بڈھ بیر حملہ: 5 ’دہشت گردوں‘ کی شناخت

اپ ڈیٹ 20 ستمبر 2015
14 دہشت گردوں کے جسمانی نمونے گزشتہ روز لیے گئے تھے ...فوٹو: ڈان نیوز اسکرین گریب
14 دہشت گردوں کے جسمانی نمونے گزشتہ روز لیے گئے تھے ...فوٹو: ڈان نیوز اسکرین گریب

پشاور: خیبر پختونخوا کے علاقے بڈھ بیر میں پاکستان ایئر فورس (پی اے ایف) کے ایئربیس پر حملے میں ملوث 5 دہشت گردوں کی شناخت کر لی گئی۔

فورسز کے آپریشن میں ہلاک ہونے والے جن دہشت گردوں کی شناخت ہوئی ہے ان میں 27 سالہ محمد اسحاق، 27 سالہ ابراہیم، 21 سالہ سراج الدین، 20 سالہ رب نواز اور 19 سالہ عدنان شامل ہیں۔

مزید پڑھیں : 14 حملہ آوروں کے جسمانی نمونے حاصل

یہ پانچوں دہشت گرد پاکستانی ہیں، ان میں سے رب نواز اور محمد اسحاق کا تعلق سوات سے تھا جبکہ سراج الدین، ابراہیم اور عدنان کا تعلق خیبر ایجنسی سے تھا۔

محمد اسحاق

27 سالہ محمد اسحاق کا تعلق سوات میں کبل سے تھا، اس کی پیدائش یکم جنوری 1988 میں ہوئی تھی جبکہ اس کی ولدیت محمد شیر علی خان ہے۔

ابراہیم

ابراہیم کا تعلق خیبر ایجنسی کی تحصیل باڑہ سے تھا جبکہ اس کی عمر 27 سال تھی، شناختی کارڈ کے مطابق اس کی پیدائش 10 مارچ 1988 کوئی ہوئی تھی اور اس کے والد کا نام محیب خان تھا۔

سراج الدین

سراج الدین کے شناختی کارڈ کے مطابق اس کی پیدائش 10 فروری 1994 کو ہوئی جبکہ اس کو تعلق خیبر ایجنسی کی تحصیل باڑہ سے تھا، 21 سالہ سراج الدین کے والد کا نام لعل مت خیل تھا۔

رب نواز

رب نواز کے جاری کردہ شناختی کارڈ کے عکس پر اس کی تاریخ پیدائش 16 جنوری 1995 درج ہے جبکہ اس کے والد کا نام شیر دست خان لکھا ہوا ہے جبکہ رب نواز کا تعلق سوات سے تھا۔

عدنان

جن حملہ آوروں کی شناخت جاری کی گئی ہے ان میں عدنان سب سے کم عمر تھا اس کے شناختی کارڈ کے مطابق تاریخ پیدائش 15 اگست 1996 تھی، سوات کے 19 سالہ عدنان کی ولدیت نظر بند خان ہے۔

یہ بھی پڑھیں : ایئر فورس کیمپ پر طالبان کا حملہ،29 افراد ہلاک

یاد رہے کہ بڈھ بیر میں پی اے ایف کے کیمپ پر دو دن پہلے حملہ کیا گیا تھا جس میں 29 افراد ہوئے تھے جن میں سے 23 کا تعلق پاکستان ایئر فورس سے تھا جبکہ آپریشن کے بعد 13 دہشت گردوں کی لاشیں ملی تھی، ایک دہشت گرد کی لاش ایک روز بعد جنریٹر روم سے برآمد ہوئی تھی۔

حملے کے بعد پاک فوج کے ترجمان ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) انٹر سروسز پبلک ریلیشنز (آئی ایس پی آر) عاصم باجوہ نے کہا تھا کہ بڈھ بیر کیمپ پر حملے کی منصوبہ بندی افغانستان میں کی گئی تھی جبکہ دہشت گرد آئے بھی افغانستان سے ہی تھے۔

گزشتہ روز محکمہ فرانزک اور ٹاکسیکولوجسٹ نے حملے میں ملوث 14 دہشت گردوں کی لاشوں سے جسمانی نمونے حاصل کیے تھے۔

یہ نمونے لاہور میں قائم پنجاب فرانزک سائنس ایجنسی میں شناخت کے لیے بھجوائے گئے تھے۔

گزشتہ روز ہی حملے میں استعمال ہونے والی گاڑی کے مالک کو بھی حراست میں لیا گیا تھا، البتہ گاڑی کے مالک کا کہنا تھا کہ اس نے گاڑی 2 سال قبل فروخت کر دی تھی۔

خیال رہے کہ پاک فوج نے 10 جون 2014 کو کراچی ائیر پورٹ حملے کے بعد شمالی وزیرستان میں آپریشن ضرب عضب شروع کیا۔

آپریشن ضرب عضب میں کامیابی سے قبائلی علاقوں سے دہشت گردوں کو ختم کرنے کا دعویٰ کیا گیا جبکہ خیبر ایجنسی میں اکتوبر میں آپریشن خیبر - ون شروع ہوا جس میں شمالی وزیرستان سے فرار ہو کر خیبر ایجنسی آنے والے عسکریت پسندوں کا خاتمہ کیا گیا۔

آپریشن ضرب عضب اور آپریشن خیبر-ون میں بڑے پیمانے پر نقصان ہونے کے بعد کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے 16 دسمبر 2014 کو پشاور میں آرمی پبلک اسکول پر حملہ کیا اس حملے میں 130 سے زائد بچوں سمیت 150 افراد ہلاک ہوئے۔

آرمی پبلک اسکول پر حملے میں بچوں کی ہلاک کے بعد نیشنل ایکشن پلان ترتیب دیا گیا جس کے تحت آئین میں ترمیم کرکے فوجی عدالتیں قائم کی گئی جبکہ 6 سال سے سزائے موت پر غیر اعلانیہ طور پر عائد پابندی ختم کرکے پھانسیاں دینے کا سلسلہ شروع کیا گیا۔

پشاور میں دہشت گردوں کے ہاتھوں بچوں کے قتل کے بعد عسکریت پسندوں کے خلاف بہت زیادہ تیزی سے کارروائیاں کی گئیں، اسی وجہ سے خود کش حملوں میں کمی آئی جبکہ دہشت گردی کے بڑے واقعات بھی گزشتہ برسوں کی بہ نسبت کم ہوئے۔

رواں برس 31 جنوری کو شکار پور میں خود کش دھماکا کیا گیا تھا جس میں 60 افراد مارے گئے تھے جبکہ اس کے بعد 14 فروری کو پشاور میں ہی ایک امام بارگاہ پر خود کش حملے میں 22 افراد کی ہلاکت ہوئی تھی۔

گزشتہ ماہ 17 اگست کو پنجاب اور خیبر پختونخوا کے سرحد پر واقع شہر اٹک میں وزیر داخلہ پنجاب شجاع خانزادہ پر خود کش حملہ کر کے ان کو ہلاک کیا گیا اس حملے میں 17 دیگر افراد ہلاک ہوئے تھے۔

یاد رہے کہ دہشت گردوں کی جانب سے بڈھ بیر حملے سے قبل بھی فوجی تنصیبات کو نشانہ بنایا جاتا رہا ہے

فوج کے ہیڈ کوارٹر (جی ایچ کیو) پر 10 اکتوبر 2009 کو حملہ کیا تھا جس میں 11 فوجی اور 9 حملہ آور ہلاک ہوئے تھے جبکہ جی ایچ کیو حملے کے ماسٹر مائنڈ کو پھانسی دی جا چکی ہے۔

30 اکتوبر 2009 کو کامرہ ائیر بیس پر خود کش حملہ کیا گیا تھا جس میں 8 افراد ہلاک ہوئے جبکہ کامرہ ائیر بیس پر ہی 16 اگست 2012 کو دہشت گردوں نے حملہ کیا تھا جس میں 10 حملہ آور مارے گئے تھے۔

22 مئی 2011 کو کراچی میں نیوی کے مہران ائیر بیس ہر حملہ کیا گیا جس میں پی تھری سی اورین طیارے بھی تباہ کیے گئے، دہشت گردوں کے خلاف آپریشن میں 4 عسکریت پسند ہلاک ہوئے تھے، آپریشن میں 18 اہلکار بھی ہلاک ہوئے تھے۔

گزشتہ سال 6 ستمبر 2014 کو کراچی میں ڈاکیارڈ پر دہشت گردوں نے حملہ کیا تھا حملے میں مبینہ طور پر نیوی کے اہلکار بھی دہشت گردوں سے ملے ہوئے تھے جبکہ آپریشن میں ایک نیوی افسر اور 2 دہشت گرد ہلاک ہوئے تھے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (5) بند ہیں

عائشہ بخش Sep 20, 2015 04:23pm
وہ سب تو ٹھیک ہے کہ کیا پاکستان تحریک انصاف کی صوبائی حکومت کی کارکردگی کے لئے خبر کا یہ جملہ ہے کہ کافی ہے ۔ ․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․ یہ نمونے لاہور میں قائم پنجاب فرانزک سائنس ایجنسی میں شناخت کے لیے بھجوائے گئے تھے۔’’’ ․․․․․․․․․․․․․․․․․․․ میرے خیال ہے سمجھ دار کے لئے اشارہ کافی ہے ۔
MUHAMMAD AYUB KHAN Sep 20, 2015 04:43pm
یہ نمونے لاہور میں قائم پنجاب فرانزک سائنس ایجنسی میں شناخت کے لیے بھجوائے گئے تھےPakistan is country of 190 millions. why forensic research laboratories are not established in all big cities/ divisional head quarters . .or at least headqrs of each province. It is not very expensive
MUHAMMAD AYUB KHAN Sep 20, 2015 04:44pm
Moreover, could we be careful when issuing press statements? We should give press statements based on facts not based on emotions or suspections
Pakistan Sep 20, 2015 05:21pm
یہ سب لوگ کم عمر ہیں کچے دماغوں میں کچھ بھی ڈال دو وہ قبول کر لیتا ہے میرا خیال ہے کہ اب یہ بھی پتہ لگانا مشکل نہیں ہوگا کہ ان لوگوں نے تعلیم کہاں سے حاصل کی اور کیا تعلیم حاصل کی ، یہ سب پتہ کرنے کے بعد ان کے استادوں کو بھی شامل تفتیش کیا جائے
MUHAMMAD AYUB KHAN Sep 20, 2015 07:07pm
@Pakistan