاتے ہیں۔ جب کہ اسٹریٹ کرائمز پر قابو پانے سے پولیس کو وہ منافع نہیں ملتا جو دہشتگردانہ کیسز کو ڈیل کرتے ہوئے ملتا ہے۔ حالانکہ اسٹریٹ کرائمز میں بھی لوگوں کو قتل کر دیا جاتا ہے، گن پوائنٹ پر دہشت پھیلا کر لوٹ لیا جاتا ہے لیکن ایسے کیسز کو دہشتگردی سے الگ تصور کیا جاتا ہے جو کہ فرائض سے چشم پوشی ہے۔ جہاں تک بات ہے جرم کا ارتکاب کرنے والوں کو سزا دینے کی ریاست کی ذمہ داری ختم نہیں ہوجاتی، تو خون بہا ادا کر کے مجرم بچ نکلتے ہیں اور اس خون بہا کی اجازت ریاست دیتی ہے اور مذہب بھی۔ میاں بیوی راضی تو کیا کرے گا قاضی محاورہ اسی پس منظر میں استعمال کیا جاتا ہے۔ ریمنڈ ڈیوس کیس میں بھی مجرم کو جو چھوڑ دیا گیا تھا ریاستی سرپرستی میں۔
ARA 05 Sep 03, 2015 07:32pm
By the way, what is punishment meted out to WA on his confessed road rage? What gave him powers to become a law enforcer on that day?
Inder Kishan Sep 03, 2015 08:20pm
معافی دینا یا نہ دینا مکمل طور پر متاثرہ فریق (وسیم اکرم) کا حق ہے لیکن، یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ اگر یہ حرکت میجر کی بجائے کسی عام سویلین نے کی ہوتی تو کیا ہوتا۔ ملکی مسائل کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ امیر اور غریب، با اثر اور بے اثر کیلئے قوانین تو یکساں اور مساوی ہیں لیکن عمل صرف غریب یا بے اثر افراد کے خلاف ہی ہوتا ہے۔ امیر لوگ (جتوئی مرڈر کیس) تو پیسے لے دے کر معاملہ رفع دفع کر دیتے ہیں لیکن غریب یا پھر عام لوگ زندگی بھر ایسے مقدمات کے پیچھے کھجل و خوار ہوتے رہتے ہیں۔ ایلیٹ کلاس کیلئے ڈرنکنگ اینڈ ڈانس جائز ہے لیکن یہی کام اگر ایک عام آدمی کرے تو دھر لیا جاتا ہے کہ بھئی ملک میں مذہبی قوانین نافذ ہیں اسلئے آپ نے سستی تفریح کے حصول کیلئے جو غلط کام کیا ہے اس کیلئے آپ کو سزا تو ضرور ملے گی۔ کون نہیں جانتا کہ ایلیٹ کلاس پارٹیز میں بھی ڈرنکنگ ہوتی ہے اور کراچی کے فائیو اسٹار ہوٹلز میں بھی۔ ہے کوئی قانون؟ اگر اس طرح کے واقعات روکنا ہیں تو امیر غریب، سویلین فوجی، با اثر بے اثر سب کیلئے ایک ہی قانون ہونا چاہئے۔ ورنہ ایسا ہوتا رہے گا اور ایپولوجی کو زبردستی بھی قبول کرنا پڑ سکتا ہے۔
Naveed Chaudhry Sep 03, 2015 08:24pm
Asalam O Alikum, This should be dealt with according to law. Most of the time road rage is not one sided . Secondly and more important is to clear the country from weapons ( Liecenced or not ). Police should fullfil it's responsibilities to the country as a whole and only for elite class only.