ساحل پہ کھڑے ہو، تمہیں کیا غم!

اپ ڈیٹ 05 ستمبر 2015
بحیرہء روم کے بے رحم پانیوں میں ڈوبنے والا ہر بچہ قومی سرحدوں کے ظلم و ستم کی نشاندہی کر رہا ہے۔ — ZEZO Cartoons
بحیرہء روم کے بے رحم پانیوں میں ڈوبنے والا ہر بچہ قومی سرحدوں کے ظلم و ستم کی نشاندہی کر رہا ہے۔ — ZEZO Cartoons

ڈوبنے والے شامی بچے کی تصاویر نے دنیا کو دہلا کر رکھ دیا ہے۔ بدھ کی صبح لی گئی ان تصاویر میں عیلان کردی نامی تین سالہ بچے کی ترکی کے ساحل پر بہہ کر آنے والی لاش دیکھی جا سکتی ہے۔

وہ اور اس کا بھائی ان 12 لوگوں میں سے تھے جو شام میں جاری جنگ سے فرار ہونے کی کوشش میں سمندر میں ڈوب گئے۔ دنیا کے زیادہ تر لوگوں نے بڑے پیمانے پر جاری اس انسانی ہجرت کی تلخ کہانی کو صرف تب محسوس کیا جب یہ تصاویر منظرِ عام پر آئیں.

رفیوجی یا پناہ گزین ایک شخص نہیں، بلکہ ایک اذیت کا نام ہے۔ یہ اپنی آبائی زمین سے نکال دیے جانے، اور آخری سانس تک دربدر رہنے کی اذیت ہے، جو نہ کبھی ختم ہوتی ہے، اور نہ چین سے جینے دیتی ہے۔ ایک پناہ گزین ایک اجنبی کاغذ پر لکھی ہوئی ایک نظم ہوتا ہے۔ یہ دو طرح کی شناخت، مقامی اور غیر مقامی کے درمیان پھنس چکی ایک زندگی ہوتی ہے۔ یہ دو طرح کی سرزمینوں، اپنی اور پرائی، کے درمیان پھنس چکی ایک روح ہوتی ہے. ہمیشہ پریشان، کبھی سکون نہ پانے والا رفیوجی ایک اجنبی سرزمین پر بہہ جانے والا آنسو ہوتا ہے۔

جذباتی صدموں کے علاوہ پناہ گزین ہونا تکلیف، ہلچل، اور پریشانی سے بھرپور تجربہ ہوتا ہے۔ یہ سختیوں، غیر یقینی صورتحال، اور مصیبتوں کی کہانی ہے جو اپنے مگر بدحال گھر سے نکلنے اور ایک پرائے مگر پرسکون گھر کے راستے میں آتی ہیں۔

دیکھیں: شامی پناہ گزینوں کی مزید تصاویر

پناہ گزینی ظلم سے بھرپور وہ گھڑی ہے جب وطن چھوڑ دینا صرف ایک انتخاب نہیں بلکہ مجبوری بن جاتی ہے۔

آج دنیا بھر میں 6 کروڑ کے قریب لوگ ایسے ہیں جو جنگ، تنازعات، یا نسل کشی کے خوف سے اپنے علاقے چھوڑنے پر مجبور ہیں۔ 3 کروڑ 82 لاکھ لوگ اپنے ہی ملکوں کے اندر دربدری کا شکار ہیں جبکہ 1 کروڑ 95 لاکھ لوگ مختلف ممالک کی جانب ہجرت کر چکے ہیں۔

اسے دوسرے پیرائے میں دیکھا جائے تو کرہء ارض کے ہر 122 لوگوں میں سے 1 شخص دربدر ہے۔ شامی خانہ جنگی کی وجہ سے 95 لاکھ لوگ دربدر ہوچکے ہیں، جو کہ شام کی مکمل آبادی کا 43 فیصد ہے۔ آخری بار جنگِ عظیم دوئم کے دوران پناہ گزینوں کی تعداد 5 کروڑ سے زائد ہوئی تھی۔

یہ دور پناہ گزینی کا دور ہے۔

بحیرہء روم سے دردناک خبریں سامنے آ رہی ہیں، جہاں اس جنوری سے لے کر اب تک 2500 لوگ ہلاک ہو چکے ہیں۔ زیادہ تر لوگ شام، مشرقِ وسطیٰ، افریقہ، اور دیگر علاقوں سے یورپ پہنچنے کی کوشش میں سمندر میں ڈوب گئے۔ اس سال کے پہلے نصف میں یورپ پہنچنے والے ایک تہائی پناہ گزین شامی تھے۔ غلط نہیں ہوگا اگر یہ کہا جائے کہ یورپ اپنی تاریخ کے سب سے بڑے پناہ گزین المیے سے گزر رہا ہے۔

جانیے: شامی مہاجرین یورپی عیسائیت کیلئے خطرہ؟

دربدر ہوچکے لوگوں کی بے نظیر تعداد اس بات پر سوالیہ نشان لگانے کے لیے کافی ہے کہ دنیا آج نسبتاً محفوظ جگہ ہے۔

بحیرہء روم کے بے رحم پانیوں میں ڈوبنے والا ہر بچہ قومی سرحدوں کے ظلم و ستم کی نشاندہی کرتا ہے۔

گھر چھوڑنے پر مجبور کی جانے والی شام کی ہر عورت شدید مذہبی انتہاپسندی کی گواہ ہے۔

پاکستان بھر میں کسی بھی کیمپ میں رہنے والا آئی ڈی پی جنگوں کی بربریت اور جدید ریاستوں کی بے پناہ طاقت کا شاہد ہے۔

اس چیز کا اختتام کہیں نظر نہیں آتا۔ اوقیانوس کے ساحلوں سے لے کے بحرِ ہند کے ساحلوں تک قوم پرستی اور قومیت کا تصور اپنے عروج پر ہے۔ سوئیز سے لے کر دریائے سندھ تک مذہبی انتہاپسندی اور جدید سیاست کا گٹھ جوڑ معاشروں کو بکھیر رہا ہے۔ فرگوسن (امریکا) سے لے کر کشمیر تک، ریاستیں پہلے سے کہیں زیادہ طاقتور ہیں۔

پڑھیے: دربدری جب مقدر بن جائے

پناہ گزین المیہ بنیادی طور پر جدید دنیا کا المیہ ہے جسے ہمارے وقت کے ہم سے کیے جانے والے سوالات کے جواب ڈھونڈے بغیر نہیں ختم کیا جا سکتا۔

اس وقت سب سے اہم مسئلہ یہ ہے کہ اپنے آبائی علاقوں سے دربدر ہوجانے والے لاکھوں لوگوں کو کہاں اور کیسے ٹھہرایا جائے۔ 40 لاکھ کے قریب شامی لوگ دیگر ممالک میں پناہ حاصل کر چکے ہیں۔ یہ ضرور ہے کہ یورپی یونین کو یورپ پہنچنے والے پناہ گزینوں کی مدد کرنے کے لیے بھرپور اقدامات کرنے چاہیئں، لیکن یہ بھی سچ ہے کہ یہ المیہ اتنا بڑا ہے کہ اکیلے یورپی یونین کے بس کی بات نہیں۔

اس کے علاوہ یورپی یونین نہیں بلکہ ترکی، لبنان، اردن، عراق، اور مصر نے 95 فیصد شامی پناہ گزینوں کو جگہ دی ہے۔

حیرت انگیز طور پر، یا شاید غیر حیرت انگیز طور پر، تیل کی دولت سے مالامال خلیجی ممالک سعودی عرب، قطر، بحرین، کویت، اور متحدہ عرب امارات نے شامی پناہ گزینوں کو بالکل جگہ فراہم نہیں کی۔ صرف یہی ایک حقیقت 'ایک مسلم امت' کے تصور کو جھٹلانے کے لیے کافی ہے۔

اگر دنیا میں کوئی خطہ ایسا ہے جسے اس انسانی المیے کے حل کے لیے مزید اقدامات کرنے چاہیئں، تو وہ خلیج ہے۔ ان ممالک کے پاس وہ وسائل اور انفراسٹرکچر موجود ہے جو اس طرح کے حالات سے نمٹنے میں مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔ سعودی عرب اکیلے ہر سال لاکھوں عازمینِ حج کو سنبھالتا ہے۔ یہاں تک کہ اسلامی کلینڈر بھی ہجرت کے سال سے شروع ہوا اور ہجری کلینڈر کہلاتا ہے۔

برطانوی صومالی شاعر ورسان شائر جو برطانیہ منتقل ہوگئے تھے، انہوں نے یہ نظم لکھی تھی:

"تمہیں یہ سمجھنا ہوگا

کوئی بھی اپنے بچے کو کشتی میں نہیں ڈالتا

جب تک کہ پانی زمین سے زیادہ محفوظ نہ ہو"

ان سادہ الفاظ میں کتنی دردناک صدا پوشیدہ ہے، مگر یہ اتنی دردناک نہیں جتنی اس ڈوب جانے والے شامی بچے کی ہوگی۔

انگلش میں پڑھیں۔

تبصرے (10) بند ہیں

صوفیہ کاشف Sep 04, 2015 05:06pm
اقبال نے بالکل صحیح کیا تھا کہ مجودہ خداوں میں سب سے بڑا وطن ہے.آج کی ان حدبندیوں نے زمیں تنگ کر دی ہے!
Yusuf Sep 04, 2015 06:17pm
@صوفیہ کاشف we need more people having ideology like yours......Great analysis!
Akhtar Hafeez Sep 04, 2015 06:44pm
اپنی ملکی سرحدوں کو محفوظ بنانے کی خاطر دنیا کے کئی ممالک بچوں کو غیر محفوظ بنا رہے ہیں۔
نجیب احمد سنگھیڑہ Sep 04, 2015 06:54pm
اس تصویر نے منٹو کے افسانے ‘ٹوبہ ٹیک سنگھ‘ میں عملی رنگ بھر دیا ہے۔ منٹو کے اس شاہکار افسانے کا مقصد یہی تھا کہ سرحدیں انسان کی اکھاڑ پچھاڑ کر دیتی ہیں، سرحدیں انسانوں کے مابین دوریاں پیدا کرتی ہیں، محبت چھین لیتی ہیں، نفرت پروان چڑھاتی ہیں۔ آج جب گلوبل ورلڈ کہتے نہیں تھکتے تو کیا وجہ ہے کہ انسانوں کی بنائی ہوئی سرحدوں کی لکیر کو ختم کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی جا رہی؟ دیوار برلن ٹوٹ چکی ہے لیکن باقی ممالک کی سب دیواریں نہ صرف جوں کی توں ہیں بلکہ مزید موٹی اور اونچی ہوتی جا رہی ہیں۔ ون ورلڈ ون باؤنڈری کا وقت کب آئے گا؟ شاید تب آئے گا جب باؤنڈری سے فائدہ پہنچنے والوں کو عقل آئے گی، جب اسلحہ کی دوڑ ختم ہو جائے گی، جب اسلحہ کی جگہ قلم دوات اور تختی جگہ لے گی اور یہ دور پتہ نہیں آئے گا بھی کہ نہیں۔
KHALID MAHMOOD KHAWAR Sep 05, 2015 09:33am
ساحل پہ لیٹے ہو، تمہیں کیا غم یہ دنیا تیرے لیے ہے
KHALID MAHMOOD KHAWAR Sep 05, 2015 09:40am
سعودی عرب اکیلے ہر سال لاکھوں عازمینِ حج کونہین سنبھالتا ہے بلکہ حاجی خود ہی سنبھلتے ہین۔
MUHAMMAD AYUB KHAN Sep 05, 2015 09:53am
@نجیب احمد سنگھیڑہ YOUR ANALYSIS IS OUT OF CONTEXT. AND YOU DID NOT UNDERSTAND THE EXACT SITUATION
MUHAMMAD AYUB KHAN Sep 05, 2015 10:08am
دنیا مین کتناغم ہے میرا غم کتناکم ہے
Ismail Shah Sep 05, 2015 01:20pm
عراق میں پر حملے سے پہلے کیا حالات تھے اب کیا حالات ہیں اس ٹائم کتنے لوگ مرتے تھے، کتنے لوگ بےگھر تھے اور کتنے لوگ بےروزگار تھے اور اب۔ اسی طرح لیبیا شام اور مصر ان سب کے حالات کے یا بغاوات یا جاری جنگی حالات کے پیچے کس کا ہاتھ ہے ان ممالیک کے تباہی کے زمیدار کونیسے مما لیک ہیں اور اسے حالات پیداکرنے والوں کو سپورٹ کرنے والے ممالیک کونسے ہیں اور ہم نے اپنے آنکھے کیو بند کیے ہیں
MUHAMMAD AYUB KHAN Sep 06, 2015 03:31pm
@Ismail Shah -- THIS IS POINT. YOU CAN NOT DO ANYTHNG AGAINST THEM AS YOU ARE NOT STRONG. FIRST DESERVE THEN DESIRE