کراچی: رینجرز نے متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے کارکن محمد ہاشم کے قتل سے متعلق تحقیقاتی رپورٹ جاری کردی جس میں ان کے ماورائے عدالت قتل کے تاثر کو مسترد کردیا گیا ہے۔

رینجرز ترجمان کے مطابق متحدہ رابطہ کمیٹی اور محمدہاشم کی اہلیہ کے بیانات میں تضاد ہے۔

رابطہ کمیٹی نے کہا کہ محمدہاشم کو چھ مئی کو رینجرز نےحراست میں لیا جب کہ اہلیہ کا کہنا ہے کہ ہاشم پانچ مئی کو لاپتہ ہوئے۔

ترجمان کا کہنا ہے کہ محمد ہاشم نے 23 مئی، 24 مئی اور 30 مئی کو اپنے موبائل سے کال کی۔

ترجمان نے کہا کہ ایم کیو ایم کی پریس ریلیز کے بعد متحدہ رہنماؤں کو بلایا گیا لیکن انہوں نے تعاون نہیں کیا۔

رینجرز کے اعلامیے میں کہا گیا کہ ہاشم کے گھر والوں کا موقف ہے کہ وہ امن اخبار میں فوٹو گرافر تھے تاہم انکوائری کرنے پر پتہ چلا کہ ہاشم کو اخبار میں صرف اعزازی کارڈ بناکر دیا گیا تھا جو وہ اپنے ذاتی مفادات کے لیے استعمال کرتے تھے۔

رینجرز ترجمان کے مطابق ایم کیو ایم کارکن کبھی مقامی اخبار کے ملازم تھے اور نہ ہی انہیں کبھی دفتر میں دیکھا گیا۔

اعلامیے میں بتایا گیا کہ اخبار کے ریکارڈ چیک کرنے پر واضح ہوگیا کہ ہاشم کو کبھی دفتر سے تنخواہ نہیں ملی۔

ترجمان کے مطابق محمدہاشم لیاقت آباد سیکٹر کی ٹارگٹ کلنگ ٹیم کا سرگرم کارکن اور پولیس ریکارڈ کے مطابق جھنڈا چوک لیاقت آباد میں رینجرز پر حملے میں ملوث تھے۔

ترجمان نے کہا کہ محمد ہاشم کے پارٹی کے اندرونی عناصر کے ہاتھوں قتل کو بعید از قیاس قرار نہیں دیا جاسکتا۔

ترجمان رینجرز نے کہاکہ متحدہ ایک پارٹی کی سطح پر اگراندرونی عناصر اور عوامل کا جائزہ لیا جائے تو بہتر نتائج کا ضامن ہوسکتا ہے۔

ترجمان رینجرز کا مزید کہنا تھا کہ پولیس اور رینجرز بے بنیاد الزامات کے خلاف اپنے دفاع میں قانونی چارہ جوئی کا حق رکھتے ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

fiza Oct 10, 2015 12:21pm
وہ کیا کہتے ہیں نہ کہ جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے ایک دن پکڑا ہی جاتا ہے