'امریکا طالبان کے خلاف آپریشن نہیں کر رہا'

اپ ڈیٹ 08 نومبر 2015
پاکستان اور افغانستان میں کچھ ’’لون وولوز‘‘ (واحد بھیڑیے) داعش کا نام استعمال کرکے دہشت پھیلانا چاہتے ہیں — فوٹو/کریٹیو کامنز
پاکستان اور افغانستان میں کچھ ’’لون وولوز‘‘ (واحد بھیڑیے) داعش کا نام استعمال کرکے دہشت پھیلانا چاہتے ہیں — فوٹو/کریٹیو کامنز

واشنگٹن: امریکی محکمہ دفاع کا کہنا ہے کہ امریکا افغانستان میں طالبان کے خلاف مزید کوئی فوجی آپریشن نہیں کر رہا، کیونکہ وہ طالبان کو جنگ زدہ ملک میں امن کے قیام کی کوششوں میں اہم پارٹنر سمجھتا ہے۔

امریکی محکمہ دفاع ’پینٹاگون‘ کے ترجمان اور امریکی بحریہ کے کیپٹن جیف ڈیوس نے نیوز بریفنگ کے دوران کہا کہ امریکا افغانستان میں طالبان کے خلاف کوئی انسداد دہشت گردی آپریشن نہیں کر رہا۔

انہوں نے کہا کہ ہم طالبان کو، افغان مفاہمتی عمل میں اہم شراکت دار سمجھتے ہیں، اس لیے انہیں متحرک طور پر ٹارگٹ نہیں کیا جارہا۔

پینٹاگون کے ترجمان نے شام و عراق میں سرگرم شدت پسند تنظیم داعش کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اور افغانستان میں بعض انفرادی گروہ داعش کا نام استعمال کرکے دہشت پھیلانا چاہتے ہیں، تاہم اس دہشت گرد تنظیم کی خطے میں بطور ادارہ، کوئی موجودگی نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ داعش کی عراق و شام میں گرفت مضبوط ہے، لیکن پاکستان اور افغانستان میں جو دہشت گرد تنظیم کی نمائندگی کا دعویٰ کر رہے ہیں، ان کا مرکزی داعش سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

جیمز ڈیوس نے کہا کہ امریکا دہشت گردی کے خلاف لڑائی میں پاکستان کی بھرپور مدد کر رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ امریکا گزشتہ سال، افغانستان میں اپنا فوجی آپریشن ختم کرچکا ہے اور اب، ملک میں امن قائم کرنے کے لیے صرف افغان فورسز کی مدد کر رہا ہے۔

یہ پڑھیں : افغان طالبان دو دھڑوں میں تقسیم

واضح رہے کہ دہائیوں تک افغان طالبان کے امیر رہنے والے ملا عمر کی چند ماہ قبل موت کی تصدیق کے بعد ملا منصور کو طالبان کا نیا امیر مقرر کیا گیا تھا۔

ملا عمر کی موت کو دو سال تک چھپائے رکھنے اورعید پر ان کے نام سے جاری ہونے والے بیانات پر طالبان گروپ میں ناراضی پائی جاتی تھی۔

اس کے علاوہ مبینہ طور پر پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے قریب سمجھے جانے والے ملا منصور کو منتخب کرنے میں جلد بازی پر بھی سوالیہ نشان اٹھائے گئے تھے۔

طالبان میں قیادت کے حوالے سے اختلافات کے بعد رواں ہفتے جنوب مغربی افغان صوبے فرح میں علیحدہ ہونے والے طالبان دھڑے نے ایک بڑے جرگے میں ملا رسول اخوند کو اپنا نیا ’سپریم کمانڈر‘ مقرر کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں : افغان حکومت اور طالبان مذاکرات کا پہلا دور ختم

خیال رہے کہ افغانستان میں 13 سالہ جنگ کے خاتمے کے لیے افغان حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات کا پہلا دور تقریباً 4 ماہ قبل ہوا تھا۔

ان مذاکرات کی پاکستان، امریکا، چین اور اقوام متحدہ نے حمایت کی تھی اور مذاکرات کا پہلا دور پاکستان کی میزبانی پاکستان میں مری میں ہوا تھا۔

تاہم اس کے بعد افغان طالبان میں اختلافات اور دھڑے بندیوں کے بعد مذاکرات تعطل کا شکار ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں