میڈیا منڈی: مثبت مگر ادھوری کہانی

اپ ڈیٹ 06 ستمبر 2017
کتاب کی تقریبِ رونمائی۔
کتاب کی تقریبِ رونمائی۔
کتاب کا سرورق۔
کتاب کا سرورق۔

ماضی میں صحافت کے شعبے پر کئی کتابیں تصنیف وتالیف ہوئیں، جن کا زیادہ تر موضوع صحافتی اداروں اور حکومتوں کے مابین چقپلش تھا۔ کسی نے پاکستانی میڈیا پر لکھنے کی کوشش کی، تو ایک ہی ادارے کی طرف توپوں کا رخ موڑ دیا (مثال کے طور پر مبشر لقمان کی کتاب کھرا سچ)، یا پھر پنجابی کہاوت کے مطابق ’’شلجم سے مٹی جھاڑی‘‘ یعنی گول مول لکھ کر لکھنے کی رسم پوری کی۔ مجموعی طور پر دیکھا جائے تو ایسی کوئی کتاب، جس کو پڑھ کر میڈیا کی اندرونی کہانیاں سمجھ میں آسکیں اور گتھیاں سلجھیں، نہ کسی نے لکھی اور نہ ہی اب تک اس جرات رندانہ کا اظہار کیا۔

پاکستان میں جب سے سوشل میڈیا کا استعمال شروع ہوا، تب سے آزادیء اظہارِ رائے میں بھی اضافہ ہوا، کئی حساس موضوعات کے علاوہ میڈیا بھی موضوع بحث بننے لگا، لیکن جن قلم کاروں نے بھی کتابی شکل میں صحافت پر کچھ لکھا، تو اپنا دامن بچا کر لکھا۔

گذشتہ کئی برسوں میں سینکڑوں کی تعداد میں اخبارات اور چینلز سے جبری بے روزگارکر دیے جانے والے صحافیوں کی روداد کا ذکر نہ کسی اخبار میں ملا، نہ ہی کسی چینل سے نشر ہوا۔

اسی طرح کئی صحافی اپنے فرائض انجام دیتے ہوئے زخمی ہوئے یا جان سے بھی گئے، مگر ان میں سے اکثریت کے لیے عملی طور پر کچھ نہیں کیا گیا۔ ایک اردو روزنامے میں میرے ساتھ کام کرنے والی صحافی خاتون جب دورانِ ڈیوٹی بم دھماکے میں زخمی ہوئیں تو کئی دن تک اسی حالت میں اپنے فرائض انجام دیتی رہیں۔ اور طبیعت زیادہ خراب ہونے پر انہیں نوکری سے بھی ہاتھ دھونے پڑے۔

سب اس خاتون کے حالات جانتے تھے جو بیوہ تھی اور دو بچوں کے ساتھ کرائے کے مکان میں زخمی حالت میں اپنی زندگی کے مشکل ترین دن گزار رہی تھی۔ وہ کراچی میں قائم صحافیوں کی تنظیم کی فعال کارکن اور کراچی پریس کلب کی رکن بھی ہے۔ کسی نے اس کی مدد نہیں کی۔

اس موقع پر صرف ہیرالڈ نے اگست 2011 کے شمارے میں اس کی خستہ حالی کو قلم بند کیا۔

صحافتی تنظیموں کی کوششیں صرف زبانی جمع خرچ تک محدود رہتی ہیں، یا ان کی ہمدردی کا احساس صرف پکوڑے تلنے تک بیدار ہوتا ہے۔ کتاب کے سرورق اور نام ’’میڈیا منڈی‘‘ سے ظاہر ہو رہا تھا کہ یہ انکشافات سے بھری ہوئی کتاب ہوگی مگر اس میں بھی اخباری صنعت کے حقیقی مسائل اور معاملات کا تذکرہ نہ ہونے کے برابر ہے۔

البتہ اکمل شہزاد گھمن کی کتاب ’’میڈیا منڈی‘‘ میں صحافتی خاندانوں اور دوستیوں میں پیدا ہونے والے لڑائی جھگڑوں کو واضح طور پر قلم بند کیا گیا، اور اس کے لیے مصنف نے متعلقہ شخصیات کے انٹرویوز بھی کیے اور بہت خوب کیے۔ ان میں عارف نظامی، مجید نظامی، سردار خان نیازی، مجیب الرحمن شامی، عباس اطہر اور ضیاء شاہد شامل ہیں۔ یہ انٹرویوز اس کتاب کا سب سے مضبوط حصہ رہے، لیکن ان میں بھی صحافتی استحصال پر بات کرنے کے بجائے شخصی تصادم اور سیاسی تعلقات زیادہ زیرِ بحث رہے۔

کتاب کے لیے صرف لاہور کی صحافت کا محاسبہ کیا گیا، اسلام آباد کا مختصر اور کراچی کا رسمی و نصابی اندازمیں ذکر کیا گیا۔ متن کی ان خامیوں کی وجہ سے کتاب کمزور ثابت ہوئی کیونکہ مصنف کا کہنا ہے کہ یہ کتاب پاکستانی پرنٹ میڈیا کے حقائق پر مبنی ہے، مستقبل میں وہ پاکستانی چینلز پر بھی لکھیں گے۔

مصنف کو چاہیے تھا کہ وہ پوری طرح اپنے موضوع کے ساتھ انصاف کرتے۔ کراچی کے صحافیوں پر کیا قیامتیں ٹوٹی ہیں، اس کی ان کو خبر تک نہیں ہے۔ اسی طرح دیگر شہروں میں بھی مسائل ہوں گے جن کا تذکرہ اس کتاب میں ندارد ہے، مگر کتاب میں انہوں نے خود اعتراف کیا کہ اس کتاب کو لکھتے ہوئے کوئی خاص منصوبہ ذہن میں نہیں تھا، بس بات سے بات نکلتی چلی گئی۔ امید ہے اگلی کتاب پوی منصوبہ بندی سے لکھیں گے کیونکہ یہ موضوع بہت توجہ مانگتا ہے۔

کالم اور کالم نگاری کے عنوان سے لکھے ہوئے باب میں مصنف نے مختلف اخبارات میں لکھنے والے معروف کالم نویسوں کا حدود و رقبہ بتایا اور بالکل درست عکاسی کی، البتہ نئے کالم نویسوں میں جن کے نام انہوں نے یہ کہہ کر گنوائے کہ مستقبل میں بڑے نام بنیں گے، اس کا پیمانہ شاید ان کی ذاتی جان پہچان ہو سکتا ہے، کیونکہ ان کے اب تک کے کالم زیادہ متاثر کن نہیں ہیں۔ یہاں گھمن صاحب نے بھی وہی عمل خود دہرایا، جس کے متعلق اسی باب میں وہ سینیئر کالم نویسوں کے متعلق شکایت کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ بقول شخصے ’’تحریروں میں خوشامد کا گلاب جامن گھول دیتے ہیں۔‘‘

مصنف نے میڈیا منڈی کو تدریسی انداز میں لکھ کر اس کے عمومی اثر کو کم کیا۔ مثال کے طور پر نمایاں انگریزی اور اردو اخبارات کے نام اور تفصیلات دی گئیں۔ یہ بھی بتایا گیا کہ کب کون سا اخبار نکلا، اور اس کا مدیر کون ہے وغیرہ وغیرہ۔ اس سے کہیں بہتر ہوتا کہ یہ صحافیوں کی جبری بے روزگاری، بقایاجات کا نہ ملنا، تنخواہوں کا انتہائی تاخیر سے ملنا اور دیگر مسائل پر قلم اٹھاتے۔ صحافیوں کی اکثریت کے گھروں کے چولہے کیسے بجھے، اس صحافتی استحصال کے اندھیرے پر گھمن صاحب کی کتاب کوئی روشنی نہیں ڈالتی۔

مصنف کی اس کتاب کی تقریب رونمائی میں جن صحافیوں نے بحیثیت مقرر شرکت کی، ان میں یوں تو ڈاکٹر مبارک علی اور ڈاکٹر مہدی حسن جیسے اساتذہ شامل تھے مگر اچھی بات ہوتی کہ تقریب میں عام صحافی یا وہ صحافی مدعو کیے جاتے جن کے گھر کا راستہ فاقوں نے دیکھ رکھا ہے۔

376 صفحات پر مشتمل ’’میڈیا منڈی‘‘ میں انٹرویوز میں کچھ نئی باتیں پڑھنے کو ملیں۔ اس کے بعد وہ ہی سب کچھ ہے، جو قارئین کو گوگل، وکی پیڈیا، فیس بک یا مختلف ویب سائٹس پر مل جائے گا۔ کون سے ادارے کی کتنی پبلکیشنز ہیں، ان کے مالکان کے نام کیا ہیں اور ان کا اجراء کب اور کیسے ہوا وغیرہ وغیرہ۔ البتہ ایک بات جو قابلِ تعریف ہے، وہ یہ کہ کسی نے تو میڈیا کو اس انداز میں دیکھنے کی کوشش کی۔ اب وہ اس میں کتنا کامیاب رہا، یہ الگ بحث ہے۔

میڈیا سے متعلقہ صحافیوں بالخصوص اخبارات اور رسائل و جرائد کے صحافیوں کو یہ بھاری پتھر چوم کر اٹھانا ہوگا۔ ساری دنیا کے حقوق کی خبریں چلانے والوں کے اپنے حقوق کس طرح غصب کیے جاتے ہیں، اس کا ذکر نہیں ہوگا تو آنے والی نسل کے صحافیوں کو نظامِ صحافت کی استحصالی روایات اور منافقت کے بارے میں پھر کون بتائے گا۔ یہ سوال ہنوز تشنہ ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (9) بند ہیں

احمد Oct 03, 2015 06:50am
آپ کا تنقیدی جائزہ کنفیوزن کی اعلی مثال ہے۔ آپ کیوں مصنف کو ان موضوعات پر پرکھ رہے ہیں جو کتاب کا حصہ ہی نہیں بنائے گئے۔ سمجھ میں نہیں آتا آپ کہنا کیا چاہتے ہیں مثال کے طور پر یہ پیر ا گراف: صحافتی تنظیموں کی کوششیں صرف زبانی جمع خرچ تک محدود رہتی ہیں، یا ان کی ہمدردی کا احساس صرف پکوڑے تلنے تک بیدار ہوتا ہے۔ کتاب کے سرورق اور نام ’’میڈیا منڈی‘‘ سے ظاہر ہو رہا تھا کہ یہ انکشافات سے بھری ہوئی کتاب ہوگی مگر اس میں بھی اخباری صنعت کے حقیقی مسائل اور معاملات کا تذکرہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ اور اس کے بعد آپ میڈیا منڈی کا تعارف کرواتے ہیں۔۔۔۔ میری تجویز ہے کہ آپ ایک اچھا سا کورس کر لیں کہ کیسے مضامین کو پرکھا جاتا ہے اور کیسے لکھا جاتا ہے۔
حسن امتیاز Oct 03, 2015 10:53am
خرم سہیل کا مضمون بہت اچھا ہے ۔ میرے خیال میں قارئین کی اکثریت نے اس کتاب کا مطالعہ شاید نہیں کرنا۔ لیکن میڈیا کے اندر کے حالات اور مسئلہ کا کافی علم اس مضمون سے ہی ہوگیا ہے ۔ شکریہ خرم سیہل صاحب
khurram Shail Oct 03, 2015 11:41am
@احمد آپ کی توجہ کا شکریہ ، یا تو آپ صحافی نہیں ہیں ، یا پھر آپ نے یہ کتاب نہیں پڑھی ۔ میری تحریر کی جو سطور آپ نے یہاں تاثرات میں نقل کی ہیں ، وہ ہی تو اس تحریر کا جواب ہیں ، جب کوئی ڈاکٹر جس مرض کے علاج کی ڈگری لے کر علاج کرنا شروع کرے گا تواس سے آپ کیا توقع کریں گے ، اگر دل کا ڈاکٹر ہے تو وہ معدے اور آنتوں کا علاج کرے گا ؟ اس سے توقع وہی ہے ، جس مرض کا وہ ماہر ہے تو جناب جب بھی کوئی میڈیا کے مسائل پر لکھنے کا دعوی کرے گا تو وہ ان مسائل کو نظر انداز نہیں کرسکتا ، جن کا یہاں تذکرہ کیا ہے ۔ یہ پیشہ ورانہ طریقہ ہے مسائل پر لکھنے کا اور اس کے لیے کسی کورس کی ضرورت نہیں ہوتی ، جس کا مشورہ آپ نے اپنے تاثرات میں دیا ہے ۔ مشاہدے اور تجزیے کی ضرورت ہوتی ہے ۔ آپ کے انداز گفتگو سے یہ بھی احساس جھلک رہا ہے ، آپ نے صحافیوں کی فاقہ کشی کو کبھی محسوس ہی نہیں کیا ۔ آپ میڈیا منڈی کتاب پڑھیں اور پھر اس تبصرے کو دوبارہ پڑھیں ، صحافت کورس کرکے نہیں کی جاتی ، اگر ابھی بھی بات سمجھ نہیں آئی تو کسی قریبی دوست جس کا صحافت سے تعلق ہو ، اس سے پوچھ لیں ، وہ مجھ سے بہتر آپ کو تجاویز دے سکےگا ۔
khurram Shail Oct 03, 2015 11:43am
@حسن امتیاز آپ نے بالکل درست کہا ، ہمارے ہاں اکثریت زبانی جمع خرچ پر ہی کام چلا رہی ہے ۔ کتاب پڑھے بغیر کیسے کنفیوژن دور ہوسکتی ہے ۔ صرف تبصرہ پڑھیں گے تو یہی ہوگا ۔ جس کتاب پر تبصرہ ہے ، وہ بھی پڑھنی چاہیے ، اس لحاظ سے آپ نے صورتحال کا بالکل درست اندازہ لگایا ہے ۔ آپ کی توجہ اور نظر شناسی کا شکریہ
furqan Oct 03, 2015 12:31pm
your analysis for that book is fineyou mentioned all the remaining aspect which needs to include..
حنیف عابد Oct 03, 2015 04:56pm
خرم سہیل صاحب نے کتاب ’’ میڈیا منڈی ‘‘ کا تعارف تفصیل سے کرایا ہے ۔ کتاب کے محسان اور نقائص پر بھی جامع گفتگو کی ہے ۔ کتاب کا نام یقیناً عمدہ ہے ۔ پاکستان میں صحافت آج کے دور میں اسی طرح منڈی بن چکی ہے جیسے کسی زمانے میں ’’ ہیرا منڈی ‘‘ ہوا کرتی تھی ۔ یہاں دن رات قلم گھسنے والوں کو کوئی منہ لگانے کو بھی تیار نہیں جبکہ چرب زبانی اور سفارش کے غازے سے لتھڑے ہوئے بدبودار لوگ تعلقات عامہ کی لاٹھی پکڑ کر اوج ثریا کی بلندیوں کو چھو رہے ہیں ۔ دنیا جہان کا درد رکھنے والے اور اد بدا کر دوسروں کا مقدمہ لڑنے والے حقیقی پیشہ ور صحافی نان جویں کو ترس رہے ہیں ۔ صحافتی تنظیمیں باہمی رقابت کی آگ میں جل رہی ہیں ۔ کوئی پرسان حال نہیں ہے ۔ المیہ یہ ہے کہ اس حوالے سے کوئی آوازاٹھانے کو بھی تیار نہیں ہے ۔ میڈیا مالکان دانستہ یا غیر ارادی طور پر بھی عامل حقیقی صحافیوں کا استحصال کررہے ہیں ۔ اہلیت کی بیناد پر نوکری ملنی مشکل سے مشکل تو ہوتی جا رہی ہے۔ اگر مل بھی جائے تو اہلیت کے مطابق مقام اور تنخواہ ملنا تو نا ممکنات میں داحل ہو چکا ہے۔ کاش کوئی قلم اس جانب بھی متوجہ ہو کسے ۔
نجیب احمد سنگھیڑہ Oct 03, 2015 05:20pm
یہ درست نہیں کہ جن قلم کاروں نے بھی کتابی شکل میں صحافت پر کچھ لکھا، تو اپنا دامن بچا کر لکھا۔ میرے ابا جی نے اپنی کتاب ‘پاکستان میں قوم سازی کا عمل‘ میں میڈیا بارے ایک باب شامل کیا ہے، اس کا ایک پیراگراف ملاحظہ فرمائیں: “ عام تاثر پایا جاتا ہے کہ پاکستان میں اگر کوئی ادارہ ہے جو پاکستان کو توڑنے اور پاکستانیوں کے دلوں میں نفرت پیدا کر کے لاقانونیت کو فروغ دینے میں پیش پیش ہے تو وہ صحافت کا ادارہ ہے۔ جسے بعض لوگ حکومت کا چوتھا ستون بھی کہنے لگے ہیں۔ پاکستان کی یکجہتی کو نقصان پہنچانے اور پاکستان کے اندر بحران در بحران پیدا کرنے کے لیے بھارت کی دس ڈویژن فوج نے بھی وہ کارنامہ انجام نہیں دیا جو پاکستان کے مخصوص میڈیا نے انجام دیا ہے۔ اسے راہ راست پر لانے کی ضرورت ہے“۔
علی جبران Oct 03, 2015 09:25pm
@احمد صاحب ، پکوڑے تلنے والی بات شاید آپ کے اوپر سے گزر چلی ہو، لیکن صحافتی تنظیمیں بس اب اسی لیے رہ گئی ہیں کہ وہ پکوڑے تلیں۔۔۔۔ میڈیا منڈی کتاب میں وہ لکھاری کو نام کے حساب سے وہ سب کچھ لکھنا تھا جو خرم صاحب نے اپنے تجزیے میں لکھا، باقی میری نظر میں خرم بھائی بہت اچھا کام کر رہے ہیں، اور بہت سے لوگوں کے پیسے بچا رہے ہیں۔۔۔۔۔
Muhammad Zeeshan Awan Oct 04, 2015 12:14am
کتاب کے حوالے سے لکھتے ہوئے لکھاری نے تھوڑا زیادہ ہی بے رحمی کا مظاہرہ کیا ہے۔ ایک طرف وہ رونا روتے ہیں کہ میڈیا کے حوالے سے کوئی آواز نہیں اٹھاتا اور جب اس کی کسی نے کوشش کی ہے تو اسے اتنی باتیں سنا دی ہیں کہ اب کوئی ہمت ہی نہ کر سکے۔۔ جس حد تک انہوں نے ریسرچ کی یا معلومات کو اکٹھا کیا یہ کافی ہے، بے شک اسلام آباد اور کراچی کے حوالے سے مواد کم ہے لیکن یہ کسی ایک کتاب میں ممکن بھی نہیں ہے۔ جب ایک صحافی کتاب لکھے گا تو وہ سیاست کو ضرور زیر بحث لائے گا اس کے لیے ممکن نہیں کہ وہ سلبیس کی کتاب لکھ مارے۔ اگر سب کچھ پہلے ہی سے موجود ہے تو اور کتابوں کا رونا کیا؟ ایسا کیسے ممکن ہے ایک طرف آپ کمی کی نشاندہی کریں اور دوسری طرف تھوڑے سے کام کی اس حد تک حوصلہ شکنی کریں اور پھر امید بھی رکھیں کہ وہی ہی کچھ بہتری بھی لائیں، اس کے لیے تھوڑی سے رعایت کے حقدار ضرور ہیں کہ انہوں نے بہرحال سب سے پہلے کوشش تو کی۔۔۔