ترکی سے جنگ نہیں ہوگی، روس

اپ ڈیٹ 25 نومبر 2015
روسی وزیر خارجہ سرگے لاروف—اے ایف پی فائل فوٹو۔
روسی وزیر خارجہ سرگے لاروف—اے ایف پی فائل فوٹو۔

ماسکو: روس نے کہا کہ گزشتہ روز ترکی کی جانب سے اس کے فوجی طیارے کو مارگرانے کا واقعہ بظاہر باقاعدہ منصوبہ مندی کا حصہ لگتا ہے جس کا مقصد اشتعال دلانا ہے تاہم دونوں ممالک میں جنگ نہیں چھڑنے جارہی۔

روسی وزیر خارجہ سرگے لاروف نے ترک ہم منصب سے گفتگو کے بعد کہا کہ ہمیں اس بات پر شدید شبہات ہیں کہ یہ منصوبہ مندی کے بغیر کیا گیا حملہ تھا، یہ پلاننگ کے ساتھ کی گئی اشتعال انگیزی محسوس ہوتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہمارا ترکی کے ساتھ کسی جنگ میں ملوث ہونے کا کوئی ارادہ نہیں، ہمارا ترک عوام کی جانب رویہ تبدیل نہیں ہوا تاہم ماسکو انقرہ کے ساتھ اپنے تعلقات پر نظرثانی کرے گا۔

یہ بھی پڑھیں: شام میں کارروائی: روس کومشروط حمایت کی پیشکش

ان کا کہنا تھا کہ ایسے حملے کسی صورت قابل قبول نہیں۔

خیال رہے کہ گزشتہ روز ترکی نے فضائی حدود کی مبینہ خلاف ورزی پر شامی سرحد کے قریب روس کا ایک جنگی طیارہ مار گرایا۔

روسی وزارت دفاع نے بیان میں ایک لڑاکا طیارہ SU-24 شام کی سرحد پر گرنے کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ جہاز کے تباہ ہونے سے قبل پائلٹ باحفاظت اس سے نکل چکے تھے۔

قطری ٹی وی الجزیرہ نے عینی شاہدین کے حوالے سے بتایا کہ ترک حکام نے پائلٹ کو حراست میں لے لیا۔

روسی خبر رساں ادارے آر ٹی نےترک فوج کے حوالے سے بتایا کہ طیارے کو نشانہ بنانے سے قبل 10 بار وارننگ دی گئی۔ 5 منٹ تک ہر 30 سیکنڈ بعد وارننگ کے باوجود فضائی خلاف ورزی پر دو F-16 طیاروں نے اسے نشانہ بنایا۔

مزید پڑھیں: ترکی نے پیٹھ میں خنجر گھونپا، روسی صدر

واقعے کے بعد روسی صدر ولادمیر پیوٹن نے اسے ترکی کی جانب سے ’ پیٹھ میں خنجر گھونپنے‘ سے تعبیر کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ واقعہ کے ماسکو-انقرہ تعلقات پر ’سنگین نتائج‘ مرتب ہوں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ترک طیارے کے حملے میں گرنے والا روسی جٹ شامی علاقے پر پرواز کر رہا تھا اور وہ کسی صورت ترکی کیلئے خطرہ نہیں تھا‘۔

دوسری جانب، ترک وزیر اعظم احمد داؤد اوگلو نے اپنے ردعمل میں کہا کہ اپنی سرحدوں کی کسی خلاف ورزی پر کارروائی ان کی ذمہ داری ہے۔

’ سب کو پتہ ہونا چاہئے کہ کسی بھی جانب سے فضائی یا زمینی سرحدوں کی خلاف ورزی پر کوئی بھی قدم اٹھانا ہماری قومی ذمہ داری اور عالمی حق ہے‘۔

ادھر، امریکی دفاعی حکام نے واضح کیا ہے کہ اس واقعہ میں وہ ہرگز ملوث نہیں۔

واضح رہے کہ دو ماہ قبل روس بھی شام میں جاری جنگ میں شامل ہوا جہاں ابتداء میں اس نے بشار الاسد کے خلاف بغاوت کرنے والے گروہوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا، تاہم عالمی تنقید کے بعد روس نے داعش کو بھی نشانہ بنانا شروع کیا۔

ادھر فرانس کے صدر فرانسکو اولاندے سے وائٹ ہاؤس میں ملاقات کے بعد امریکی صدر براک اوباما کا کہنا تھا کہ امریکا شام میں داعش کے دہشت گردوں سے لڑنے کے لیے روس کی حمایت کرسکتا ہے۔

تاہم مذکورہ آپریشن میں امریکی حمایت حاصل کرنے کے لیے ماسکو کو اپنی توجہ شامی حکومت کو اقتدار میں رہنے کے لیے مدد دینے کے بجائے صرف داعش کو ختم کرنے پر مرکوز کرنا ہوگی۔

روسی جنگی طیارے کو مار گرائے جانے کے واقعے کے بعد فرانس اور امریکا کی مشکلات میں اضافہ ہوگیا ہے۔

فرانس چاہتا ہے کہ امریکا، شام میں روس کے فوجی ایکشن کی حمایت کرے لیکن ترکی کے ساتھ روس کی جاری کشیدگی کے سبب واشنگٹن کے لیے روس کی حمایت کرنا مشکل ہوگیا ہے۔

یاد رہے کہ فرانس اور امریکا کی طرح ترکی بھی نیٹو کا حصہ ہے اور معاہدے کے مطابق انہیں روس کے مقابلے میں ترکی کی حمایت کرنی ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں