بھنبھور، جو سسی کے بعد پھر نہ بسا

کبھی کبھی کچھ شہر مجھے سمجھ میں نہیں آتے۔ چاہے وہ جدید ہوں یا ماضی کی ویران دہلیز پر خاموشی سے آنکھیں موندے پڑے ہوں۔ اس لیے نہیں کہ ان کے متعلق معلومات کی کمی ہوتی ہے۔ نہیں ایسا بھی نہیں ہوتا۔ ان کے متعلق اگر کتابوں سے پوچھیں تو بہت ساری کتابیں بول پڑیں گی اور اتنا مواد ملے گا کہ بھنبھور یا دیبل پر ایک ضخیم کتاب تحریر کی جا سکتی ہے۔ میں 2008 میں جب یہاں آیا تھا، اس وقت سمندر اتنا آگے نہیں آیا تھا۔ البتہ سمندر میں جب مد و جزر کا وقت ہوتا، تب پانی اس ٹیکس لینے والی کوٹھی پر آتا جو قلعہ سے باہر مغرب کے طرف بنی ہوئی تھی۔ لیکن اب وہاں شوریدہ گیلی مٹی اور خاموشی کے سوا کچھ نہیں ہے۔

میں جب سورج اگنے کے ساتھ یہاں پہنچا تو میوزیم ابھی بند تھا۔ چوکیدار پیار علی ملاح تھا جو بیٹھا ہوا تھا۔ وہ سگریٹ کا گاڑھا دھواں اپنے پھیپھڑوں میں بھرتا تو سرور سے اس کی آنکھوں میں ایک ہلکی لالی کے ساتھ غنودگی بھی بکھر سی جاتی۔ کیونکہ میں کل شام کو یہاں سے گیا تھا اور میں نے اسے کہا تھا کہ میں صبح کو جلدی آؤں گا۔ اور میں آگیا تھا۔ کل شام کو جب میں آیا تھا تب بھی ایک ویرانی بستی تھی۔ یہاں اب بہت ہی کم سیاح آتے ہیں کیونکہ یہاں آنے والوں کے لیے کوئی سہولت نہیں ہے۔

آج تک نہ جانے کتنے اوراق تحریر کیے گئے، کتابیں شائع ہوئیں لیکن 'بھنبھور' اور 'دیبل' کے بیچ میں شک کی ایک مہین لکیر اب تک موجود ہے۔ ہم جب دیبل کے متعلق ایک خاکہ ذہن میں تراشتے ہیں تو ایک تصویر بنتی ہے: ایک بڑا بیوپاری شہر، بندر پر دور دراز علاقوں سے آئے ہوئے بیوپار کے جہاز کنارے پر کھڑے ہیں جن کے مختلف رنگوں کے بادبان ہوا میں لہرا رہے ہیں، بندر کنارے لوگوں کی بھیڑ ہے، سامان بیچا اور خریدا جا رہا ہے۔ لیکن جیسے ہی بھنبھور کے متعلق سوچتے ہیں تو تاڑ کے لمبے درخت، ہرے بھرے باغ اور باغوں میں پڑے جھولے نظر آنے لگتے ہیں۔ ایسا لگنے لگتا ہے کہ ایک نخلستان تھا جو گھارو کریک کے میٹھے پانی پر آباد تھا۔

بھنبھور گھارو کریک.
بھنبھور گھارو کریک.

بھنبھور میوزیم.
بھنبھور میوزیم.

بھنبھور شہر کا نقشہ.
بھنبھور شہر کا نقشہ.

میوزیم کے باہر لگے بورڈ پر شہر کی تاریخ مختصرآ بیان کی گئی ہے.
میوزیم کے باہر لگے بورڈ پر شہر کی تاریخ مختصرآ بیان کی گئی ہے.

رچرڈ ایف برٹن 1854 میں اپنے قافلے کے ساتھ کراچی سے نکلا، لانڈھی سے ہوتا ہوا ان ہی آثاروں سے گذرا تھا۔ موسم کچھ معتدل تھا اس لیے اس کی تحریر میں تلخی کم تھی۔ وہ لکھتے ہیں: "یہاں ایک زمانے میں سمندر کا کنارا تھا۔ ان آثاروں کو بھنبھور کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ اس کا تعلق سکندراعظم کے دور سے ہے۔ اس وقت کے کچھ مؤرخوں نے اس کو 'باربرکی' (Barbarki) یا 'باربرائک' (Barbrike) بھی تحریر کیا ہے۔ کچھ اسے دیبل بندر کے نام سے بھی پکارتے ہیں۔ سندھ کا یہ ایک قدیم اور اہم بندر تھا، مگر اب یہ ویران ہوگیا ہے۔ اب فقط قدیم گھروں کی بنیادیں، قلعے کے چبوتروں کے نشان اور شہر کے بیچ میں مٹی کے ڈھیر ہیں۔"

ان کھنڈروں کی کھدائی کی ابتدا 'مسٹر مجمدر' نے 1930 میں کی۔ اس کے بعد کھدائی کا سلسلہ 1951 میں پاکستان آرکیالاجی کے 'مسٹر الکاک' سے شروع ہوا جو وقفہ وقفہ سے اب تک جاری ہے۔ آرکیالاجی کی ان اہم کھدائیوں سے یہ حقیقت آشکار ہوئی کہ یہ بندرگاہ کم سے کم 2100 برس قدیم ہے۔ ہم یہ یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ اس عظیم الشان بندرگاہ کو اس جگہ پر قائم کرنے کا خیال کس کو آیا لیکن ہم یہ ضرور جانتے ہیں ہے کہ یہاں پہلے یونانی رہے۔ یہ اس لیے بھی ممکن ہے کہ یونانی وادیء سندھ کے علاوہ کاٹھیاواڑ میں بھی آباد تھے۔ جوناگڑھ کاٹھیاواڑ کی طرف انہی یونانیوں کی بسائی ہوئی آبادی تھی۔ اشوک کے عہد میں بہت سارے یونانیوں نے بدھ مت کو اپنا مذہب بنا لیا تھا۔

اگر تاریخ سے رجوع کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ زیریں سندھ بدھ مت کا اہم مرکز رہا ہے۔ اس کے بعد جن بھی قوموں کی آمد ہوئی جیسے ستھین، پارتھی، ساسانی، ان کا پسندیدہ اور مقدس مذہب بدھ مت ہی رہا۔ مگر آرین قوم کی وجہ سے ہندو مذہب بھی رہا۔ کھدائی کے دوران شِیو جی کا مندر بھی ملا ہے اور شیو لنگ بھی۔

رہائشی علاقہ۔
رہائشی علاقہ۔

شہرِ پناہ.
شہرِ پناہ.

"رائے حکومت" جو قبلِ اسلام سے 632 تک رہی، جس کا 'ساہسی' آخری حاکم تھا۔ اس زمانے میں ان کا مرکز تو 'الور' (اروڑ، سکھر) تھا، مگر دیبل صوبہ برہمن آباد میں شامل تھا۔ ان کے پانچ راجا ہو کر گزرے اور تقریباً ایک سو 37 برس تک حکومت کی، اور رائے حکومت کے یہ حاکم بدھ مت کے پیرو تھے۔

رائے ساہسی کی موت کے بعد رانی سونھن دیوی نے چچ سے شادی کرلی اور اس طرح سندھ میں برہمن حکومت (666-632) کی بنیاد پڑی۔ سمندر کے کنارے ہونے کی وجہ سے سندھ، خاص طور پر زیریں سندھ کا دور دراز کے علاقوں سے بیوپار ہوتا رہا ہے۔ یہ 695 کی بات ہے جب دیبل کے سمندری قزاقوں نے سراندیپ سے لوٹتے ہوئے عربوں کے تجارتی جہازوں کو لوٹا جس کی وجہ سے حجاج بن یوسف نے کئی لشکر بھیجے۔

عربوں نے سندھ پر پہلا بحری حملہ دیبل پر کیا اور یہ چچ کے زمانہ میں ہوا مگر ناکام رہا۔ 'بدیل' نے راجہ داہر کی حکومت (712-700) میں دیبل پر حملہ کیا مگر وہ بھی ناکام رہا اور بدیل جنگ میں مارا گیا۔ بدیل کی ہار نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔

711 میں محمد بن قاسم نے بڑے لشکر اور منجنیقوں سے دیبل پر حملہ کیا۔ دیبل میں بدھ مت کا بہت بڑا مندر تھا جس کے گنبد گرانے سے دیبل کو مسلمانوں نے فتح کر لیا۔ یہاں ایک وسیع مسجد بھی بنائی گئی جس کو جنوب مشرقی ایشیاء کی پہلی مسجد ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ اور حامد ابن ودا النجدی کو دیبل کا گورنر مقرر کیا گیا۔

محمد بن قاسم کے بھنبھور پر حملے کی تصویر کشی.
محمد بن قاسم کے بھنبھور پر حملے کی تصویر کشی.

کھدائی کے دوران ملنے والا شیو لنگ میوزیم میں موجود ہے.
کھدائی کے دوران ملنے والا شیو لنگ میوزیم میں موجود ہے.

اسی زمانے کے پتھر اب بھی شہر کی گلیوں کی نشاندہی کرتے ہیں.
اسی زمانے کے پتھر اب بھی شہر کی گلیوں کی نشاندہی کرتے ہیں.

بھنبھور کی قدیم جامع مسجد جسے جنوب مشرقی ایشیا کی پہلی مسجد ہونے کا اعزاز حاصل ہے.
بھنبھور کی قدیم جامع مسجد جسے جنوب مشرقی ایشیا کی پہلی مسجد ہونے کا اعزاز حاصل ہے.

مدرسہ.
مدرسہ.

اس کے بعد 'ہباری' آئے، سومرا سرداروں کا زمانہ آیا۔ 1181 میں شہاب الدین غوری نے دیبل پر حملہ کیا اور دیبل کے سوا ساحل سمندر کے دوسرے شہروں کو لوٹ کر غزنی چلا گیا اور دیبل کے نصیبوں سے اچھے دنوں نے آئے ہوئے مہمانوں کی طرح الوداع کہنا شروع کیا۔ دریائے سندھ نے بھی اپنا راستہ تبدیل کرنے کی روایت کو برقرار رکھا۔ نتیجتاً تیرہویں صدی کے نصف تک دیبل کی گلیاں ویران ہوگئیں۔

اگر بھنبھور کی قدیم گلیوں میں آپ چلیں تو آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ یہ ایک گنجان آباد شہر تھا۔ سورج ڈھلنے کے بعد گلیوں میں دیے جلتے ہوں گے، اور اس روشنی میں معصوم بچے کھیلتے ہوں گے۔ کوئی مندر میں پوجا پاٹھ میں مصروف ہوتا ہوگا اور کوئی دیول میں بدھ کی کہی ہوئی باتوں کا ورد کرتا ہوگا۔ بازاروں میں دکانیں ہوں گی۔ بیوپار ہوتا ہوگا، سرائے ہوں گے، جہاں مسافر آ کر ٹھہرتے ہوں گے۔

مشرقی حصہ اور جھیل.
مشرقی حصہ اور جھیل.

منجنیق، جھیل اور قلعے کی دیوار.
منجنیق، جھیل اور قلعے کی دیوار.

مندر کے آثار.
مندر کے آثار.

بازار.
بازار.

بازار.
بازار.

بازار.
بازار.

بھنبھور کے مشرق میں ایک وسیع قدیمی جھیل ہے۔ کہتے ہیں کسی زمانے میں اس کے کنارے پر رنگریزوں اور دھوبیوں کی آبادیاں تھیں۔ جھیل کنارے تاڑ کے لمبے درخت اور ہریالی تھی جو حد نظر تک بکھرتی تھی۔ ان خوبصورت منظروں سے 'سسی پنھوں' کی لوک عشقیہ داستان کی جڑیں جڑی ہوئی ہیں۔

کہتے ہیں کہ راجہ دلورائے کے زمانے میں سہون سے ایک برہمن نے اپنی بیٹی کو اس لیے صندوق میں بند کر کے دریا میں بہا دیا کہ نجومیوں نے بتایا تھا کہ یہ جب بڑی ہوگی تو ایک مسلمان سے اس کی شادی ہوگی۔ یہ صندوق تیرتے بھنبھور گھاٹ پر آ پہنچا، جہاں یہ 'محمود' دھوبی کو ملا۔ یہ بمبھور کا اتنا بڑا مشہور دھوبی تھا کہ اس کے پاس پانچ سو سے زائد دھوبی مزدوری کرتے تھے، مگر قسمت نے اس کو اولاد کی نعمت سے محروم رکھا تھا۔ صندوق میں ملی چاند جیسی بچی نے بے اولادی کا یہ داغ بھی دھو دیا۔ بچی اتنی خوبصورت تھی کہ اس کا نام 'سسی' رکھ دیا۔ وہ جیسے جیسے بڑی ہوتی گئی اس کا روپ اور نکھرتا گیا۔ اس کے باپ نے اس کے لیے محل بنوایا اور محل کے چاروں طرف پرفضا باغ لگوائے۔

اس زمانے میں کیچ اور مکران کے قافلے بھنبھور سے گزرتے ہوئے ٹھٹھہ اور دوسرے مشہور مقامات میں تجارت کی غرض سے جایا کرتے تھے۔ قافلے والوں نے سسی کے حسن کا چرچا بھی سنا تھا۔ آخر یہ ذکر کیچ کے حاکم 'آری جام' کے فرزند 'پنھوں' سے کیا۔ سسی کے حسن نے پنھوں کو بے تاب کر دیا۔ آخر فیصلہ یہ ہوا کہ وہ ایک بڑے قافلے کو لے کر بہت سا مشک و عنبر ساتھ لے جائے اور ایک بیوپاری کے بھیس میں بھنبھور کی سیر کرے۔ جب یہ قافلہ بھنبھور پہنچا تو خوشبوؤں سے سارا شہر مہکنے لگا۔ مشک و عنبر کی خرید و فروخت ہونے لگی۔ حسنِ اتفاق کہ سسی بھی بن ٹھن کر اپنی سہیلیوں کے ساتھ ادھر آئی۔ دونوں کی آنکھیں چار ہوئیں اور عشق کا سلسلہ چل پڑا۔

سسی سے شادی کے لیے پنھوں کو بہت سارے امتحانوں سے گذرنا پڑا۔ بہرحال بڑے مشکل امتحانوں کے بعد 'سسی پنھوں' کی شادی ہوگئی اور پنھوں نے واپس جانے کا ارادہ ترک کر کے بھنبھور میں ہی سکونت اختیار کر لی۔ پنھوں کا بھائی "چیزو" جو اس کے ساتھ آیا تھا، اس نے واپس جا کر ساری حقیقت اپنے والد سے بیان کردی۔ آری جام کے لیے یہ خبر ایک صدمے سے کم نہیں تھی کیونکہ سارے بیٹوں میں سے وہ پنھوں کو زیادہ چاہتا تھا۔

دھوبی گھاٹ کے آثار.
دھوبی گھاٹ کے آثار.

دھوبی گھاٹ کے آثار.
دھوبی گھاٹ کے آثار.

آری جام نے فوری طور پر پنھوں کے لیے ایک قاصد بھیجا کہ پنھوں کو جا کر کہے کہ وہ واپس لوٹ آئے۔ قاصد بھنبھور آیا اور پنھوں کو دھوبی کی طرح کپڑے دھوتے دیکھا اور اس کے باپ کا پیغام پہنچایا، پر پنھوں نے واپس چلنے سے انکار کر دیا۔ یہ خبر باپ پر برق بن کر گری اور وہ شدید بیمار ہوگیا۔ باپ کی یہ حالت دیکھ کر تینوں بیٹوں چیزو، ہوتی اور نوتی نے متفقہ فیصلہ کیا کہ کسی بھی حالت میں پنھوں کو واپس لے کر آنا ہے۔

تینوں بھائی تیز رفتار اونٹوں پر سوار ہو کر بھنبھور پہنچے۔ سسی اور پنھوں نے ان کا پرتپاک خیر مقدم کیا۔ کچھ دنوں کے بعد ایک رات تینوں بھائیوں نے پنھوں کو اس قدر زیادہ شراب پلا دی کہ وہ اپنے ہوش میں نہیں رہا۔ سسی انتظار کرتے کرتے سوگئی۔ آدھی رات کو تینوں بھائیوں نے بے ہوش پنھوں کو اونٹ پر ڈالا اور کیچ لے گئے، اور سسی سوتی رہ گئی۔

سسی جب صبح کو اٹھی تو جیسے اس کی ساری دنیا لٹ چکی تھی۔ لیکن سسی نے ہار نہیں مانی اور پیدل 'کیچ' کی طرف چل پڑی۔ لوگوں اور سہیلیوں نے بہت سمجھایا کہ کیچ یہاں سے بہت دور ہے، راستے میں پہاڑ ہیں، جنگل ہیں، جنگلی جانور ہیں، پانی کی شدید کمی ہے، تپتا سورج ہے، اس لیے مت جاؤ، مگر سسی نے کسی کی نہیں سنی اور اپنے محبوب سے ملنے کے لیے چل پڑی۔

شاہ عبداللطیف بھٹائی نے اس لوک داستان کو اپنی خوبصورت شاعری میں ڈھالا ہے، اور سسی کے درد کی کیفیتوں کو بڑی گہرائی سے بیان کیا ہے:

"اہل بھنبھور لاکھ سمجھائیں، وہ نہ سمجھے گی کچھہ بجز محبوب،

نہ ملے کارواں گم گشتہ، رہِ الفت میں موت بھی مرغوب،

یہ خلوص وفا، یہ صدقِ طلب، ہو گئے ایک طالب و مطلوب"

۔۔۔۔۔۔۔

"میری ہمجولیو! مری سکھیو!، مشورہ دو نہ لوٹ جانے کا،

اب یہ ہی ہے تلافیء مافات، غم نہیں مجھ کو دکھ اٹھانے کا،

شکر ہے مجھ کو عشق نے بخشا، حوصلہ خود کو آزمانے کا"

مشہور محقق ڈاکٹر نبی بخش خان بلوچ اس لوک داستان کی قدامت کے متعلق لکھتے ہیں کہ یہ گیارہویں صدی عیسوی کی لوک داستان ہے۔ مجھے نہیں پتہ کہ اس لوک داستان میں کتنی صداقت ہے، لیکن اگر داستان میں بیس ٹکے بھی سچائی ہے تو آپ شہاب الدین غوری کے حملے کو دیکھیں جو گیارہویں صدی میں کیا گیا تھا، اور اس لوٹ مار کے بعد بھنبھور ویران ہی ہوا۔ بندرگاہ پر کوئی جہاز نہیں رکا اور نہ سوداگروں نے بھنبھور کی گلیوں میں اپنا سودا بیچا۔ اس حملے کے بعد مشک و عنبر کا کوئی قافلہ بھنبھور نہیں آیا اور نہ ہی ان گلیوں میں پھر کبھی مشک کی خوشبو نے بسیرا نہیں کیا۔

جامع مسجد کا مرکزی دروازہ.
جامع مسجد کا مرکزی دروازہ.

جامع مسجد.
جامع مسجد.

جامع مسجد.
جامع مسجد.

مسجد کا مشرقی حصہ.
مسجد کا مشرقی حصہ.

مسجد سے پانی کے نکاس کے لیے بنائی گئی نالی.
مسجد سے پانی کے نکاس کے لیے بنائی گئی نالی.

شام ہونے کو آئی ہے۔ میں اس ویران شہر کی روح میں اترتی خاموشی کے بیچ گلی کے ایک گھر کی خستہ دیوار پر بیٹھا ہوں۔ پتہ نہیں کہ سسی کبھی اس گلی سے گزری بھی ہوگی یا نہیں۔ مگر یہ سارا شہر سسی کا ہے۔ کہتے ہیں کہ کچھ شہر کچھ لوگوں کے لیے بنتے ہیں۔ ہمیں پتہ نہیں ہوتا مگر ایسا ہوتا ہے۔ بھںبھور سسی کے لیے بنا تھا۔ اس شہر نے اس کے آنے کا انتظار کیا۔ وہ جب آئی تو اس شہر نے پال پوس کر اسے بڑا کیا۔ اس کا بیاہ کیا۔ اسے خوش رکھا۔ مسکانیں دیں۔ پر قسمت کے فیصلے ہم نہیں کرتے۔ اور جب سسی کی آنکھوں میں آنسو آئے، اور جب وفا کی جڑوں کو زندہ رکھنے کے لیے سسی نے بھنبھور کی گلیوں کو الوداع کہا، تو اس شہر کی گلیوں نے جینا چھوڑ دیا۔ کہتے ہیں پھر جو بھنبھور اجڑا تو آباد نہ ہوسکا کیونکہ بھںبھور سسی کے سوا آباد نہیں ہوتے۔

— تصاویر بشکریہ لکھاری۔


حوالہ جات

"تاریخ سندھ"۔ اعجازالحق قدوسی

"رسالہ شاہ عبداللطیف بھٹائی"۔ مترجم: شیخ ایاز

"پیرائتی سندھ کتھا"۔ ایم۔ایچ پنوہر

''سندھ منھنجی نظر میں"۔ رچرڈ ایف برٹن۔ ترجمہ: عطا محمد بھنبھرو

"فتح نامہ سندھ عرف چچ نامہ"۔ مترجم: اختر رضوی


ابوبکر شیخ آرکیولاجی اور ماحولیات پر لکھتے ہیں۔ انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر کے لیے فوٹوگرافی اور ریسرچ اسٹڈیز بھی کر چکے ہیں۔ ان کا ای میل ایڈریس [email protected] ہے.


ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دیے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔