'بڑھتی عمر بھی جن کو روک نہ سکی'

'بڑھتی عمر بھی جن کو روک نہ سکی'

ڈاکٹر خواجہ علی شاہد


زیادہ عمر کے کھلاڑیوں کو اپنے قومی رنگوں میں دیکھنا غیرمعمولی نہیں، وہ کسی سابق کھلاڑیوں کا ٹیم کا حصہ نہیں ہوتے بلکہ متحرک کھلاڑی ہوتے ہیں جو کرکٹ، ہاکی، ٹینس اور فٹبال سمیت دیگر کے عالمی میدانوں میں بہترین کارکردگی دِکھا رہے ہوتے ہیں۔

کئی بار ایسا ہوتا ہے کہ کھلاڑی کم عمری سے آغاز کرتے ہیں اور دیر سے ریٹائر ہوتے ہیں، اس کے پیچھے یہ منطق ہوسکتی ہے کہ جو انتہائی نوجوانی سے ہی فٹنس کا خیال رکھنا شروع کرتے ہیں وہ طویل عرصے تک فٹ رہتے ہیں۔

کرکٹ کے میدانوں میں ہم نے متعدد کھلاڑی جیسے مشتاق محمد، جاوید میاں داد اور سچن ٹنڈولکر کو بہت کم عمری میں متعارف ہوتے دیکھا، دوسری جانب اس بات پر بھی حیرت ہوتی ہے کہ آخر مصباح الحق، محمد عرفان، سعید اجمل اور یاسر شاہ کے کیرئیر اتنے تاخیر سے کیوں شروع ہوئے۔

ہوسکتا ہے اس کی وجہ یہ ہو کہ ایشیائی کھلاڑیوں کی جسمانی ساخت عام طور پر تاخیر سے عروج پر پہنچتی ہے، پاکستانی ٹینس کھلاڑی اعصام الحق قریشی نے بھی یہ نکتہ اٹھایا جبکہ اس کی مثالیں بھی عمران خان اور وسیم اکرم کی شکل میں موجود ہیں جنھوں نے اپنی قومی ٹیم کی نمائندگی اور کارکردگی کو اس وقت بھی بحال رکھا جب وہ ایک کھلاڑی کے لیے سمجھی جانے والی مثالی عمر سے گزر چکے تھے۔

رواں سال کرکٹ ورلڈکپ میں سب سے زیادہ عمر کے تین کھلاڑی مصباح، یونس خان اور سعید اجمل تھے، مگر ٹینس گریٹس جیسے لینڈر پیس، میکس میرنی اور ڈینیئل نیسٹر نے بالترتیب 38، 39 اور 40 سال کی عمر میں گرینڈ سلیمز ٹورنامنٹ جیتے۔

سچن ٹنڈولکر نے اپنی سب سے بہترین ون ڈے اننگ ستمبر 2010 میں 37 سال کی عمر میں کھیلی مگر ان کے مطابق عزم نے اس کارکردگی کو برقرار رکھنے میں مضبوط کردار ادا کیا۔

یہاں مختلف کھیلوں سے تعلق رکھنے والے ایسے کھلاڑیوں کا ذکر کیا گیا ہے جن کے پرستاروں کی تعداد بہت زیادہ تھی اور وہ طویل عرصے تک میدانوں میں بہترین کارکردگی دکھاتے رہے۔

مارٹینا نیوروتیلووا

اے ایف پی فوٹو
اے ایف پی فوٹو

چیک ٹینس کھلاڑی مارٹینا نیوروتیلووا کی 50 ویں سالگرہ کو ایک مہینہ باقی تھا جب انہوں نے پروفیشنل ٹینس کو خیرباد کہا جبکہ 49 سال کی اس خاتون نے عمر کے تقاضوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ایک اور ٹائٹل اپنے نام کیا، اس وقت وہ اپنے مدمقابل کھلاڑیوں سے کم از کم دوگنا زیادہ عمر کی تھیں مگر پھر بھی 2006 میں یوایس اوپن مکسڈ ڈبلز ٹائٹل اپنے نام کیا۔ 1994 میں ریٹائرمنٹ کا اعلان کرکے وہ 2000 میں دوبارہ ٹینس کے میدانوں میں واپس آئیں۔

مارٹینا نے 1975 میں 24 سال کی عمر میں ورلڈ نمبر ون بننے کا اعزاز حاصل کیا اور طویل عرصے تک سنگلز اور ڈبلز میں اس پوزیشن پر رہیں۔

انہوں نے 18 سنگلز گرینڈ سلیم ٹائٹلز، 31 ویمنز ڈبلز گرینڈ سلیم ٹائٹلز (آل ٹائم ریکارڈ) اور 10 مکسڈ ڈبلز ٹائٹلز جیتے۔ انہیں سب سے زیادہ سنگلز ٹائٹلز (167) اور ڈبلز ٹائٹلز (177) جیتنے کا ریکارڈ حاصل ہے۔

یہ مانا جاتا ہے کہ اگر وہ سینے کے سرطان (بریسٹ کینسر) کا شکار نہیں ہوتیں تو وہ اب بھی ٹینس سرکٹ میں موجود ہوتیں اور وہ اب بھی وہ کچھ ٹینس تو کھیل ہی لیتیں۔

محمد علی

اے ایف پی فوٹو
اے ایف پی فوٹو

لیجنڈ ورلڈ ہیوی ویٹ باکسر محمد علی نے بھی اس وقت ریٹائرمنٹ لی جب ان کی 40 ویں سالگرہ میں ایک ماہ رہ گیا تھا۔ انہوں نے ریٹائرمنٹ کا اعلان اس سے دو سال قبل بھی کیا تھا۔

بارہ سال کی عمر میں کیرئیر کا آغاز کرنے والے محمد علی نے 22 سال کی عمر میں پہلی بار ورلڈ ہیوی ویٹ چیمپئن شپ جیتی تھی۔ وہ مختلف وجوہات کی بناءپر اپنے کیرئیر کے دوران ہیڈلائنز میں رہے جیسے اسلام قبول کرنا، ویت نام جنگ کے دوران امریکی فوج میں شمولیت سے انکار، سیاہ فام برادری کی پرجوش حمایت اور غلامی کے خلاف، ٹائٹلز کو واپس لیا جانا اور برسوں تک چلنے والی عدالتی جنگیں جس میں کامیابی آخر میں ان کے نام رہی۔

اگر پارکنسن کے مرض نے انہیں متاثر نہ کیا ہوتا تو وہ اب بھی کسی نہ کسی حد تک باکسنگ کی دنیا کا حصہ ضرور ہوتے۔

مائیکل جورڈن

اے ایف پی فوٹو
اے ایف پی فوٹو

مائیکل جورڈن مشہور ترین باسکٹ بال کھلاڑی ہیں جنھوں نے 1984 میں امریکی ٹیم کے ساتھ دو اولمپک گولڈ میڈل جیتے اور وہ 1992 میں ' ڈریم ٹیم' کا حصہ بھی تھے۔

انہوں نے پہلی بار ریٹائرمنٹ کا اعلان 1993 میں کرتے ہوئے کہا کہ اب انہیں کھیل میں دلچسپی نہیں رہی۔ یہاں تک کہ انہوں نے بیس بال ٹیم کے معاہدے پر دستخط بھی کردیئے مگر 1995 میں ریٹائرمنٹ واپس لیے اور میدان میں لوٹ آئے۔

1999 میں ایک بار پھر ریٹائرمنٹ لی مگر 2001 اور 2003 میں مزید دو سیزن کھیلیں اور 2003 میں انہوں نے سب سے زیادہ اسکور کرنے والے باسکٹ بال کھلاڑی کا اعزاز اپنے نام کیا۔

وہ 40 سال کی عمر میں کھیلنے والے پہلے ایسے کھلاڑی بنے جس نے ایک گیم کے دوان 43 پوائنٹس حاصل کیے۔

سچن ٹنڈولکر

اے ایف پی فوٹو
اے ایف پی فوٹو

جب اعدادوشمار کی بات ہوتی ہے تو بہت کم کھلاڑی ایسے ہوں گے جو انڈین رن بنانے والی مشین کا مقابلہ کرسکیں۔

سچن ٹنڈولکر اب تک واحد کھلاڑی ہیں جنھوں نے بین الاقوامی سطح پر 100 سنچریاں اسکور کیں، پہلے ایسے بیٹسمین ہیں جنھوں نے ون ڈے میچ میں ڈبل سنچری اسکور کی، ٹیسٹ اور ون ڈے دونوں میں سے زیادہ رنز بنانے کا ریکارڈ ان کے نام ہے، وہ واحد ایسے کھلاڑی ہیں جنھوں نے بین الاقوامی کرکٹ میں 30 ہزار رنز اسکور کیے۔

سچن ٹنڈولکر نے 16 سال کی عمر میں 1989 میں پاکستان کے خلاف ڈیبیو کیا اور اپنے لگ بھگ 24 سالہ کیرئیر کا آخری بین الاقوامی میچ جو ان کا 200 واں ٹیسٹ میچ تھا، 40 سال کی عمر سے گزرنے کے بعد ویسٹ انڈیز کے خلاف 2013 میں کھیلا۔

کسی بھی کرکٹ پرستار کے لیے بین الاقوامی کرکٹ کو اسٹائلش ٹنڈولکر کے بغیر قبول کرنا مشکل تھا جو باﺅلنگ اٹیک کو ناکام بناکر رنز کا پہاڑ کھڑا کردیتے تھے۔

عمران خان

ان کا ہمیشہ یہ کہنا تھا کہ وہ کرکٹ سے اس وقت ریٹائر ہونا چاہتے ہیں جب وہ عروج پر ہوں اور عمران خان نے 1987 کے ورلڈکپ کے دوران ریٹائرمنٹ کا اعلان بھی کیا مگر وہ پھر کھیل کے میدان میں اس وقت واپس آئے جب پاکستان کے اس وقت کے صدر جنرل ضیاءالحق نے ان سے ابھی نہ جانے کی درخواست کی۔

اگلے ورلڈکپ میں عمران خان نے اپنی ٹیم کی قیادت کرتے ہوئے 39 سال کی عمر میں ٹرافی اٹھائی۔

عمران اس وقت رکنے کی بجائے اپنے کینسر ہسپتال کی تعمیر کو بھی مکمل کرنا چاہتے تھے۔ پاکستان کی ورلڈکپ فتح کے بعد قوم کو ہونے والی خوشی نے انہیں ہسپتال کی تعمیر مکمل کرنے کے حوالے سے فنڈز اکھٹا کرنے میں بھی مدد دی۔

انگلش میں پڑھیں۔