گذشتہ ہفتے پاکستان کی سب سے بڑی یونیورسٹیوں میں سے ایک کامسیٹس انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی اسلام آباد کے ہیومینیٹیز ڈیپارٹمنٹ نے 'جنات اور کالے جادو' پر ایک ورکشاپ کا انعقاد کیا۔ مدعو کیے گئے مقرر راجہ ضیاء الحق، جنہیں 'امراضِ قلب کے روحانی ماہر' کے طور پر متعارف کروایا گیا، جنات اور شیطانی طاقتوں کے ماہر سمجھے جاتے ہیں۔ وہ بہت مشہور ہیں: اخبارات میں شائع ہونے والی ایک تصویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ یونیورسٹی کے مرکزی آڈیٹوریم میں کھڑے ہونے کی بھی جگہ نہیں تھی۔

جنات اور کالے جادو کی حقیقت کو ثابت کرنے کے لیے دلچسپ منطق استعمال کی گئی۔ مقرر نے سب سے پہلے تمام غیر مرئی مخلوقات (جنہیں دیکھا نہیں جا سکتا) کو تین اقسام میں تقسیم کیا: وہ جو اڑ سکتے ہیں؛ وہ جو حالات کے مطابق شکل و صورت تبدیل کر سکتے ہیں؛ اور وہ جو گندگی اور اندھیری جگہوں میں ٹھکانہ بناتے ہیں۔ ان کا سوال تھا کہ اگر یہ چیزیں حقیقت میں موجود نہیں، تو پھر ہالی وڈ کروڑوں ڈالر خرچ کر کے ڈراؤنی فلمیں کیوں بناتا ہے؟

مگر کیا یہ دلیل آپ کو زبردستی یہ ماننے پر مجبور نہیں کرتی کہ ڈریکولا، ویمپائر اور چلنے والے مردے بھی حقیقت میں موجود ہوتے ہیں؟ سامعین میں سے صرف ایک باہمت آواز بھی اس بے تکے دعوے کو غلط ثابت کر سکتی تھی۔ مگر اس طرح کے تمام ایونٹس کی طرح اس ایونٹ میں بھی منتظمین نے اس بات کو یقینی بنایا تھا کہ مبلغ کا تین گھنٹے طویل لیکچر بغیر کسی رکاوٹ کے جاری رہے۔

اب آگے کیا ہوتا ہے یہ دیکھنا باقی ہے۔ شاید کامسیٹس جنات پر مبنی ایک مواصلاتی نظام بنائے یا پھر ایک اور فائدہ مند چیز ریڈار کی نظروں میں نہ آنے والے اور جنات کی توانائی سے چلنے والے کروز میزائل ہو سکتے ہیں۔ جن کیمسٹری ایک اور شعبہ ہو سکتا ہے جسے ضیاء الحق دور میں شروع کیا گیا تھا۔ کامسیٹس کو 1970 کی دہائی کے اوائل میں پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کے سینیئر ڈائریکٹر کی پیٹرولیم اور ایٹمی ایندھن کو جنات کی توانائی سے بدلنے کی تجویز پر بھی غور کرنا چاہیے۔

ویسے دیکھا جائے تو گذشتہ ہفتے ہونے والا یہ پروگرام کوئی ایسا غیر متوقع بھی نہیں تھا۔ اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں ایسے ہی مقررین کو مدعو کرنا، جو ماورائے عقل معلومات پر دسترس کا دعویٰ کرتے ہیں، کافی عام بات ہے۔ کراچی کے انسٹیٹیوٹ آف بزنس مینیجمنٹ (آئی او بی ایم) نے کچھ عرصہ پہلے 'انسان کے آخری لمحات' کے عنوان سے ایک لیکچر کا اہتمام کیا تھا۔ طلباء سے آڈیٹوریم کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ طلباء کو اگلی دنیا کی تصویری جھلکیاں بھی دکھائی گئی تھیں۔ لیکن کیا یہ معلومات اس مقرر کے پاس کسی مردے نے ایس ایم ایس کے ذریعے بھیجی تھیں، یہ انہوں نے نہیں بتایا۔

آپ سوچتے ہوں گے کہ پاکستان کی مہنگی ترین یونیورسٹیوں میں کہانی شاید مختلف ہوگی۔ لاہور یونیورسٹی آف مینیجمنٹ سائنسز (لمز)، جو پاکستان کی مہنگی ترین نجی یونیورسٹی ہے، میں امریکی ڈالروں سے تعمیر شدہ سائنس اور انجینیئرنگ ڈیپارٹمنٹ ہے۔ لگتا تھا کہ اس کا ایک سنجیدہ مشن ہے مگر لمز کے کئی پروفیسر اب کھلم کھلا سائنسی دلائل کا مذاق اڑاتے ہیں۔

اتفاقیہ طور پر اس سال کے آغاز میں مجھے لمز کے ایک ہیومینیٹیز کے پروفیسر کا لیکچر اٹینڈ کرنے کا موقع ملا، جو سائنس کا مذاق اڑانے میں خوب شہرت رکھتے ہیں۔ انہوں نے یہ بات خود تسلیم کی کہ وہ فزکس نہیں جانتے، مگر پھر دعویٰ کیا کہ 1923 میں امریکی ماہرِ فزکس رابرٹ ملیکین کو ملنے والا فزکس کا نوبیل انعام ان کا حق نہیں تھا کیونکہ ان کی تحقیق میں استعمال ہونے والے اعداد و شمار منتخب کردہ تھے۔

ان کے دعووں میں غلطیاں نظر آ رہی تھیں مگر جب پروفیسر صاحب نے آئن اسٹائن کے مشہور فارمولے E=mc2 پر اعتراضات کی بارش کر دی تو میری آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ اگر یہ فارمولہ غلط ہے تو ایٹم بم کس طرح پھٹتے ہیں اور ایٹمی پلانٹ بجلی کیسے پیدا کرتے ہیں؟ یقیناً جن ہی کرتے ہوں گے۔ مگر اس طرح کے دعوے کرنے والے وہ اکیلے شخص نہیں ہیں۔

مغربی سائنس چھوڑنے کے اپنے عزم کا ثبوت دیتے ہوئے گذشتہ ماہ لمز نے پاکستان سے سب سے باعزت ماہرِ میتھمیٹیکل فزکس کو ان کی نوکری سے فارغ کر دیا۔ یہ ان پروفیسر کے لیے نقصان دی نہیں ہے کیونکہ ہارورڈ، پرنسٹن، یا ایم آئی ٹی (جہاں سے انہوں نے پی ایچ ڈی کی) انہیں گرمجوشی سے خوش آمدید کہیں گی۔

ماورائے عقل باتوں پر یقین رکھنا اور ہر چیز میں سازش کی بو سونگھنا ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ اس لیے یہ بات حیرانگی کی نہیں کہ پاکستان کی سب سے بڑی سرکاری یونیورسٹی، یونیورسٹی آف پنجاب کے موجودہ وائس چانسلر نے ایک کتاب لکھی ہے جس میں انہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ 11 ستمبر کے حملے امریکی سازش تھے۔ اس کے علاوہ ایک اخباری انٹرویو میں ان کا دعویٰ تھا کہ دنیا بھر کا اقتصادی نظام مونٹے کارلو شہر میں موجود یہودیوں کے ہاتھ میں ہے۔

سازشی کہانیوں کے دلدادہ لوگوں کے لیے خوش خبری یہ ہے کہ مشہورِ زمانہ زید حامد سعودی عرب میں 1000 کوڑوں کی سزا کو چکمہ دے کر واپس پاکستان پہنچنے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔ یہ شعلہ بیان مقرر بہت جلد ہی پاکستان بھر کے یونیورسٹی کیمپسز میں اپنے دورے شروع کرے گا۔

ہماری یونیورسٹیوں میں موجود خلافِ دلیل خلافِ سائنس رویہ سمجھنے میں مشکل ہو سکتی ہے مگر یہ اتنا بھی مشکل نہیں۔ ایک منٹ کے لیے سوچیں۔ سائنس کے خلاف زہر اگلنا اور اس کی بنیاد کو ٹھکرانا ٹوٹی ہوئی کرسی سے گرنے سے بھی زیادہ آسان ہے۔ سائنس کو مسترد کرنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ میتھمیٹکس اور فزکس جیسے مشکل مضامین سمجھنے کے لیے درکار کوشش اور محنت سے بچ سکتے ہیں۔ سائنس کو برا بھلا کہنا سائنس سمجھنے سے کہیں زیادہ مشکل ہے۔

اس کے فوائد بھی بہت ہیں: مرگی جیسے ذہنی امراض کو نیوروسرجنز یا کلینکل سائیکولاجسٹس کی مدد کے بغیر ہی سمجھا اور ختم کیا جا سکتا ہے کیونکہ یہ سب کچھ جنات کی وجہ سے ہی تو ہے۔ ایک اچھا پیر یا جن نکالنے والا بابا کافی ہوگا۔ آپ کو موسمیات کی پیچیدہ سائنس سمجھنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ ہوائیں جنات چلاتے ہیں اور زلزلے تو ویسے بھی ہمارے گناہوں کی وجہ سے آتے ہیں لہٰذا ان کا علم بھی ایک بیکار چیز ہے۔

جہاں تک کمپیوٹروں اور موبائل فونز جیسے کھلونوں کی بات ہے تو ہم ہمارے سعودی بھائیوں کی طرح ایپل اور نوکیا سے بہترین چیز خرید سکتے ہیں۔ پیسوں کی بھوکی کوئی زِنگ زینگ زنگ کمپنی پاکستان کے لیے موبائل فون نیٹ ورک شروع کر دے گی۔ ٹیکنالوجی اور نت نئی چیزیں ایجاد کرنے کا کام ہم چینیوں، امریکیوں اور یورپیوں پر چھوڑ سکتے ہیں کیونکہ ان کے جن اپنا کام خوب جانتے ہیں۔

پاکستان کی یونیورسٹیوں کو علم و حکمت، روشن خیالی، تند و تیز سوالات اور بے خوف نئی سوچ کا مرکز ہونا چاہیے تھا۔ مگر اس کے بجائے یہ بھیڑوں کے باڑے کی طرح ہیں۔ عقلی طور پر سست اور جاہل پروفیسر طلباء کی ایسی نسل تیار کرنا چاہتے ہیں جو بس ہر چیز سوال اٹھائے بغیر اور نکتہ چینی کیے بغیر مان لے۔ وہ یہ جانتے ہیں کہ ہاتھ سے ایجاد کردہ کوئی ڈراؤنا کردار 5 سال کے بچوں کو اچھی طرح ڈرا سکتا ہے۔ لہٰذا وہ انہی غیر انسانی مخلوقات اور موت کا خوف 20 سے 25 سال کے بچوں کے ذہنوں میں بٹھا کر انہیں خوفزدہ کرنا چاہتے ہیں۔ کیمپسوں میں جنات پر گفتگو کا مطلب ہے کہ پاکستان کی ثقافتی اور عقلی پسماندگی کی رفتار بڑھے گی، کم نہیں ہوگی۔

لکھاری لاہور اور اسلام آباد میں فزکس پڑھاتے ہیں.

یہ مضمون ڈان اخبار میں 10 اکتوبر 2015 کو شائع ہوا.

انگلش میں پڑھیں۔

تبصرے (8) بند ہیں

Muazzam Oct 12, 2015 08:00pm
pakistan main universities ko bilkul corner kar dia gaya hai.HEC ka kaam sirf aur sirf ye hai k campus kitna bara hai aur labs kitni hain,jo bhi student Mphil karta hai usay foran lecturer laga diya jata hai.i think like schools and colleges university lecturers k liye bhi courses honay chahye.aur agar wo training ka baghair he parhanay lag jain ge tu aisa he hota hai. i have studied in two private universities,mere khayal main tu ginti ki kuch unis ko chor k baki sab ka haal aik door daraz village k primary school jaisa he hai,govt unis k in se bhi bura.
ہارون Oct 12, 2015 08:35pm
میں صاحب مضمون کے دیگر نظریات کا ناقد ہوں لیکن یہ ان کی بہترین تحریر ہے ،انہوں نے جو کچھ لکھا مجھے اس سے اتفاق ہے....
Rehan Hyder Oct 12, 2015 11:29pm
کوئی نئی بات نہیں ہمارے ہاں کے ورلڈ فیمس سائینسدان جنھیں محسنِ پاکستان کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے جنات سے بجلی بنوانے کا دعویٰ کر چکے ہیں۔ رونا ان کے دعوے پر نہیں آیا رونا اربابِ اختیار کے انتظامات پر آیا جو وہ کرنے کے لئے تیار تھے کے انھیں رقم مہیا کی جائے اور وہ اپنا کام شروع کریں ۔ رقم کا بندوبست جنات سے کیوں نہیں کروایا گیا یہ محسنِ پاکستان نے نہیں بتایا۔
faheem Oct 13, 2015 09:59am
ابتدا عشق ہے روتا ہے کیا آگے آگے دہکھیے ہوتا ہے کیا۔ آپ نے سچ فرمایا مگر یہ بھی حقیت ہے کہ اس قوم نے ڈاکٹر عبداسلام کے ساتھ کیا کیا۔ اور ان کی محبت کا حال دیکھیے جو سائنس کا ادارا پاکستان میں بنانا چاہتے تھے مگر کسی نے بہی نہ بننے دیا۔ اور آج بھی اٹلی میں قائم اس ادارے میں پاکستانیوں کو ترجیح دی جاتی ہے۔ جو قومیں اندھیروں کو اپنا لیں اور روشنی کا ہر چراغ بھجا دیں وہاں جن، دیو، اور جادو گر ہی پیدا ہوتے ہیں سائنس دان نہیں۔
Ali Oct 13, 2015 12:25pm
Last 10 years se pakistan me koi new university nahe bane na ksi politician ne kbhe kaha ne ksi court ne na opposition ne sb khane peene me itna busy hay ksi ko pakistan ki youth pakistan ka future ki koi parwa nahe hay
فرخ جمال احمد Nov 14, 2015 10:38pm
جناب پرویز ہود بھائی صاحب السلام علیکم آپ بھی کمال کی چیز ہیں سچ لکھنے میں بندے کو اتنا بہادر بھی نہیں ہوناچاہیے لگتا ہے کہ رات کو آپ ٹی وی چینلز پر چلنے والے اشتہارات نہیں دیکھتے جس میں سیدفلافلاں سے رام سنگھ اور فلاں مسیح تک سیکڑوں عامل ، کالے جادو کے ماہرین نوری علم کے ماہرین اور نہ جانے کون کون سے علوم روحانیہ کے ماہریں کےاشتہار ہوتے ہیں اور لگتا ہے کہ ہمیں نہ خدا کی ضرورت ہے نہ ہی کسی تعلیم کی ہم ایک جہالت سے بھری اور توہمات پرستی میں گھری قوم کے نہایت درجہ جاہل فرد ہیں ہمیں سائنس کی کیا ضرورت ہے ہمیں تو بس عامل چاہییں،ہماری ایٹمی سائنسدان ایسی کتب تصنیف کرتے ہیں جس میں روحانی طریق علاج بتائے جاتے ہیں ،قرآن کریم میں جس فکر اور سوچ اور حصول علم کی دعوت دی گئئ ہے اس کے بجائے ہم نے اپنی فکر کو شارٹ کٹس کے لئے مخصوص کر لیا ہے ۔ میراچیلنج ہے کہ پاکستان کا کیا دنیا کا کوئی بھی عامل جن نہیں دکھا سکتا اور نہ ہی اس قسم کی کوئی مخلوق ثابت کی جاسکتی ہے انسان ہی ہے جس کو خدا نے احسن تقویم پیدا کیا ہے اس سے بڑھ کر کوئی تخلیق نہیں اور یہ کائنات اس کے لئَ مسخر کی گئی ہے باقی سب جہالت ہے
sajid ali Nov 20, 2015 04:08pm
punjab university mn jin nahi bhoot bhi hain!
Nouman Saleem Dec 09, 2015 08:54pm
hana hamari mojoda scienci halat to boht kharab he lakin science se piyar karne wale boht se log is medan mein a rhe hein jo yaqenan aik achhi khabar he.