اسلام آباد: عمران خان کے ایک سابق قریبی معتمد اور پی ٹی آئی کے سابق مرکزی سیکریٹری اطلاعات اکبر ایس بابر کے پارٹی پر مبینہ مالی کرپشن اور قوانین کی خلاف ورزی کے مقدمے نے اس وقت نیا رخ اختیا ر کر لیا جب پارٹی کو غیر ملکیوں کی جانب سے مبینہ فنڈز ملنے کے دستاویز ی ثبوت سامنے آ گئے۔

اکبر بابر کا کہنا ہے کہ ان دستاویزی شواہد سے ثابت ہوا کہ پی ٹی آئی اور اس کی قیادت نے پولیٹکل پارٹیز آرڈر 2002 اور پولیٹکل پارٹیز رولز 2002 کی مختلف شقوں کی سریحاً خلاف ورزی کی۔

بابر نے ڈان ڈاٹ کام سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ وہ تین سالوں سے منتظر تھے کہ پی ٹی آئی قیادت مالی بے ضابطگیوں کےاس دستاویزی ثبوت کا نوٹس لینے اور ذمہ داروں کے خلاف ایکشن لےگی لیکن ایسا نہ ہوا۔

بابر کا کہنا تھا کہ ان کے پاس قانونی راستہ اختیار کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں رہا لہذا نومبر، 2014 کو ایک کیس دائر کیا گیا جس کی پہلی سماعت 19، جنوری 2015 کو ہوئی۔

بابر نے کہا کہ مارچ، 2013 میں عمران خان کے مقرر کردہ پی ٹی آئی کے خصوصی آڈیٹر کو پوری معلومات فراہم نہیں کی گئی اور نہ ہی انہیں 2013 میں عام انتخابات کیلئے پارٹی کو ملنے والے عطیات اور اخراجات کے آڈٹ کی اجازت دی گئی۔

انہوں نے دعوی کیا کہ 2011 میں پارٹی کے اندر ہوئی مبینہ کرپشن پر تیزی سے کارروائی کرنے کے بجائے عمران خان نے الزامات مسترد کرتے ہوئے بد عنوانوں کا تحفظ کرتے ہوئے ان کی سرپرستی جاری رکھی۔

الیکشن کمیشن نے بابر کی دائر پٹیشن پر تفصیلی غور کے بعد اپریل، 2015 میں پی ٹی آئی کو غیر ملکی فنڈنگ کی مکمل تفصیلات فراہم کرنے کا حکم جاری کیا۔

یہ حکم پی ٹی آئی کی جانب سے الیکشن کمیشن میں جمع کرائی گئی آڈٹ رپورٹس کے جائزہ کے بعد دیا گیا۔ تاہم، ان رپورٹس میں غیر ملکی فنڈنگ کی معلومات موجود نہیں تھیں۔

چھ مئی کو ہونے والی اگلی سماعت پر غیر ملکی فنڈنگ کی تفصیلات فراہم کرنے کے بجائے پی ٹی آئی نے اپنا وکیل تبدیل کرتے ہوئے سابق اٹارنی جنرل انور منصور خان کی خدمات حاصل کر لیں۔

منصور خان نے غیر ملکی فنڈنگ کی تفصیلات فراہم کرنے کے بجائے الیکشن کمیشن کی جانب سے اکبر بابر کی درخواست کی سماعت کرنے کے اختیار کو چیلنج کر دیا۔

پچھلی سماعتوں میں پی ٹی آئی نے دعوی کیا تھا کہ الیکشن کمیشن کو جمع کرائی گئی سالانہ آڈٹ رپورٹس میں پارٹی کو ملنے والے تمام فنڈز کی مکمل تفصیلات موجود ہیں۔

تاہم ، الیکشن کمیشن کی جانب سے ان سالانہ رپورٹس کی جانچ پڑتال کے دوران پی ٹی آئی کے وکیل غیر ملکی فنڈز کی تفصیلات دکھانے میں ناکام رہے۔

پی ٹی آئی وکیل کا موقف تھا کہ الیکشن کمیشن نے جمع کرائی گئی رپورٹس کو قبول کر لیا تھا ، لہذا کمیشن اب ان رپورٹس کے مستند ہونے پر سوال نہیں اٹھا سکتا۔

اس پر چیف الیکشن کمشنر نے جواب دیا کہ پی ٹی آئی کو ممنوعہ ذرائع نے ملنے والے غیر ملک فنڈز کے ڈھیروں شواہد سامنے آئے ہیں لہذا کمیشن ان رپورٹس کی جانچ پڑتال کا پورا حق محفوظ رکھتا ہے۔

چیف الیکشن کمشنر نے مختلف سماعتوں کے دوران پی ٹی آئی کے وکیل کو خبردار کیا کہ معاملہ انتہائی حساس ہے لہذا وہ دلائل دیتے ہوئے احتیاط سے کام لیں۔

اکبر بابر کے وکیل احمد حسن کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی نے شروع میں غیر ملکی فنڈنگ سے انکار کیا جبکہ اس کاخلاف قانون ایک ڈالر اکاؤنٹ بھی ہے جس میں آنے والی تمام رقم منے لانڈرنگ کے زمرے میں آتی ہے۔

اکبر بابر نے ڈان ڈاٹ کام کو بتایا کہ پی ٹی آئی کیس کی سماعت کے دوران مسلسل اپنا موقف تبدیل کرتی رہی۔

سماعت کے دوران ایک موقع پر پی ٹی آئی نے مبینہ طور پر غیر ممنوعہ امریکی ذرائع سے ملنے والےغیر قانونی2.3 ملین ڈالرز فنڈز کے پیش کردہ شواہد کے مستند ہونے پر سوال اٹھائے۔

اکبر بابر کا کہنا ہے کہ عمران خان کے دستخطوں سے امریکا میں رجسٹرڈ ’لمیٹڈ لائبیلٹی کمپنی‘ کے پانچ میں سے تین بورڈ آف ڈائریکٹرز امریکی شہری ہیں۔’اسی طرح غیر ملکی کمپنیوں اور غیر ملکی اشخاص نے بھی پی ٹی آئی کو فنڈز دیے جو خلاف قانون ہے‘۔

بابر کے مطابق، 15 ستمبر، 2015 کو ہونے والی آخری سماعت میں پی ٹی آئی کے وکیل انور مصور نے تسلیم کیا کہ الیکشن کمیشن کسی بھی سیاسی پارٹی کو غیر قانونی ذرائع سے ملنے والے فنڈز ضبط کرنےکا مکمل اختیا ر رکھتا ہے۔

کیس کی سماعت مکمل ہونے پر الیکشن کمیشن کے چار رکنی بینچ نے فیصلہ محفوظ کر لیا، جس کا اعلان آٹھ اکتوبر کو کیا جائے گا۔

خیال رہے کہ عمران خان بار ہا پارٹی کو ملنے والے فنڈز میں بے ضابطگیوں کو مسترد کرتے ہوئے تمام الزامات کو بے بنیاد قرار دیتے آئے ہیں۔

پی ٹی آئی رہنما ڈاکٹر عارف علوی نے رابطہ کرنے پر کہا ’انتہائی بدقسمتی ہے کہ اکبر بابر جیسے پارٹی کے کچھ سابق ارکان ذاتی عناد کی وجہ سے الزام تراشیوں میں مصروف ہیں‘۔

انہوں نے دعوی کیا کہ پی ٹی آئی قیادت ہمیشہ سے پارٹی فنڈز کے حوالے سے ایماندار رہی جبکہ پی ایم ایل-ن اور پی پی پی سمیت دوسری سیاسی پارٹیاں منی لانڈرنگ میں ملوث رہی ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

Anna Oct 05, 2015 12:01am
Some people never accpet good change so the create trubels for IK specialy near election