نئی دہلی : سفارتکاروں نے جنوبی ایشیاءمیں استحکام کو بڑھانے کی بجائے خاموشی سے ہندوستان کو جوہری تجارت کرنے والے ممالک کے کلب میں شامل کرنے کی مہم شروع کردی ہے جس سے پاکستان اور انڈیا کے درمیان کشیدگی میں مزید اضافہ ہوسکتا ہے۔

غیرملکی خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق نیوکلیئر سپلائر گروپ (این ایس جی) کے چیئرمین نے حال ہی میں نئی دہلی کا دورہ کرکے وزیر خارجہ ششما سوراج سے ملاقات کی جوکہ سفارتی " پیشرفت" کا حصہ تھی تاکہ اگلے سال جون میں ہندوستان کو کلب میں شامل کرنے کے لیے اتفاق رائے قائم کیا جاسکے۔

ہندوستان کو پہلے جوہری دھماکے کے تجربے کے 41 سال بعد 48 ممالک پر مشتمل کلب کی رکنیت ملنے کا امکان ہے اور اس سے 1.25 ارب افراد پر مشتمل ملک کو متعدد مفادات حاصل ہوں گے۔

این ایس جی کے سربراہ رافیل گروسی نے رائٹرز کو ایک انٹرویو کے دوران بتایا " یہ بہت پیچیدہ عمل ہے مگر میرے خیال میں رکاوٹ کے لیے کم سے کم جواز موجود ہے"۔

مگر اس حوالے سے شبہات بھی موجود ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ ہندوستان نے جوہری عدم پھیلاﺅ یا این پی ٹی معاہدے پر دستخط نہیں کیے ہیں جو جوہری ہتھیاروں کے پھیلاﺅ کی روک تھام کے لیے ہے۔

این ایس جی اتفاق رائے سے کام کرنے والا گروپ ہے اور ہندوستان کو قبول کرنے کا مطلب یہ ہوگا کہ اس کے مغربی پڑوسی کو کلب سے دور رکھا جائے، جس سے ممکنہ طور پر پاکستان اس شعبے میں مزید کام کرنے پر مجبور ہوسکتا ہے۔

اس وقت پاکستان کی جانب سے طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائلوں کے ٹیسٹ کیے جارہے ہیں جو پورے ہندوستان تک مار کرسکتے ہیں اور مختصر فاصلے تک میزائلوں کے بھی جس کے بارے میں اس کا اصرار ہے کہ ان کا استعمال اسی وقت ہوگا جب ہندوستانی فوجی پاکستانی سرحد کو عبور کریں گے۔

این ایس جی میں رکنیت سے ہندوستان کی جغرافیائی سیاسی پوزیشن مضبوط ہوگی اور اسے جوہری تجارت اور ٹیکنالوجی منتقل کرنے کے مواقعوں سے فائدہ اٹھانے میں مدد ملے گی، جبکہ اس سے پاکستان میں خدشات بھی ابھریں گے۔

ایک سینئر پاکستانی سیکیورٹی عہدیدار کے مطابق " ہندوستان نے امریکا اور فرانس کے ساتھ جوہری معاہدے کررکھے ہیں، وہ جلد آسٹریلیا اور جاپان سے بھی معاہدے کرلے گا۔ تو یہ سب این ایس جی کا حصہ بننے کے لیے ہے۔ مگر لوگ یہ سمجھ نہیں پارہے کہ ہندوستان اپنا اضافی ایندھن (سول جوہری معاہدوں کے ذریعے) سے توانائی کی پیدوار کے ساتھ اسے ہتھیاروں کی تیاری کے لیے بھی استعمال کرے گا"۔

پاکستانی عہدیدار کا کہنا تھا "آخر میں ہماری جانب سے مزید مزاحمت کی ضرورت بڑھے گی، کمی نہیں آئے گی"۔

بالادستی

پاکستان اپنے بڑے پڑوسی کی ممکنہ جارحیت سے بچنے کے لیے اہم انشورس کے طور پر جوہری سبقت چاہتا ہے اور ایسا ظاہر بھی ہوتا ہے کہ اسے جوہری مقابلے میں ہندوستان کے مقابلے میں بالادستی حاصل ہے۔

تجزیہ کاروں کا تخمینہ ہے کہ پاکستان ایک سال میں بیس جوہری وارہیڈ تیار کرتا ہے جبکہ ہندوستان میں یہ تعداد پانچ ہے، تاہم اس سبقت کے نتیجے میں پاکستانی معیشت پر بھاری بوجھ پڑتا ہے۔

خبر ایجنسی کے مطابق امریکی محکمہ خارجہ نے پاکستان کے بارے میں بات کرنے سے انکار کیا مگر ایک عہدیدار کا کہنا تھا کہ واشنگٹن اسلام آباد کے ساتھ سول جوہری معاہدے پر بات چیت نہیں کررہا اور نہ ہی وہ این ایس جی کے ساتھ تجارت کے لیے پاکستان کی حمایت کررہا ہے۔

ہندوستانی کوششیں

نئی دہلی کی جانب سے 2010 سے جوہری کلب میں رسمی شمولیت کی دلچسپی کا اظہار کیا جارہا تھا مگر اسے یورپی ممالک کے شکوک شبہات کا سامنا ہے۔ ایک انڈین سفارتکار نے رائٹرز کو بتایا " ہم پُرامید ہیں، این ایس جی کے اندر یہ خواہش موجود ہے کہ اس عمل کو جلد مکمل کرلیا جائے۔ لوگ ہندوستان کے ساتھ مطمئن ہیں"۔

تجزیہ کاروں نے اتنباہ کیا ہے کہ وزیراعظم نریندرا مودی اور چینی صدر شی جن پنگ کے درمیان دو ملاقاتوں کے باوجود بیجنگ نے ابھی تک رضامندی کا اشارہ نہیں دیا اور ہوسکتا ہے وہ تیار نہ ہو۔

ان تحفظات کے باوجود ہندوستان پراعتماد ہے اور انڈین سفارتکار کے مطابق " فرانس نے بھی جوہری عدم پھیلاﺅ کے معاہدے پر توثیق سے پہلے این ایس جی میں شمولیت اختیار کی تھی، یہ اسلحے پر کنٹرول کے بارے میں نہیں بلکہ برآمدی کنٹرول پر ہے"۔

تبصرے (0) بند ہیں