کیا پاکستانی بیٹسمین اسپن کھیلنا بھول چکے ہیں؟

اپ ڈیٹ 05 اکتوبر 2015
ہرارے اسپورٹس کلب میں زمبابوے کے خلاف دوسرے ٹی 20 میں آؤٹ ہونے پر صہیب مقصود کا ردِ عمل۔ 29 ستمبر 2015 — AFP
ہرارے اسپورٹس کلب میں زمبابوے کے خلاف دوسرے ٹی 20 میں آؤٹ ہونے پر صہیب مقصود کا ردِ عمل۔ 29 ستمبر 2015 — AFP

ہرارے میں دو ٹی 20 میچز اور پہلے ون ڈے میں پاکستانی بلے بازوں کی مایوس کن کارکردگی دیکھ کر کرکٹ کے سب ہی شائقین کو افسوس ہوا۔ مگر یہ کارکردگی اتنی حیران کن بھی نہیں تھی۔

نوجوان کھلاڑیوں سے لے کر سابق ٹیسٹ کرکٹرز تک سب ہی نے ہمارے بلے بازوں کے ہنر پر سوالات اٹھائے ہیں۔ ملکی سرزمین اور عرب امارات میں معمولی بہتر کارکردگی کے بعد اب بیٹنگ لائن غیر ملکی میدانوں میں پھر سے مشکلات کا شکار ہے۔

زمبابوے کے حالیہ دورے نے پاکستانی بیٹسمینوں کی تکنیکوں میں موجود خامیوں کو نمایاں کر دیا ہے، اور بھلے ہی پاکستان سارے میچ جیت چکا ہے، مگر بیٹسمینوں کی کارکردگی پر بھنوئیں اٹھ رہی ہیں۔

ہرارے کی سلو وکٹیں، جنہوں نے ایک ہفتے پر مبنی اس مختصر دورے کو پاکستان کے ٹاپ اور مڈل آرڈر کے لیے ایک مشکل دورہ بنا دیا ہے، ایک مخصوص تکنیک کا تقاضہ کرتی ہیں۔ وہ تکنیک یہ ہے کہ گیند کے ٹھپے والی جگہ پر بڑھ کر کھیلا جائے۔

جب بہترین اسپن کا سامنا ہو، تو بلے باز عام طور پر بال کی لینتھ تبدیل کرنے کے لیے پچ پر آگے بڑھ کر کھیلتے ہیں۔ جب بلے باز کو گھومتی گیند کا سامنا ہو تو اس کے پاس اسپن کو روکنے کے لیے بال کی لینتھ تبدیل کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں بچتا۔

ہرارے جیسی وکٹوں پر جہاں باؤنس غیر ہموار ہے اور بال آپ تک خود نہیں آتی، وہاں بہترین بلے باز اس سادہ سے تکنیک کا استعمال کر کے اسپن کو شکست دیتے ہیں۔

سالوں سے میں نے بلے بازوں کو فُٹ ورک کا بہترین کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ رکی پونٹنگ، مائیکل کلارک، اور کمار سنگاکارا وہ بلے باز ہیں جن کی بے مثال تکنیک نے انہیں پریشان کن وکٹوں پر بھی کامیاب کیا۔ ان کے کھیلنے کے بہترین انداز کا بنیادی مشترک جزو ان کا آگے بڑھ کر کھیلنا تھا۔ وہ کریز سے باہر نکل کر بال کا سامنا کرتے اور باؤلرز کو شارٹ لینتھ میں بدل دیتے۔

مگر کرکٹ میں یہ کوئی نئی بات نہیں کہ اسپن کھیلنے کے لیے آگے بڑھتا ہوا بلے باز اپنا توازن کھو کر لڑکھڑا جائے۔

پاکستان کا مسئلہ

پہلے ون ڈے میں اظہر علی نے بال کھیلنے کی کوشش میں گیند دوسرے سلپ فیلڈر تک پہنچا دی تھی۔ یہ تو ان کی قسمت تھی کہ کیچ ڈراپ ہوگیا، مگر احمد شہزاد کے ساتھ پارٹنرشپ کے دوران وہ بہرحال جلد آؤٹ ہو کر پویلین لوٹ گئے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ شعیب ملک تین اننگز میں دو بار آؤٹ ہو چکے ہیں اور وہ دونوں ہی دفعہ بال کا راستہ سمجھنے میں ناکام رہے۔

شعیب ملک سیدھی باؤنڈری کھیلنے کے لیے کریز سے باہر نکلے۔ پہلے وہ تھوڑا آگے بڑھے، پھر زیادہ بڑھنے لگے۔ وہ ٹھپے کے بالکل بھی قریب نہیں تھے، اور جان نَیَمبو کی میڈیم آف کٹر نے درمیانے اسٹمپ کو اڑا کر رکھ دیا۔

اس سے پہلے سابق کپتان باؤنڈری اسکور کرنے کی ناکام کوشش کے دوران لانگ آن ریجن میں کیچ آؤٹ ہوگئے تھے۔ دوسرے ٹی 20 کے دوران جب ملک نے گریم کریمیر کی لیگ اسپن کھیلنے کی کوشش کی تو سکندر رضا نے آسان کیچ پکڑ لیا۔

لیکن ملتان کے ہونہار کرکٹر صہیب مقصود صرف پانچ بالز کے بعد ہی ایسے آؤٹ ہوئے کہ ان کے مقابلے میں شعیب ملک کا بیہودہ آؤٹ ہونا بھی اچھا لگا۔ صہیب مقصود پروسپر اتسیا کے سر پر سے بال گزارنے کی کوشش میں شارٹ کور پر آؤٹ ہو گئے۔ ان کے قدم بال کی لائن سے میل نہیں کھا رہے تھے یہاں تک کہ ان کے فٹ ورک نے انہیں بال سے دور کر دیا، جس کی وجہ سے وہ بال کو اپنے بیٹ کے کنارے سے ہی ہٹ کر سکے۔

پہلا ٹی 20 بھی کچھ مختلف نہیں تھا۔ پہلے ون ڈے میں پاکستان کے ہیرو محمد رضوان نے شان ولیمز کو کھیلتے ہوئے ایک قدم آگے بڑھایا اور پھر زیادہ آگے بڑھے۔ یہ وہ چیزیں ہیں جو وکٹ پر بالکل بھی نہیں کرنی چاہیئں۔

رضوان نہ صرف بال کے ٹھپے تک پہنچنے میں ناکام رہے، بلکہ انہوں نے بال کو وکٹ کیپر تک بھی پہنچنے دیا۔ یہ ان کی قسمت تھی کہ متمبمی لڑکھڑا گئے اور انہیں کریز میں پہنچنے کا وقت مل گیا۔ اگر وکٹ کیپر نے بال پکڑ لی ہوتی تو پاکستان بہت کم اسکور پر ہی آل آؤٹ ہو چکا ہوتا۔

دورہء زمبابوے کے تینوں میچز نے پاکستانی کھلاڑیوں کے غیر متاثر کن فٹ ورک کا خوب امتحان لیا ہے۔

ہرارے کی وکٹیں باقی دو ون ڈے میں بھی سلو ہی رہیں گی۔ غیر ہموار اور سلو وکٹس پر کھیلنا وہ فن ہے جس سے پاکستانی کھلاڑی تیزی سے ناآشنا ہوتے جا رہے ہیں۔

ہاں عماد وسیم کچھ مختلف ہیں اور اس لیفٹ ہینڈ آل راؤنڈر نے بہترین فٹ ورک کا مظاہرہ کیا جس سے پاکستان کو جیتنے کا موقع ملا۔

ٹیم کو سکھانے کے لیے مثال بہت دور نہیں، بلکہ ہمارے سامنے ہی ہے۔

انگلش میں پڑھیں.

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

کلثوم جہاں Oct 03, 2015 08:24pm
پاکستانی بیٹسمین بیٹنگ کا سبق بھول چکے ہیں۔ ایک میچ میں سنچری اور نصف سنچری اورٹیم کو فتح دلانے کے بعد خود کو آسمان میں اڑتا ہوا محسوس کرتے ہیں اوردوسرے ہی میچ میں ان بیٹسمینوں کی کارکردگی کی قلعی کھل جاتی ہے۔ بورڈ کو چاہیے ایسے بیٹسمینوں اوربولرز کو ٹیم میں شامل کرے جو ٹیم کو شکست کی بھنور سے نکلنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔