بہترین تعلیمی شعبہ کیسے منتخب کریں؟

07 ستمبر 2015
بہترین تعلیمی شعبے کا انتخاب انسان کی زندگی کا سب سے اہم فیصلہ ہوتا ہے اس لیے یہ فیصلہ نہایت سوچ سمجھ کر کرنا چاہیے. — خاکہ Olivier Le Moal
بہترین تعلیمی شعبے کا انتخاب انسان کی زندگی کا سب سے اہم فیصلہ ہوتا ہے اس لیے یہ فیصلہ نہایت سوچ سمجھ کر کرنا چاہیے. — خاکہ Olivier Le Moal

کریئر کی منصوبہ بندی، یعنی آپ کس تعلیمی شعبے کو اپنانا اور نتیجتاً کس شعبے میں کام کرنا چاہتے ہیں، کس طرح کی جائے، اس کا سب سے بہتر طریقہ تو یہ ہے کہ آپ کسی پروفیشنل کریئر کونسلر سے رابطہ کریں جو آپ کی اس حوالے سے رہنمائی کرے۔ لیکن پاکستان میں کریئر کونسلرز کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے۔ میری ذاتی معلومات کے مطابق (لاہور میں) کوئی بھی کریئر کونسلر ذاتی طور پر کام نہیں کر رہا۔ کچھ تعلیمی اداروں نے اپنے طور پر کریئر کونسلرز کی خدمات حاصل کر رکھی ہیں۔ لیکن اگر آپ کو خود یا اپنے بچے کے لیے کسی کریئر کونسلر کی تلاش ہے تو آپ کو شاید مایوسی ہوگی۔

کریئر پلاننگ کا دوسرا طریقہ یہ ہے کہ آپ خود وہ طریقہء کار اپنائیں جو پروفیشنل کریئر کونسلرز اختیار کرتے ہیں۔ اس طریقہء کار سے آپ زیادہ آسانی اور زیادہ بہتر طور پر تعین کر سکتے ہیں کہ بطور طالب علم خود آپ کے لیے یا بطور والدین آپ کے بچے کے لیے کون سا شعبہ زیادہ فائدہ مند ہے۔

اور یاد رکھیں کہ آپ جو بھی منصوبہ بندی کریں، اس کو لازمی کاغذ پر (Black and White) درج کریں تاکہ بعد میں آپ کو رزلٹ حاصل کرنے اور اس کا تجزیہ کرنے میں آسانی ہو۔

پڑھیے: کریئر کونسلنگ کیوں ضروری ہے؟

طلبہ یا والدین کو کریئر پلاننگ کے لیے مندرجہ ذیل امور کو مدِ نظر رکھنا چاہیے۔

1: ذہانت کا امتحان (آئی کیو ٹیسٹ)

2: رجحان /مزاج

3: دلچسپی

4: معاشی حالات

5: صنف

6: دستیاب تعلیمی مواقع

1: بنیادی ذہانت/آئی کیو لیول کو ٹیسٹ کرنا: اس ٹیسٹ میں کسی بھی انسان کی ذہنی صلاحیتوں کی سائنسی بنیاد پر پیمائش کرنا مقصود ہے تاکہ یہ معلوم کیا جاسکے کہ طالب علم مطلوبہ شعبے میں جانے کی بنیادی قابلیت رکھتا ہے یا نہیں، (ویسے آپ کو بطور والدین اپنے بچے کے بارے میں اور ہر طالب علم کو خود اپنے بارے میں زیادہ بہتر معلوم ہوتا ہے کہ اس کی ذہنی صلاحیت کتنی ہے اور اس کو اس کورس/شعبے میں داخلہ لینا چاہیے یا نہیں)۔ کریئر کی بہتر منصوبہ سازی کے لیے یہ بنیادی شرط ہے۔

بنیادی ذہانت معلوم کرنے کے لیے بہت سی کتابیں اردو اور انگریزی زبان میں مارکیٹ میں دستیاب ہیں جن سے آپ استفادہ کر سکتے ہیں۔

اس کا ایک جدید طریقہ آئی کیو ٹیسٹ کا بھی ہے جس سے زیادہ جامع معلومات مل جاتی ہے۔ آج کل آئی کیو ٹیسٹ کمپیوٹر کے ذریعے بھی ہوتا ہے۔ آئی کیو ٹیسٹ یعنی ذہانت کی جانچ کے مرحلے میں صرف طالب علم کی خواندگی اور حافظے (یاد رکھنے کی صلاحیت) کے معیار کو چیک کیا جاتا ہے۔ لیکن خیال رکھیے کہ یہ ٹیسٹ صرف انگلش میں ہوتا ہے، اس لیے صرف ان بچوں کو جن کی انگریزی بہت اچھی ہے، ان کے لیے ہی یہ طریقہء کار کارآمد ہے۔ اردو میڈیم بچوں کو یا وہ بچے جن کی انگریزی کمزور ہے، ان سے یہ ٹیسٹ نہیں لینے چاہیئں کیونکہ اس سے بچے میں کئی نفسیاتی مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔

ٹیسٹ دینے والے طالب علم کے جتنے زیادہ نمبر ہوں گے وہ اتنا ہی زیادہ ذہین شمار کیا جاتا ہے۔ آئی کیو ٹیسٹ میں عام انسان کے نمبر 70 سے 90 تک ہوتے ہیں۔ جب کہ جو شخص 90 سے زیادہ پوائنٹس لیتا ہے اس کو ذہین تسلیم جاتا ہے۔ اکثر سائنس دانوں کا آئی کیو لیول 120 کے آس پاس ہوتا ہے۔ بعض ماہرین کا خیال ہے کہ مشہور سائنس دان البرٹ آئن اسٹائن کا آئی کیو 160پوائنٹس ہوگا۔

مزید پڑھیے: میڈیا چینلز کی بھیڑ چال میں آج کی اہم ضرورت

آئی کیو ٹیسٹ کئی حصوں پر مشتمل ہوتا ہے، جس میں سائنس، زبان، سماجی سوجھ بوجھ، ریاضی، اور پیچیدہ مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت اور زندگی کے مختلف شعبوں میں مہارت کا جائزہ لے کر ایک اوسط تخمینہ لگایا جاتا ہے۔

2: رویہ: عملی زندگی میں کامیابی کے لیے کسی بھی شعبے کے انتخاب کے لیے لازمی ہے کہ طالبِ علم کا رویہ اس شعبے کے بارے میں درست ہو۔ رویے کو تبدیل بھی کیا جاسکتا ہے لیکن اس کے لیے کافی محنت درکار ہوتی ہے اس لیے زیادہ بہتر یہ ہے کہ طالب علم کا جو عمومی رویہ یعنی مزاج ہو، اسی طرح کے شعبے کا انتخاب کیا جائے۔ مثلاً جو بچے زیادہ سخت جسمانی مشقت نہیں کر سکتے ان کو پولیس یا فوج کے شعبے کا انتخاب نہیں کرنا چاہے کیونکہ وہاں ساری زندگی سخت ترین جسمانی مشقت، سخت حالات، اور تھکا دینے والے روز مرہ کے معمول کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

اگر کوئی ایسا طالب علم جو مطلوبہ مزاج کا نہ ہو اور وہ پولیس یا فوج کے شعبے کا انتخاب کرتا ہے تو اس کو دو میں سے ایک چیز کا انتخاب کرنا ہوگا: یا تو وہ نوکری چھوڑ دے یا اپنا رویہ یا مزاج تبدیل کر لے۔ چونکہ رویے کو تبدیل کرنا کافی مشکل کام ہے اسی لیے ایسے محکموں میں بھرتی کا عمل مشکل ہوتا ہے تاکہ صرف مطلوبہ رویے/مزاج کے لوگ ہی کامیاب ہوں۔

جو طالب علم اپنا رویہ مزاج تبدیل /درست کرنا چاہتے ہیں ان کو چاہیے کہ ایسا طرز عمل اپنائیں جو ان کا پسندیدہ شعبے کی ضرورت ہو۔ اپنے بارے میں اپنی رائے کو ہمیشہ مثبت رکھیں۔ اور جو شعبہ اختیار کرنا ہے، اس کے کامیاب و ناکام افراد سے ملاقات کریں، اور ان سے ان کی کامیابی اور ناکامی کے اسباب جانیں۔

3: طالب علم کی ذاتی دلچسپی: کسی بھی انسان سے اس کی مرضی کے خلاف کوئی کام نہیں لیا جا سکتا۔ اگر زبردستی کام کروا بھی لیا جائے، تو بھی اس میں وہ نفاست نہیں ہوگی جو دلچسپی سے کرنے پر آتی ہے۔ اسی طرح جب تک کہ طالب علم کی کسی کام میں ذاتی دلچسپی نہیں ہوگی وہ اس شعبے میں کامیاب نہیں ہوگا۔ اس لیے سب سے زیادہ والدین کو یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ وہ اپنی مرضی بچوں پر مسلط نہ کریں اور کریئر کے انتخاب کے مراحل میں طلبہ کے شوق اور مرضی یعنی ان کی دلچسپی کا خیال رکھیں، ورنہ بعد میں ان کی تمام محنت ضائع ہونے کا اندیشہ ہے۔

جانیے: کوئی کام نہیں تو بی ایڈ کر لیں

یاد رکھیے کہ عملی زندگی میں لوگ اس لیے ناکام نہیں ہوتے کہ ان کے پاس ٹیلنٹ نہیں تھا یا وہ ذہین نہیں تھے، یا ان کے پاس اعلیٰ ڈگری نہیں تھی، بلکہ وہ صرف اور صرف اس لیے ناکام ہوتے کیونکہ وہ دلچسپی کے بغیر بے دلی سے کام کرتے تھے۔

4: خاندان کے معاشی حالات: اپنے لیے یا اپنے بچے کے لیے کسی بھی کورس کا انتخاب کرتے وقت اپنے خاندان کے معاشی حالات کو مدِ نظر رکھنا بہت ضروری ہے۔ پاکستان میں طلبہ و طالبات کی بہت بڑی تعداد ڈاکٹری کا پیشہ اختیار کرنا چاہتی ہے، لیکن حکومتی سطح پر ملک بھر میں میڈیکل کالجز اور ان میں سیٹوں کی تعداد شرمناک حد تک کم ہے۔ ہر سال پاکستان بھر سے لاکھوں کی تعداد میں طلبہ و طالبات میڈیکل کالجز میں داخلے کے خواہش مند ہوتے ہیں۔ لیکن ان میں سے صرف چند ہزار کو ہی داخلہ ملتا ہے اور باقی کے لیے صرف نجی کالجز بچتے ہیں جن کی فیسیں بہت زیادہ ہیں۔

کہنے کا مقصد کسی کی دل آزاری نہیں ہے، لیکن کیا یہ بہتر نہیں کہ ایسی صورتحال میں دلبرداشتہ ہونے کے بجائے ایک بیک اپ پلان موجود ہو؟ کئی لوگ ایسے ہیں جو میڈیکل کالجز میں داخلہ نہ ہونے پر ہمت ہار کر بیٹھ جاتے ہیں اور کئی کئی سالوں تک کوشش کرتے رہتے ہیں جس میں وقت اور توانائی ضائع ہوتی ہے جبکہ ہر سال داخلہ نہ ملنے پر ہمت میں کمی آتی جاتی ہے۔ جبکہ کئی لوگ اسی ناکامی کو اپنی دوسری دلچسپی والا شعبہ اپنا کر کامیابی میں تبدیل کر لیتے ہیں۔

5: صنف: پاکستانی معاشرے میں خواتین کے بارے میں کافی تنگ نظری موجود ہے اس لیے لڑکیوں کو ان شعبہ جات کا انتخاب کرنا چاہیے جس میں اگر وہ عملی زندگی میں جاب کرنا چاہیں تو ان کو زیادہ مشکلات نہ ہوں۔

خواتین کی جاب کے بارے میں پاکستانی معاشرے کی سوچ کے لیے صرف پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل کی یہ رپورٹ ہی کافی ہے کہ ’’50 فیصد لڑکیاں میڈیکل کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد کبھی جاب نہیں کرتیں۔‘‘ اس میں خاندانی دباؤ اور بہت سارے دیگر عوامل شامل ہیں۔

بعض واقعات میں دیکھا گیا ہے کہ لڑکیوں نے اپنی پسند سے سول انجینیئرنگ میں ڈگری اچھے نمبروں سے حاصل کی لیکن ان کو اچھی کمپنیز میں جاب نہ مل سکی، کیونکہ نجی کمپنیز کے مالک ان سے کہتے تھے کہ ہم آپ کی جگہ مردوں کو جاب دیتے ہیں تو وہ آفس کے ساتھ ساتھ بطور سائٹ انجینیئر سٹرکوں، پلوں، اور جنگلوں میں کام کر سکتا ہے جبکہ ’’لیڈی سول انجینیئر‘‘ یہ کام نہیں کر سکتیں۔ اگر ہم آپ کو جاب دیتے ہیں تو ہمیں بطور سائٹ انجینیئر ایک اور شخص کو اضافی تنخواہ دینی ہوگی اس لیے معذرت۔

پڑھیے: کریئر کا انتخاب سوچ سمجھ کر کریں

کریئر کونسلنگ کے ماہرین کے مطابق اگر ایسی لڑکیاں سول انجینیئرنگ کے بجائے آرکیٹکچر کا انتخاب کرتیں تو ان کو عملی زندگی میں زیادہ مشکلات نہ ہوتی اور ان کا تعمیرات کا شوق بھی پورا ہوجاتا۔

اسی طرح پرائمری اسکول ٹیچرز کا کام نوجوان لڑکے نہیں کر سکتے۔ وہ کلاس میں چھوٹے چھوٹے بچوں سے بہت جلدی تنگ آ جائیں گے اور فوری ان پر تشدد شروع کر دیں گے۔

6: دستیاب تعلیمی مواقع: اس سے مراد یہ ہے کہ ہمارے ہاں اکثر طالب علموں اور ان کے والدین کو یہ معلوم ہی نہیں ہوتا کہ اس وقت کون کون سے تعلیمی شعبہ جات میں وہ داخلہ لے سکتے ہیں۔ مثلاً عمومی طور پر ایف ایس سی پری میڈیکل کرنے والے خواہشمند طلبہ اس کے بعد کے مزید شعبہ جات کے بارے میں لاعلم ہوتے ہیں حالانکہ پاکستان میں ایم بی بی ایس/بی ڈی ایس کے علاوہ فارمیسی، ویٹرنری، میڈیکل سائنسز، بائیو میڈیکل، کیمیکل میڈیکل، ایگریکلچرل، مائیکرو بائیولوجی اور منسلک طبی سائنسز جیسے سائیکاٹری، سائیکولوجی، فزیوتھیراپی وغیرہ کے شعبہ جات میں تعلیم اور روزگار کے وسیع مواقع موجود ہیں۔

اس میں سارا قصور والدین یا طلبہ کا نہیں بلکہ ہماری حکومت کا بھی ہے جس نے کبھی اس سمت میں کوئی کام کیا ہی نہیں اور نہ ہی سرکاری یونیورسٹیوں اور ایجوکیشن کے ذمہ دار محکموں نے اس طرح کا مواد شائع کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس لیے آپ کو خود اپنے لیے محنت کرنا ہوگی اور اپنے لیے دستیاب تمام تعلیمی مواقع تلاش کرنے ہوں گے۔

بہترین تعلیمی شعبے کا انتخاب ہر طالب علم اور اس کے خاندان کے لیے سب سے اہم فیصلہ ہوتا ہے، لہٰذا ہر طالب علم کو اپنی شخصیت، صلاحیت، خواہش، ذہنی استعداد، مالی وسائل اور اپنی عملی ضروریات کو دیکھ کر اپنے لیے بہترین شعبے کا انتخاب کرنا ہوتا ہے۔ چونکہ معاشرے کے ہر فرد کی ضروریات اور مسائل مختلف ہیں، چنانچہ ہو سکتا ہے کہ ایک شعبہ ایک طالب علم کے لیے بہترین ہو لیکن دوسرے طالب علم کے لیے وہ بدتر ہو۔ اس لیے ہر شخص کو اپنے وسائل اور حالات کے مطابق خود فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ اس کے لیے کون سا تعلیمی شعبہ بہترین ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (11) بند ہیں

نجیب احمد سنگھیڑہ Sep 07, 2015 06:39pm
پاکستانی لیڈیز کے لیے بہترین جاب ٹیچنگ فیلڈ ہے۔ یہ فیلڈ خواتین کو تحفظ بھی فراہم کرتا ہے۔ پاکستان کے سرکاری سکولوں کالجوں میں صنف نازک کے علحیدہ سکول کالجز ہیں اور ان میں پچانوے فیصد سے زیادہ تدریسی سٹاف لیڈیز پر مشتمل ہوتا ہے۔ اس فیلڈ میں لیڈیز آسانی سے بغیر کسی مردانہ معاشرہ کے خوف کے ملازمت ریٹائرمنٹ تک کر سکتی ہیں۔ یہی واحد فیلڈ ہے جس میں لیڈیز کی جاب کو گھر محلہ بلاک سیکٹر ایریا میں دباؤ کا سامنا نہیں کرنا پڑتا جو کہ دیگر پروفیشنز میں عام طور پر ہوتا ہے۔ وجہ صرف اس کی یہ ہے کہ تعلیمی شعبہ میں لیڈیز کا تعلق مرد ملازمین سے نہیں ہوتا اور یوں لیڈیز کو طعنے مہنے نہیں سننے پڑتے جو کہ دیگر محکموں میں ملازم پیشہ خواتین کو سننے اور برداشت کرنے پڑتے ہیں۔ جہاں تک بات ہے بہترین تعلیمی شعبہ کے انتخاب کی تو گذارش کرنا چاہوں گا کہ وقت اور حالات پانسے پلٹتے رہتے ہیں۔ وقت کبھی سدا ایک سا نہیں رہتا۔ کمپیوٹر سائنس میں ماسٹر ڈگری ہولڈرز کلرک بھرتی ہو رہے ہیں کیونکہ بیروزگاری آسمان کو چھو رہی ہے۔ کلرک بھرتی نہ ہونا اور کمپیوٹر سائنس کی ڈگری کو لے کر اسی فیلڈ کی نوکری کا انتظار کوئی نہیں کر سکتا۔
عائشہ بخش Sep 07, 2015 07:26pm
@نجیب احمد سنگھیڑہ : کیا ماشا اللہ مردانہ سوچ کے مطابق خوصورت تبصرہ کیا ہے ۔ عالی جا ! اگر پاکستانی خواتین جاب کے لئے صرف اور صرف شعبہ تدریس ہی منتخب کریں گی ۔۔۔۔۔ تو کیا خواتین کاعلاج مرد ڈاکٹروں کریں گے ۔ ویسے مجھے تو اس پر کوئی اعتراض نہیں لیکن کیا آپ کو یہ قبول ہوگا؟؟؟؟؟؟
Ali abdullah Sep 08, 2015 12:55pm
بہت اچھا مضمون ہے ۔ ہمیں زیادہ مشکل ’’دستیاب تعلیمی مواقع‘‘ کے لئے ہوتی ہے ۔ اگر آپ کی پاس اس سلسلے میں معلومات ہو تو اس پر ضرور تحریر کریں۔ یا کسی ویب سائٹ یا بک جو اس سلسلے میں مددگار ہو۔ اس کے بارے میں آگاہ کریں۔
suarry Sep 08, 2015 10:31pm
بہت اچھی تحریر ہے ۔ لیکن اس کا کوئی خاص فائدہ نہیں ہوگا۔ حکومت کے ساتھ ساتھ ہماری عوام کی اکثریت اپنی بہتری چاہتی ہی نہیں
suarry Sep 08, 2015 10:40pm
آپ نے تحریر کیا ہے کہ پری میڈیکل کے بعد سائیکولوجی میں تعلیم بھی حاصل کی جاسکتی ہے ۔ لیکن میری معلومات کے مطابق سائیکولوجی علم نفسیات کے لئے پری میڈیکل کی شرط لازمی نہیں۔ آپ سادہ ایف اے کے بعد بھی سائیکولوجی میں بی اے ، ایم اے ، ایم فل، اور پی ایچ ڈی کرسکتی ہیں۔ کیا یہ بات درست ہے ؟
abdul kalam Sep 09, 2015 10:47am
تحریر اچھی ہے۔ خواتین کو بھی یکساں مواقع میسر ہیں، ہاں یہ ضرور ہے کہ اکثر خواتین شادی کے بعد اپنی نجی زندگی میں اتنی مصروف ہو جاتی ہیں کہ وہ اپنی کیرئیر سے متعلق کچھ کرنا بھی چاہیں تو نہیں کر پاتی۔ باقی تعلیمی کیرئیر سے آگاہی اکثر لوگوں کو نہیں ہوتی۔ ہم سب کو اس کے لئے کوشش کرنی چاہیئے۔
صابر حسین Sep 09, 2015 12:35pm
کیا ایف اے کے بعد فزیوتھیراپی کا کورس ہوسکتا ہے ؟ اور لاہور میں کون کون سے تعلیمی اداروں میں یہ کورس/ڈگری ہوتی ہیں؟
حسن امتیاز Sep 11, 2015 06:54pm
@suarry : آپ کی بات درست ہے ۔ نفیسات کی تعلیمی کے لئے پری میڈیکل کی شرط لازمی نہیں۔ یہ میری کم علمی تھی ۔ میں معذرت چاہتا ہوں۔
حسن امتیاز Sep 11, 2015 06:59pm
@Ali abdullah :اس موضوع پر ابھی تک میں نے ذاتی طور پر کوئی کتاب نہیں دیکھی۔ کچھ نجی ویب سائٹ سے اس سلسلے میں کچھ کام کیا ہے ۔ جن سے کچھ معلومات مل جاتی ہے ۔ جن میں علم کی دنیا ڈاٹ کام اور ایجو ویژن ڈاٹ ای ڈی یو کا مجھے علم ہے ۔
حسن امتیاز Sep 11, 2015 07:04pm
@صابر حسین :میں معذرت چاہتا ہوں۔ میرے پاس اس بارے میں کوئی معلومات موجود نہیں۔ اس کے لئے آپ کو خود ہی کوشش کرنا ہوگی ۔
Telmeez Sep 13, 2015 01:02am
how can i read this article in English?