عمر کا سات صدیاں دیکھنے والا قلعہ

ہمایوں کابل میں مارچ 1508 میں بابر کے گھر پیدا ہوا۔ بابر نے پانچ برس تک ہندوستان پر حکومت کی اور محلاتی سازشوں کی وجہ سے اُسے کھانے میں زہر دے کر ماردیا گیا۔ ہمایوں کی پیدائش، 1530 میں تخت پر بیٹھنے اور 1556 میں یہ جہان چھوڑنے کا وقت چاہے ٹھنڈے میٹھے جاڑوں کا ہو، مگر زندگی نے اُسے چھاؤں کم اور تپتے ریگزاروں میں زیادہ رُلایا۔ اُس کی بہت ساری خواہشیں تھیں جو پوری نہیں ہوتی تھیں۔

دو روز تک 'نظام سکہ' کو بادشاہ بنانے کے فیصلے نے بھی بگڑتے ہوئے ماحول پر جلتی کا کام کیا۔ گنگا کنارے کی جنگ بھی اسے راس نہیں آئی اور ہمایوں بھاگتا دوڑتا لاہور پہنچا مگر شیر خان نے اُسے وہاں بھی چین سے بیٹھنے نہیں دیا۔ کبھی کبھی بادشاہوں کی قسمتیں بھی فقیروں کے کشکول جیسی ہوجاتی ہیں، کتنی صداؤں کے بعد بھی رحمت کا سکہ کشکول میں نہیں گرتا۔

ہمایوں راوی پار کر کے بھکر اور ملتان سے ہوتا ہوا ببرلو (موجودہ ضلع خیرپور، سندھ) پہنچا۔ اور وہاں باغ میں قیام پذیر رہا۔ لیکن حالات سازگار نہ ہوئے تو پاٹ میں آ کر لنگر انداز ہوا۔ ان ہی دنوں اس نے میرزا ہندال کے قریبی عزیز ایرانی نژاد شیخ علی اکبر جامی کی بیٹی بلقیس مکانی حمیدہ بانو بیگم سے ستمبر 1541 میں شادی کی۔ یہ شب و روز ہمایوں کے لیے کوئی اچھے نہیں رہے۔

اس کے بعد ہمایوں 1542 میں جیسلمیر گیا۔ وہاں سے اس بادشاہ کا قافلہ پیاس سے مرتا عمرکوٹ پہنچا جہاں رانا پرساد نے ہمایوں کا استقبال کیا۔ یہ 22 آگست 1542 کا دن تھا تھا جب ہمایوں عمر کوٹ کے قلعہ میں داخل ہوا۔ گلبدن بیگم لکھتی ہیں: "عمرکوٹ خوب جگہ ہے، وہاں کئی تالاب ہیں۔ یہاں ہر چیز بڑی ارزاں ہے۔ ایک روپے میں چار بکریاں مل جاتی ہیں۔" اکبر کے جنم کے حوالے سے تحریر کرتی ہیں: "اتوار کے دن صبحِ صادق کے وقت اس قلعہ میں 14 اکتوبر 1542 میں اکبر کی ولادت ہوئی۔"

اکبر کی جائے پیدائش.
اکبر کی جائے پیدائش.
قلعے کا مرکزی دروازہ.
قلعے کا مرکزی دروازہ.
دمدمے کی دیوار.
دمدمے کی دیوار.
دمدمہ.
دمدمہ.

مجھے نہیں پتہ کہ عمرکوٹ شہر اور اس قلعہ کے آسمان پر سے لوک گیتوں کی کتنی فاختائیں اُڑیں اور کتنی بُجھتی آنکھوں نے عمر کوٹ کے نیلے آسمان کو آخری بار دیکھا۔ میں یہ بھی شاید یقین سے نہ کہہ سکوں کہ اس قلعہ کے بنیاد کی پہلی اینٹ کب اور کس نے رکھی، 'عمر' نے رکھی یا 'امر' نے رکھی، لیکن مجھے اتنا ضرور معلوم ہے کہ سندھ اور مارواڑ کے مرکزی راستے کے بیچ میں ہونے کی وجہ سے ماضی میں یہ بہت اہم شہر رہا ہے۔

تاریخ کے کتابوں کی اگر ورق گردانی کی جائے تو وہاں بھی غلط فہمیوں کا ایک جنگل سا اُگا ہوا ہے، جہاں سے راستہ بنا کر نکلنا بہت ہی مشکل اور پریشان کر دینے والا کام ہے۔ البتہ قدیم تاریخ کے محققین و مصنفین کی کتابوں جیسے 'تاریخِ فرشتہ'، 'آئینِ اکبری'، 'اکبر نامہ'، تاریخِ طاہری' اور 'ٹاڈ کے راجھستان' میں اسے 'امرکوٹ' کے نام سے پکارا گیا ہے۔

کچھ محققین کا خیال ہے کہ 'امرکوٹ' اور 'عمر کوٹ' دو الگ الگ شہر تھے۔ مگر محترم اشتیاق انصاری صاحب ان باتوں سے اختلاف کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ: "کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ پرانا امر کوٹ موجودہ 'شِو مندر' کے قریب تھا۔ یا کچھ لوگوں کا یہ خیال ہے کہ اس وقت جہاں اکبر بادشاہ کی پیدائش کی جگہ بتائی جاتی ہے عمر کوٹ وہیں تھا، مگر میری کی گئی تحقیق کے مطابق ایسا کچھ نہیں ہے؛ یہ ہی وہ کوٹ ہے جو مختلف ادوار میں آباد و برباد ہوتا رہا، جس کو پہلے امر کوٹ اور بعد میں عمر کوٹ کے نام سے جانا جاتا ہے۔"

کچھ محققوں کا خیال ہے کہ موجودہ قلعہ میاں نور محمد نے 1747 میں تعمیر کروایا تھا اور اُس زمانہ میں یہاں 400 سپاہی رہتے تھے۔ اس کے جواب میں محقق غلام محمد لاکھو تحریر کرتے ہیں کہ: "میاں نورمحمد کلہوڑو نے یہاں نیا قلعہ تعمیر نہیں کروایا تھا بلکہ اس قدیم قلعہ کی مرمت اور تزئین کا حکم دیا تھا۔"

مرکزی دروازہ.
مرکزی دروازہ.
مرکزی دروازے پر بنا ہوا قدیم نقش.
مرکزی دروازے پر بنا ہوا قدیم نقش.
قلعے کا اندرونی منظر.
قلعے کا اندرونی منظر.
فصیلیں اب زمانے کی مزید سختیاں نہیں جھیل پا رہیں.
فصیلیں اب زمانے کی مزید سختیاں نہیں جھیل پا رہیں.

ڈاکٹر مُبارک علی تحریر کرتے ہیں: "جب 1739 میں نادر شاہ نے سندھ پر حملہ کیا تو کلہوڑا حکمران میاں نور محمد نے بھاگ کر عمر کوٹ کے قلعے میں اس لیے پناہ لی تھی کہ نادر شاہ عمر کوٹ تک نہیں آئے گا، مگر یہ بس ایک خوش فہمی ہی تھی۔ جب نادر شاہ نے گھیرا تنگ کیا تو معافی مانگنے کے سوا کوئی چارہ نہیں بچا میاں نور محمد کے پاس۔ معافی کے ساتھ خراج بھی بھرنا پڑا جو اندازاً اُس وقت کے 22 لاکھ روپے اور ایک قیمتی ہیرا تھا۔"

قلعے کی قدامت کے متعلق بہت ساری باتیں ہیں، مگر مل ملا کر نتیجہ یہ اخذ ہوتا ہے کہ یہ شہر 'سومرا گھرانے (1350-1050) کے پہلے حاکم 'عمر' نے بنوایا۔ تیرہویں صدی کے آخر میں راجپوت حکمران پرمار سوڈھو نے اس شہر پر اپنا تسلط قائم کیا۔ ہمایوں کا استقبال کرنے والا رانا پرساد اسی پرمار سوڈھو کی اولاد میں سے تھا۔ عمر کوٹ میں جو بھی حکومت کرتا اُس کو 'رانو' (رانا) کا خطاب دیا جاتا تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ راجپوتوں نے یہ قلعہ کلہوڑا حکمرانوں کے حوالے کر دیا۔ کلہوڑوں نے قلعہ آگے چل کر جودھپور کے راجا کو بیچ دیا اور تالپور حکمرانوں نے 1813 میں اس قلعے پر قبضہ کرلیا۔ انگریزوں نے جب 1843 میں سندھ فتح کیا تو یہ قلعہ انگریز سرکار کا حصہ بنا۔

اب تو باقی نہیں البتہ ایک زمانے میں اس قلعہ کے چاروں طرف ایک خندق تھی جو اس کو دشمن کے حملوں سے تحفظ فراہم کرتی۔ دفاعی نقطہ نظر سے یہ قلعہ ریگستان کی بالکل اختتامی لکیر پر بنایا گیا تھا، ایک حوالہ سے یہ ایک سرحد کا کام دیتا تھا۔ جودھپور اور دوسرے شمال مشرقی شہروں سے اونٹوں کے قافلے پہلے عمرکوٹ آتے، اُس کے بعد حیدرآباد یا کہیں اور جا پاتے۔

بارش کے پانی کے نکاس کے لیے بنائی گئی نالیاں.
بارش کے پانی کے نکاس کے لیے بنائی گئی نالیاں.
قلعے کی فصیل جو نسبتاً بہتر حالت میں ہے۔
قلعے کی فصیل جو نسبتاً بہتر حالت میں ہے۔
فصیل کا یہ حصہ خراب حالت میں ہے۔
فصیل کا یہ حصہ خراب حالت میں ہے۔
فصیلیں مرمت کی طلبگار ہیں۔
فصیلیں مرمت کی طلبگار ہیں۔
فصیلیں مرمت کی طلبگار ہیں۔
فصیلیں مرمت کی طلبگار ہیں۔

شہر کے بیچوں بیچ ناگُفتہ بہ حالت میں یہ قلعہ اب بھی سر جھکائے کھڑا ہے۔ اگر آپ اس قلعے کو باہر سے دیکھیں گے تو اس قلعے کی بے بسی اور خستگی کا احساس آپ کو یقیناً ہو جائے گا۔ ایسا لگتا ہے کہ شہر میں ہوتے ہوئے بھی اس کا کوئی مالک نہیں ہے۔

جتنی اچھی حالت مرکزی دروازے اور دمدمے کی ہے، اُتنی بُری حالت اُن فصیلوں کی ہے جنہوں نے صدیوں تک اس قلعے کو تحفظ دیا۔ مگر اب ان فصیلوں کو کوئی تحفظ دینے کے لیے تیار نہیں ہے۔ وقت کے بے رحم لمحے ان فصیلوں کو خستگی کے سوا کُچھ نہیں دے رہے۔ کونوں پر بنے ہوئے برجوں کی حالت ان فصیلوں سے بھی بُری ہے۔

قلعے کے شمالی دروازے کے قریب بارش کے پانی کی نکاسی کی نالیاں موجود ہیں۔ ان نالیوں کی حالت بھی اتنی اچھی نہیں ہے۔ اچھی حالت میں انگریز ڈپٹی کمشنر مسٹر واٹسن کی وہ قبر ہے جس پر ایک خوبصورت سی چھتری بنی ہوئی ہے۔ قبر پر یہ عبارت کنندہ ہے:

H.E Watson Sindh Commission for many years Deputy Commissioner of this district born 23rd November 1846. Died 26th February 1894.

مسٹر واٹسن کی قبر۔
مسٹر واٹسن کی قبر۔

یہ وہ ہی قلعہ ہے جس سے عمر ماروی (مارئی) کی مشہور لوک کہانی وابستہ ہے۔ یہ کہانی عمر سومرو کے زمانے (1390-1355) کی ہے، جو اُس وقت بادشاہ تھا اور اس کوٹ (قلعے) میں رہتا تھا۔ تھر کے علاقے ملیر کی ماروی کو عمر بادشاہ وہاں سے اُٹھا کر اس کوٹ میں لایا اور شاہی محل میں قید کر دیا۔ وہ مسلسل اس کوشش میں لگا رہا کہ ماروی اس محل کی مہارانی بن جائے، مگر ماروی کو نہ محل سے دلچسپی تھی اور نہ خوبصورت کپڑوں اور طرح طرح کی خوراکوں سے۔ وہ ہر حالت میں واپس اپنے ملیر جانا چاہتی تھی۔

شاہ عبدالطیف بھٹائی نے ماروی کے اس حُب الوطنی کے جذبے کو دل کی گہرائیوں سے محسوس کیا اور 'شاہ جو رسالو' میں "سر مارئی" تخلیق کر کے عمر ماروی کی داستان اور ماروی کے جذبہء حب الوطنی کو امر کر دیا۔ شاہ سائیں قلعے کی زندگی سے ماروی کی عدم دلچسپی یوں بیان کرتے ہیں:

اپنے گھر کی رنگی ہوئی لوئی

کیوں نہ ہو رشکِ اطلس و کمخواب

اے عمر کیا ہے اس کے سامنے

مخملیں بافتے کی آب و تاب

میں نہ پہنوں گی ریشمی ملبوس

چاہے جس رنگ کا بھی ہو کوئی

جان سے بھی عزیز ہے مجھ کو

اپنے پنہوار کی رضا جوئی

(ترجمہ شیخ ایاز)

عیش و آرام کا لالچ جب کارگر نہ ہوا، تو عمر نے ماروی کو قید و بند کی صعوبتیں دیں مگر قلعے کی پر تعیش زندگی سامنے ہونے کے باوجود ماروی اپنے ملیر، اپنی جھونپڑی اور اپنے غریب رشتے داروں کو بھول نہ سکی۔ آخرکار عمر کو جب یقین ہو گیا کہ زور کی مہندی نہیں لگنی تو اُس نے بڑے احترام سے ماروی کو قید سے آزاد کر دیا۔

اور اب ماروی کا یہ کردار ایک سیمبولک کردار بن گیا ہے۔ لطیف سائیں ماروی کی زبان میں کہتے ہیں:

"خدا شاہد ہے جب روحوں نے باہم، کیے روزِ ازل کچھ عہد و پیماں،

نہ جانے کیوں اسی دن سے ہیں مجھ کو، بہت پیارے یہ سب نادار دہقان"

"کیا ہے قید مرے جسم و جان کو، عبث اے سومرا سردار تو نے،

نہ جانے کیوں ہے یہ ایذا رسانی، دیے کیوں روح کو آزار تو نے،

ازل ہی سے ہے مرے دل کو ودیعت، ہوئی ہے پیارے 'مارو' کی محبت۔"

قلعے کے مرکز میں ایک وسیع برج بنا ہوا ہے۔ ایک سو دس فٹ اونچے اس برج پر پہنچنے کے لیے آپ کو ساٹھ کے قریب سیڑھیاں چڑھنی پڑتی ہیں، اور جب آپ وہاں پہنچ جاتے ہیں تو چار سُو ایک سحر انگیز منظر آپ کا مُنتظر ہوتا ہے۔ مغرب کی طرف ہری بھری فصلیں اور مشرق کی طرف ریت کے ٹیلے ہیں جو صدیوں سے وقت کا سارا کھیل تماشہ دیکھ رہے ہیں۔ اگر ان کو زبان مل جائے تو بہت سارے راز راز نہیں رہیں گے۔ مگر ایسا ممکن نہیں اس لیے تاریخ پُراسراریت کی دُھند میں لپٹی ہوئی ہے۔

برطانوی دور کی عمارات۔
برطانوی دور کی عمارات۔

اس برج سے آپ اس قلعے کی ویرانی اور گرتی ہوئی فصیلوں کو اچھے طریقے سے دیکھ سکتے ہیں۔ مشرق کی طرف برٹش راج کی 'کورٹ کچہری'، 'تپیدارز ہال'، 'ہیڈمنشی کورٹ اینڈ تپیدارز ہال' کی وہ ٹوٹی پھوٹی عمارتیں ہیں جہاں اُس زمانے میں نہ جانے کیسے کیسے کیس چلے ہوں گے، کیسے کیسے فیصلے آئے ہوں گے۔ کہتے ہیں کہ اس قلعے کہ اندر ایک تالاب تھا جس کو پھانسی گھاٹ کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا۔ یہاں کے جاگیردار شہزادہ چندر سنگھ کے دادا رتن سنگھ کو انگریزوں نے یہاں پھانسی دی تھی۔ آزادی کے بعد اس تالاب کو بند کر دیا گیا۔

کہا یہ بھی جاتا ہے کہ یہ برج کلہوڑا حکمرانوں نے بنایا تھا مگر اس میں مٹی بھر کر مکمل انگریزوں نے کیا۔ اس برج پر ایک توپ پڑی ہوئی ہے۔ اشتیاق انصاری تحریر کرتے ہیں: "یہ توپ کلہوڑا دور کی بنی ہوئی ہے۔ اس پر فارسی میں 'این توپ کارخانہ سرکار خدا یار خان بہادر عباسی کاتب جنگ 1140' تحریر ہے، جبکہ توپ کی نالی پر دوسری جگہ 'عمل مصطفا پک' کنندہ ہے۔ ان توپوں کے منہ میں مقامی طور پر بنا ہوا بارود استعمال ہوتا تھا۔"

قلعے میں قائم عجائب گھر۔
قلعے میں قائم عجائب گھر۔
قلعے کے بیچ میں بنا ہوا برج۔
قلعے کے بیچ میں بنا ہوا برج۔
برج پر نصب توپ۔
برج پر نصب توپ۔

تھوڑا تصور کریں کچھ صدیوں پہلے جب کسی گاڑی کا شور نہیں ہوتا ہوگا۔ آبادی یقیناً کم ہوگی اور خاموشی دن کے اکثر حصوں میں ان گلیوں میں بہتی ہوگی، اُس وقت جب یہاں سے توپ چلنے کی آواز آتی ہوگی تو پانی کے تالابوں کے کنارے کھڑے برگد کے پیڑوں سے ہزاروں پرندے اس آواز سے اُڑتے ہوں گے۔ پالنے میں سوئے ہوئے بچے اتنی زوردار آواز پر نیند سے چونک کر اُٹھ جاتے ہوں گے۔ ہو سکتا ہے توپ کی اس اچانک اور زوردار آواز کی وجہ سے کسی پانی بھرتی ہوئی عورت کے ہاتھ سے پانی کا مٹکا چھوٹ کر گرا ہو اور ٹوٹ گیا ہو؟ اور آج ترقی کے نام پر ہم نے کتنا سکون اور کتنی خاموشیاں گنوا دی ہیں۔

— تصاویر بشکریہ ابوبکر شیخ۔


حوالہ جات

ہمایوں نامہ۔ گلبدن بیگم۔ سنگ میل پبلیکیشنز۔ لاہور

عمرکوٹ ایامن کھاں۔ مرتب: اکبر لغاری۔ ضلعی حکومت، عمرکوٹ

سندھ کی تاریخ کیا کہتی ہے؟۔ ڈاکٹر مبارک علی۔ فکشن ہاؤس، لاہور

سندھ جا کوٹ ائیں قلعا۔ اشتیاق انصاری۔ سندھیکا۔ کراچی

تاریخِ سندھ۔ اعجازالحق قدوسی۔ سندھیکا۔ کراچی


ابوبکر شیخ آرکیولاجی اور ماحولیات پر لکھتے ہیں۔ انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر کے لیے فوٹوگرافی اور ریسرچ اسٹڈیز بھی کر چکے ہیں۔

ان کا ای میل ایڈریس [email protected] ہے.


ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دیے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔