مارکیٹنگ کا چنگل

اپ ڈیٹ 10 اکتوبر 2015
موبائل فون اس لیے متعارف کروائے گئے تاکہ ہر جگہ رابطے میں رہا جا سکے، مگر اب یہ اسٹیٹس سمبل بن چکے ہیں۔ — رائٹرز/فائل
موبائل فون اس لیے متعارف کروائے گئے تاکہ ہر جگہ رابطے میں رہا جا سکے، مگر اب یہ اسٹیٹس سمبل بن چکے ہیں۔ — رائٹرز/فائل

"مماّ! مجھے پاس ہونے پر نیا موبائل لینا ہے"۔ میرے بڑے بیٹے نے بڑے لاڈ سے فرمائش کی۔ "نیا فون؟" میں نے حیرت سے اس کی طرف دیکھا۔ "تمہارے موبائل کو کیا ہوا؟ توڑ دیا؟" میں نے تشویش سے پوچھا۔

"اوہو! نہیں بھئی!" وہ جھنجلایا۔ "یار، یہ پرانا ہوگیا ہے۔ میرے سارے دوستوں کے پاس آئی فون 5 اور S4 ہیں۔ اور عظیم کو تو اس کی امّی نے پاس ہونے پر نیا آئی فون 6 دلانے کا وعدہ بھی کیا ہے۔"

میں نے ایک ثانیے کو کام چھوڑ کر اس کا چہرہ دیکھا اور کہا: "مگر چندا! میرا خیال ہے کہ آپ کا فون بھی اسمارٹ فون ہے اور کچھ ایسا پرانا بھی نہیں۔ ابھی 6 ماہ پہلے تم نے بہت شوق اور ضد سے اپنی پسند کا موبائل لیا ہے، لہٰذا فی الحال تو کوئی ایسی صورت نہیں بنتی کہ آپ کا موبائل بدلا جائے۔ تو بہتر ہے کہ آپ یہ خیال اپنے ذہن اور دل سے نکال دیں۔" میرے انداز میں قطعیت تھی جسے یقیناً اس نے بھانپ لیا تھا تبھی مزید بحث کیے بغیر وہ اندر کمرے میں چلا گیا اور میں نے بھی مزید سمجھانے کا ارادہ بعد کے لیے چھوڑتے ہوئے اپنا کام دوبارہ شروع کر دیا۔

میرے یہ صاحبزادے جو اب ماشاء اللہ عمر کے سترہویں سال میں ہیں، یہ ان کا پہلا موبائل ہے جو انہیں محض 6 ماہ پہلے اس لیے دلوایا گیا تھا تاکہ وہ باہر جانے پر بھی ہم سب سے رابطے میں رہ سکیں جو کہ کراچی کے حالات میں ناگزیر بن گیا ہے۔

نت نئے ماڈلز کی گاڑیاں، موبائل فون، لیپ ٹاپ، ٹیبلٹس، مہنگے ڈیجیٹل کیمرے اور ایسی بہت سی چیزیں اس نئے دور اور جدید ٹیکنالوجی کی پیداوار ہیں اور باوجود اس کے کہ ترقی اور جدیدیت کی علامت ہیں، یہ بھی ایک کڑوا سچ ہے کہ انہوں نے اور ایسی ہی کئی اور دوسری چیزوں نے مل کر مادّہ پرستی کی ایک ایسی بھیڑچال کا آغاز کر دیا ہے جس میں ہم جیسے متوّسط طبقے کے لوگ گھن کی طرح پِس رہے ہیں۔

مارکیٹنگ کی کلاس میں ہم نے پڑھا تھا کہ اکثر اوقات کسی بھی پروڈکٹ کو مارکیٹ میں متعارف کروانے سے قبل اس کی ضرورت پیدا کی جاتی ہے۔ صارفین کو کسی بھی ایسی چیز کی ضرورت کا، جو اس سے قبل اس کی زندگی میں نہیں تھی، کچھ اس طرح احساس دلایا جاتا ہے کہ وہ اس چیز کے بغیر اپنی زندگی کو ادھورا اور نامکمل محسوس کرے اور پھر اس مسئلے کے حل اور ضرورت کی تکمیل کے لیے وہ پروڈکٹ ایک آسمانی اور بہترین حل کی طرح اس کی زندگی میں شامل کر دی جاتی ہے۔

موبائل فون ہی کی مثال لے لیجیے۔ معاملہ محض اس بات سے شروع ہوا کہ "آپ ہر جگہ رابطے میں رہ سکیں۔" پھر بات رفتہ رفتہ موبائل فون سے اسمارٹ فون، ٹیبلٹس اور اب تو موبائل گھڑیوں تک پہنچ چکی ہے۔ یہی معاملہ ہمیں گھریلو استعمال کی بھی بہت سی چیزوں میں نظر آتا ہے جہاں اب اینٹی بیکٹیریئل صابن کے بعد اینٹی بیکٹیریئل واشنگ پاؤڈر اور ڈش واشنگ صابن تک کہانی جا پہنچی ہے۔

کمپنیاں منافع کمانے اور اپنی فروخت بڑھانے کے لیے ایسی نت نئی اشیاء سامنے لاتی ہیں کہ اگر ان پر ذرا سا بھی غور کیا جائے تو بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ ان کا مقصد صارف کی زندگی میں آسانیاں اور سہولتیں لانے سے زیادہ اپنی بنائی ہوئی چیز کی فروخت میں اضافہ کرنا ہے۔ پہلے ایک شیمپو گھر بھر کے لیے کافی تھا، اب پانچ افراد کے خاندان میں پانچ ہی شیمپو اور پانچ ہی صابن آتے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ ہر دفعہ اپنے بچوں کو ہاتھ لگانے سے قبل ہاتھ دھونے ضروری ہیں، اور ہاتھ دھونے کے لیے اینٹی بیکٹیریئل ہینڈ واش بھی ضروری ہے۔ اور اگر اینٹی ایکنی فیس واش بھی ہو اور ساتھ ہی اینٹی ایجنگ فیس واش بھی، تو کیا ہی بات ہے۔

مزے دار بات تو یہ ہے کہ صارف ہر نئی پروڈکٹ کو یوں ہاتھوں ہاتھ لینے لگا ہے جیسے اس کی زندگی اس کے بنا آج تک ادھوری تھی۔ انہی پر کیا موقوف، یہی عالم اشیائے خورد و نوش اور پکانے کے تیل سے لے کر کپڑوں، جوتوں، ذاتی استعمال کی چیزوں یہاں تک کہ انجن آئل، فرنیچر، اور آلاتِ ضروریہ کا ہے جنہیں خوشی کا ذریعہ اور خاندان کو جوڑے رکھنے والی چیز کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔

ترقّی کی رفتار اور نت نئی ایجادات کی اہمیت اپنی جگہ، لیکن ان تمام چیزوں نے اس مشینی دور میں انسان کو بھی پیسہ کمانے کی ایک ایسی مشین بنا دیا ہے جہاں انسان زندگی کو پر آسائش بنانے کی تگ و دو میں ایسا گھرا ہوا ہے کہ زندگی جینا ہی بھولتا جا رہا ہے۔

انسان کے جذبات و احساسات اس مشینی زندگی اور ان مشینوں کی عطا کی ہوئی آسانیوں کے اس قدر عادی ہوگئے ہیں کہ ہم انہی کے ساتھ جینا چاہتے ہیں اور انہی کے ساتھ آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔ نئی سے نئی چیزوں کی ہوس میں کہاں رکنا ہے، یہ سمجھ ہی نہیں آ رہا اور دوسری جانب جدیدیت کی اس دوڑ میں ہر چیز اس تیزی سے متروک ہو رہی ہے کہ اگلے دس سال تو چھوڑیں اگلے سال کس چیز کی کیا قدر ہو گی، آج یہ کہنا بہت مشکل ہے۔

مجھے یاد ہے آج سے 20-25 سال قبل جب ویڈیو ریکارڈرز اور ویڈیو کیسٹس کا دور تھا، میرے والد نے اپنی تنخواہ سے پیسے بچا بچا کر سی ڈی پلیئر اور کچھ سی ڈیز خریدیں تھیں، اور اب محض 25 سال کے قلیل عرصے میں اس سی ڈی پلیئر کی وقعت محض ایک پرانی مشین کی سی ہے کیونکہ USBڈرائیوز اور انٹرنیٹ کے اس دور میں جہاں کئی ہزار گانے ایک چھوٹی سی USB میں محفوظ کر لیے جاتے ہوں یا لیپ ٹاپ کی سی ڈی ڈرائیو میں سی ڈی لگا کر چلا لیے جاتے ہوں، وہاں اس مشین کی کیا اہمیت رہ جاتی ہے۔

ہر چند ماہ بعد موبائل کے ماڈل بدل جاتے ہیں اور ایک نئی اور مزید بہتر ٹیکنالوجی پرانی کی جگہ لے لیتی ہے۔ کل تک ٹی وی صرف Flat اسکرین تھے، پھر LCD اور LEDs میں بدلے، یہاں تک کہ اب اسمارٹ، مشرف بہ انٹرنیٹ ٹی وی اور Curved اسکرین ٹی وی بھی ایجاد کیے جا چکے ہیں۔ برائی یہاں ان نئی ایجادات میں ہرگز نہیں، کہ ترقی بہرحال آگے بڑھنے اور خوب سے خوب تر کی تلاش کا نام ہے۔ اصل برائی تو اس میں ہے کہ ہر نئی ترقی کے ساتھ ہم بے سوچے سمجھے اس کی اندھا دھند خواہش و تکمیل میں جت جاتے ہیں۔

ایک چھوٹی سی مثال اس کی پھر وہی موبائل فون ہیں جو ہماری نسل میں اسٹیٹس سمبل اور نوجوان نسل میں شوق کی آبیاری اور اپنے ہم عصروں میں مقبولیت حاصل کرنے کا ہتھیار ہیں۔ یہی عالم دوسری چیزوں میں بھی ہے کہ پاکستان جیسے ملک میں، جہاں آج بھی بنیادی سہولتوں کی کمیابی، آمدنی کی شرح میں کمی، بیروزگاری اور غربت جیسے مسائل منہ کھولے کھڑے ہیں، یہ ایجادات اور ان کی مانگ میں بے انتہا تیزی دیکھنے میں آ رہی ہے۔

ایک وہ دور تھا جب محلےّ میں کسی ایک گھر میں ٹیلیویژن ہوتا تھا اور پورا محلہ اس ایک گھر میں جمع ہو کر ایک ساتھ ڈرامہ دیکھا کرتا تھا۔ آج ہر گھر میں ایک چھوڑ، دو دو تین تین ٹیلیویژن موجود ہیں اور پھر بھی ریس اس بات پر ہے کہ خاندان میں سب کے یہاں نئے ماڈل کا LED ٹی وی ہے تو ہمارے یہاں بھی اسمارٹ ٹی وی تو ہونا چاہیے، خواہ اس کے لیے کریڈٹ کارڈ پر سود سمیت قسطیں ہی کیوں نہ ادا کرنی پڑیں۔

شاید قارئین یہ گمان کریں گے کہ میں انہیں قناعت اور چادر جتنے پیر پھیلانے کا درس دینے کی کوشش کر رہی ہوں، لیکن درحقیقت میری اس تحریر کا مقصد صرف اتنا ہے کہ ہم آسانیوں اور آسائشوں کی اس بھیڑ چال میں اپنی زندگی کا سکون گم کرتے جا رہے ہیں۔ لائف اسٹائل بناتے بناتے ہم زندگی میں سے لائف کا عنصر ہی ختم کر بیٹھے ہیں۔

بلاشبہ ہر دور پہلے دور سے مختلف ہوتا ہے، لیکن جس طرح ہم گھر بدلتے ہوئے یہ طے کرتے ہیں کہ کون سا سامان فرسودہ ہو چکا ہے اور کس چیز کو ساتھ لے جانا ہے، ویسے ہی ہمیں بھی یہ طے کرنا ہو گا کہ مادیت پرستی کی اس بھیڑ چال میں ہمیں کن باتوں کو اپنانا ہے اور کن بے معنیٰ خواہشات کو لگام ڈالنی ہے۔ بہترین راستہ تو یہ ہے کہ ترقی کو اس حد تک ضرور اپنائیں جب تک آپ اسے جیئں، بجائے اس کے کہ وہ آپ کو گزارنا شروع کر دے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (6) بند ہیں

Zakirullah Oct 09, 2015 12:43pm
بہت ہی اعلیٰ لکھا ہے آپ نے
MUHAMMAD imran Oct 09, 2015 03:55pm
100% Agreed
نجیب احمد سنگھیڑہ Oct 09, 2015 04:22pm
شازیہ صاحبہ نے گھر گھر کےایک مسئلے کو عمدہ طریقے سے بیان کیا ہے۔ یہ مسئلہ اس جانب بھی توجہ دلواتا ہے کہ ہمارا معاشرہ بظاہر تو تھیوکریٹک ہےلیکن درحقیقت یہ سرمایہ دارانہ نظام سے تباہ کن حد تک اثر لے بیٹھا ہے۔ یہ وہ نظام ہے جسے منہ کا میٹھا اور دل کا کڑوا کہا جاتا ہے۔ یہ نظام غریبوں کی جیبوں سے پیسے نکلوانے کا طریقہ خوب جانتا ہے۔ غالبآ یہی وجہ ہے کہ اس نظام میں غریب غریب تر اور امیر (مارکیٹنگ کمپنیاں) امیرتر ہوتے جاتے ہیں۔ اسی نظام نے اسٹیٹس سمبل پیدا کیا۔ حالانکہ اگر ہمارا مذہب سادگی اور میانہ روی کا درس دیتا ہے لیکن ہمارا سارا زور توہین مذہب قانون پر چلتا ہے جبکہ باقی اسلامی تعلیمات کسی گنتی میں نہیں آتی۔ بچے نئی نئی چیزیں اور غیرضروری چیزیں آخر کیوں مانگتے ہیں؟ اس خواہش کو ختم کیوں نہیں کرتے؟ اسکا جواب اسٹیٹس سمبل، سرمایہ دارانہ ذہنیت، مارکیٹنگ کے پیچھے چھپے عزائم ۔۔۔ بارے بچوں کو گائیڈ نہ کرنا، وقتآ فوقتآ لیکچر نہ پلانا ہے اور والدین براہ راست ذمہ دار ہیں۔ بچوں کو منطقی طور پر یا ایسے حیلے بہانےسے مطمئن کرنا لازمی ہوتا ہے جب بچہ کوئی فرمائش کرے مگر والدین کی نظر میں فرمائش درست نہ ہو۔
rabia jamil Oct 09, 2015 05:49pm
indeed
حسن امتیاز Oct 09, 2015 07:58pm
متحرمہ شاذیہ کاظمی صاحبہ مبارک باد کی مستحق ہیں۔ انہوں نے ایسے مسئلہ کی نشان دہی کی ہے تو آج کل ’’کہانی گھر گھر ‘‘ کی ہے ۔ بقول اسد اللہ خان غالب دیکھنا تقریر کی لذّت کہ جو اس نے کہا میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے
محمد ارشد قریشی ( ارشی) Oct 12, 2015 11:13pm
بہت عمدہ لکھا