کیا یہ ہمارے کچھ نہیں لگتے؟

اپ ڈیٹ 24 اکتوبر 2015
پاکستان میں لاکھوں افراد جنسی نقائص کے حامل ہیں اور ان کے پاس نہ گھر کی سہولت ہے اور نہ ہی انہیں انسانی حقوق حاصل ہیں۔ — تصویر بشکریہ سارا فرید۔
پاکستان میں لاکھوں افراد جنسی نقائص کے حامل ہیں اور ان کے پاس نہ گھر کی سہولت ہے اور نہ ہی انہیں انسانی حقوق حاصل ہیں۔ — تصویر بشکریہ سارا فرید۔

اسلامی تعلیمات اور مسلم معاشرے میں خواجہ سراؤں، زنخوں، زنانوں کو بھی بطور مسلمان اور بطور انسان دیگر لوگوں جیسے تمام تر حقوق حاصل ہیں لیکن عملی طور پر ایسا نہیں ہے۔

پاکستان میں مذہبی دباؤ اور سماجی ناہمواری سے عام انسان ذلت کی گہرائیوں میں زندہ رہنے پر مجبور ہے۔ لاکھوں لوگ ایسے ہیں جو تاریک راہوں کے مسافر ہیں جنہیں اپنے اور اپنے متعلقین کے پیٹ کی آگ بجانے کے لیے خود آگ میں جلنا پڑتا ہے، جن میں سرِ فہرست خواجہ سرا اور مرد اور عورت سیکس ورکرز ہیں۔

راقم کی ذاتی تحقیق اور سروے کے مطابق مذکورہ لوگوں میں ایک بھی ایسا نہیں ہے جس نے شوق سے خود کو تاریک راہوں کے سپرد کیا ہو۔ ہر ایک کے پچھے انتہائی مجبوری ہے اور ایسے حالات ہیں کہ سن کر انسانی روح کانپ جاتی ہے۔ مثلاً راولپنڈی میں ایک نوجوان سیکس ورکر نے بتایا کہ اس کا باپ نہیں ہے، ماں بیمار ہے اور دو بہنیں معذور ہیں، وہ ایک کمپنی میں جاب کرتا ہے لیکن تنخواہ سے ضروریات پوری نہیں ہوتیں۔ ایک رات کے لیے اسے کبھی تین سو اور کبھی پانچ سو مل جاتے ہیں، کلائنٹ اچھا ہو تو زیادہ بھی دے دیتا ہے۔

پڑھیے: 'پارلیمنٹ میں خواجہ سراؤں کی نمائندگی ضروری'

اس نے بتایا کہ رات کی کمائی سے بہت سہارا مل جاتا ہے، ماں کی دوا بھی مل جاتی ہے اور دیگر چھوٹی موٹی ضروریات بھی پوری ہو جاتی ہیں۔ ایسی ہی کہانیاں دیگر سیکس ورکرز کی بھی ہیں، البتہ خواجہ سراؤں کے دکھ الگ ہیں، وہ اپنے خاندانوں سے الگ رہتے ہیں۔ انسان ہوتے ہوئے بھی انہیں ان کے اپنے انسان سمجھتے ہیں اور نہ ہی معاشرہ انہیں قبول کرتا ہے۔

خواجہ سرا ایک ایک کمرے کے ایسے گھروں میں رہتے ہیں جو رہائشی علاقوں یا آبادیوں سے ہٹ کر ہوتے ہیں، اور اگر رہائشی علاقوں میں ہوتے بھی ہیں تو ایسی جگہ پر جہاں لوگوں کی آمد و رفت نہیں ہوتی۔ یہ کمرے زیادہ تر پلازوں یا بڑی عمارتوں کا حصہ ہوتے ہیں، ان کمروں میں پانی، بجلی، گیس سمیت دوسری بنیادی ضرویات نہ ہونے کے برابر ہوتی ہیں۔ دوسرا یہ کمرے عمومی طور پر ایسی جگہ ہوتے ہیں جن جگہوں پر کوڑا کرکٹ پھینکا جاتا ہے۔

انتہائی تکلیف دہ امر یہ ہے کہ معاشرہ ان کے ہر معاملے سے لاتعلق رہتا ہے۔ ان کا جینا تو ایک طرف، ان کے مرنے پر بھی معاشرہ نوٹس نہیں لیتا، حتیٰ کہ خواجہ سراؤں کے خونی رشتے دار بھی ان سے دور ہی رہتے ہیں۔ یہ جیتے بھی اکیلے ہیں اور مرتے بھی اکیلے ہیں، بالخصوص پاکستانی سماج میں اور مذہب کے نام نہاد ٹھیکیداروں کے نزدیک ایسے لوگوں کے کوئی حقوق نہیں ہیں۔ ان پر مساجد کے دروازے بند ہوتے ہیں اور مذہبی تقریبات اور تہواروں میں شرکت ان کے لیے ممنوع ہوتی ہے۔

خواجہ سراؤں پر ظلم یہ بھی ہوتا ہے کہ خواجہ سراؤں میں سے ہی بعض ہوشیار قسم کے لوگ ان کا بھر پور استحصال کرتے ہیں۔ ایک مشہور خواجہ سرا ہے جو ان کے حقوق کی بات بھی کرتا ہے لیکن اس سے زیادہ ان کا استحصال کرتا ہے۔ اسی طرح کے کئی گرو ہیں جو خواجہ سراؤں کے منہ کا نوالہ چھین لیتے ہیں۔

مزید پڑھیے: جب خواجہ سراؤں نے 700 فٹ لمبا پرچم تیار کیا

پاکستان میں ہم جنس پرستی اور ہم جنس پرست بھی ایک حقیقت ہیں، مگر یہ جبر اور خوف میں زندگیاں گزارنے پر مجبور ہیں۔ میں پاکستان میں ہم جنس پرستی کا فروغ نہیں چاہتا۔ چاہتا ہوں تو بس اتنا کہ ہم جنس پرستوں کو بھی انسان سمجھا جائے اور ان کے ساتھ انسانی سلوک کیا جائے۔ ہم جنس پرست دوسرے انسانوں کی طرح جیتے جاگتے، سانس لیتے، اور انسانی جذبات رکھتے ہیں۔ جس طرح خواجہ سراؤں کے جنسی اعضاء مکمل نہیں ہوتے، ان میں کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں کہ جو قابل علاج ہیں، ان کے علاج کے لیے سہولیات فراہم کی جائیں تاکہ وہ مکمل مرد یا عورت بن کر فعال زندگی گزار پائیں۔ ایسے ہی کچھ لوگ نفسیاتی مسائل کا شکار ہو کر ہم جنس پرستی کی طرف چلے جاتے ہیں، وہ بھی قابل علاج ہیں۔ اس لیے ان سے نفرت کے بجائے انہیں نئی زندگی دی جانی چاہیے۔

مگر دن رات برابری کا پرچار کرنے والے جید علماء سے لے کر عام مولوی تک یہ منظر کبھی نہیں دیکھا گیا ہے کہ کسی نے ہیجڑے کے ساتھ ہاتھ ملایا ہو، ساتھ بیٹھ کر کھانا کھایا ہو، عیدین کے مواقع پر انہیں بھی عید مبارک کہی ہو۔ مذہب کی نظر میں کیا خواجہ سرا کسی حقوق کے مستحق نہیں ہے؟ اگر ہیں تو پھر انہیں اس بے رحمی کے ساتھ نظر انداز کیوں کیا جاتا ہے؟ خاص طور پر پاکستان میں خواجہ سرا کو معاشرے میں ایک اچھوت کی طرح دیکھا جاتا ہے۔

ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں جنسی نقائص کے حامل افراد کی تعداد پانچ لاکھ سے زیادہ ہے، جن کے پاس نہ گھر کی سہولت ہے اور نہ ہی انہیں انسانی حقوق حاصل ہیں۔ معاشرے میں ان لوگوں کا کوئی کردار نہیں ہے۔ بہن، بھائی، ماں، باپ سمیت دیگر رشتے دار بھی ان کو نہیں اپناتے۔ انسان ہوتے ہوئے بھی ان سے کسی قسم کا انسانی رشتہ قائم نہیں ہے۔ لہٰذا وہ ایسے اندھیروں میں خود کو گم کرتے ہیں کہ یہاں باہر کی مہذب دنیا ان کے روز و شب سے بے خبر رہے اور وہ اپنے جیسوں کے ساتھ اپنی مرضی کا سانس لیں سکیں۔

یہ ان کی اپنی دنیا ہے جس میں ان کا بے رحم جنسی، معاشی اور معاشرتی استحصال ہوتا ہے۔ گرو جانتا ہے کہ اب یہ میرا غلام ہے اور میرے سوا اس کا کوئی نہیں ہے۔ گرو حسبِ روایت نئے آنے والے ہیجڑے کا کھلے دل سے استحصال کرتا ہے، اس کی انا مجروح کرتا ہے اور اسے کمائی کا ذریعہ بناتا ہے۔ بھیک مانگنے سے لے کر جسم فروشی تک ہیجڑے اپنا آپ لٹاتے رہتے ہیں۔

پڑھیے: مرد، عورت اور وہ

سانولی نامی ایک ہیجڑے کا تعلق فیصل آباد سے ہے۔ سانولی کچھ سال پہلے مکمل مرد تھی، مگر نسوانی کیفیت بھی موجود تھی۔ گھر، محلے اور اسکول میں سانولی کا مذاق بنایا جاتا اور نسوانی ناموں سے پکارا جاتا رہا جس سے مردانگی کے احساسات مجروح ہوتے رہے اور سانولی غیر شعوری طور پر نسوانیت کی کیفیت میں ڈوبتی چلی گئی۔

سانولی اب خواجہ سراؤں کی ہم جولی ہے۔ ماں باپ، بہن بھائیوں اور رشتہ داروں سے مکمل لاتعلق ہے، لیکن یاد آتے ہیں۔ کہانی بیان کرنے کا مقصد خواجہ سرا یا مثلِ خواجہ سرا کے حالات سے آگاہ کرنا ہے اور ان کے والدین کو باور کروانا ہے کہ آپ کے یہ بچے صرف آپ کی لاپرواہی اور عدم دلچسپی کے باعث غیر انسانی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ اگر کوئی بچہ دوہری جنس کا حامل ہے یا کسی جنسی نقص یا جنسی نفسیاتی عارضے کے ساتھ پیدا ہوا ہے تو اس میں بچے کا کیا قصور ہے؟

یہ بھی آپ کا ہی خون ہے۔ ان کی قدر کریں اور ان کو اپنائیں۔ ان کو اندھیری راہوں کا مسافر بننے سے بچانا ہم سب کا فرض ہے، مگر پہلی ذمہ داری گھر والوں پر عائد ہوتی ہے۔ کیا ہم اپنے بچوں سے صرف معاشرے میں بدنامی کے ڈر سے دستبردار ہوتے رہیں گے؟

سوچیے۔

تبصرے (1) بند ہیں

Abdul Qadeer Ansari Oct 24, 2015 09:35pm
A timely write up. They (shemales) are having very tender hearts full of love and sympathy toward others but our society have deprived them from love and sympathy in return.