افغان امن مذاکرات: ’پاکستان میزبانی کا خواہشمند‘

18 ستمبر 2015
وزیراعظم کے مشیر برائے  امور خارجہ اور قومی سلامتی سرتاج عزیز — فائل فوٹو/ رائٹرز
وزیراعظم کے مشیر برائے امور خارجہ اور قومی سلامتی سرتاج عزیز — فائل فوٹو/ رائٹرز

اسلام آباد:وزیراعظم کے مشیر برائے امور خارجہ امور و قومی سلامتی سرتاج عزیز کا کہنا ہے کہ اگر کابل چاہتا ہے تو پاکستان افغان امن مذاکراتی عمل کے نئے مرحلے کی میزبانی کرسکتا ہے۔

سینیٹ میں خارجہ پالیسی پر بریفنگ دیتے ہوئے سرتاج عزیز نے کہا کہ ’اگر افغانستان چاہتا ہے کہ ہم سہولت فراہم کریں تو پاکستان افغان امن مذاکراتی عمل کے دوسرے مرحلے کی میزبانی کرسکتا ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ پاکستان صرف سہولت فراہم کرسکتا ہے، تاہم افغان حکومت کو پہل کرنا ہوگی۔

سرتاج عزیز کا کہنا تھا کہ رواں ماہ کابل میں ہونے والی ریجنل اکنامک کانفرنس کے موقع پر انھوں نے افغان رہنماؤں کو پیش کش کی تھی کہ طالبان رہنما ملا عمر کی موت کے انکشاف کے بعد ملتوی ہوجانے والے امن مذاکراتی عمل کو دوبارہ شروع کیا جاسکتا ہے۔

واضح رہے کہ پاکستان نے مذاکراتی عمل کے پہلے مرحلے کی میزبانی رواں برس 7 جولائی کو کی تھی جبکہ پاکستان کی جانب سے دوسرے مرحلے کی میزبانی 31 جولائی کو کی جانی تھی تاہم ملا عمر کی موت کی خبریں نشر ہونے کے بعد طالبان نے مذاکراتی عمل کو ملتوی کردیا تھا۔

یاد رہے کہ اس کے بعد طالبان کی جانب سے افغانستان میں کارروائیوں میں تیزی آگئی جبکہ تنظیم اندرونی طور پر سربراہی کے معاملے پر اختلافات کا شکار ہوگئی۔

تاہم اب چونکہ تنظیم کی سربراہی کے حوالے سے موجود اختلافات ختم ہوچکے ہیں، لہذا اس بات کا بھی امکان ظاہر کیا جارہا ہے کہ طالبان امن مذاکراتی عمل کا دوبارہ حصہ بننے کے لیے تیار ہوجائیں گے۔

سرتاج عزیز کا کہنا تھا کہ پاکستان امن مذاکراتی عمل میں سہولت فراہم کرنے کے لیے افغان حکومت کے جواب کا منتظر ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ کابل میں ان سے ملاقات میں افغان صدر اشرف غنی نے وعدہ کیا تھا کہ وہ اپنے حکومتی اتحاد میں شامل دیگر جماعتوں اور ملک کی سیاسی قیادت سے مشاورت کے بعد پاکستان کی پیش کش کا جواب دیں گے۔

سرتاج عزیز نے بتایا کہ مذاکراتی عمل کے حوالے سے کابل اختلافات کا شکار ہے، انھوں نے کہا کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ’کچھ لوگ مذاکراتی عمل کی حمایت اور کچھ مخالفت کررہے ہیں۔‘

قومی سلامی کے مشیر نے کہا کہ افغان حکومت مذاکراتی عمل کی حامی نظر آتی ہے تاہم ایسا لگ رہا ہے کہ وہ اس میں پاکستانی کردار پر اختلاف رکھتے ہیں۔

واضح رہے کہ افغانستان اور پاکستان کے لیے امریکا کے خصوصی مشیر جارریٹ بلانک نے رواں ہفتے کے آغاز پر اسلام آباد اور کابل کے دورے کے موقع پر کہا تھا کہ یہ فیصلہ طالبان کو کرنا ہے کہ کیا وہ مذاکرات کے لیے واپس آنا چاہتے ہیں۔

انھوں نے مزید کہا تھا کہ دیگر فریق بات چیت کے لیے تیار ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں