مقامی انتخابات جمہوریت کیسے مضبوط کرتے ہیں؟

26 نومبر 2015
مقامی انتخابات لوگوں کی سماجی تربیت اور جمہوریت کی مضبوطی کے لیے بہترین لیبارٹری کا درجہ رکھتے ہیں۔ — AFP/File
مقامی انتخابات لوگوں کی سماجی تربیت اور جمہوریت کی مضبوطی کے لیے بہترین لیبارٹری کا درجہ رکھتے ہیں۔ — AFP/File

میرا کزن جنوبی پنجاب کے ایک دیہی حلقے سے یونین کونسل کے انتخابات میں حصہ لے رہا ہے۔ یہ ہمارے گھرانے کا سیاست میں پہلا قدم ہے۔

پچھلے چند سالوں میں میں نے جنوبی ایشیاء میں انتخابی جمہوریت کو ہمیشہ تنقید کی نظر سے ہی دیکھا ہے۔ جیسا کہ ہمارے پاس عام طور پر کہا جاتا ہے:

"جہاں لوگوں کو کھانے کو چیزیں میسر نہیں، وہاں ووٹ کے حق کی کسے فکر ہے؟"

ان پڑھ عوام کرپٹ سیاستدانوں کو مزید دولت کمانے کا موقع دیتے ہیں۔ الیکشن غریبوں کو تو کوئی فائدہ نہیں پہنچاتے لیکن پہلے سے طاقتور شخص مزید طاقتور ہوجاتا ہے۔

گذشتہ سالوں میں ماہرینِ سیاست نے سرپرستانہ سیاست، ووٹ بینک اور برادری نظام جیسے الفاظ استعمال کر کے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ جنوبی ایشیاء میں انتخابات اتنے 'جمہوری' نہیں ہوتے جتنے لبرل جمہوری ممالک میں ہوتے ہیں، جہاں مانا جاتا ہے کہ ہر ووٹر کو اپنے نمائندے کے انتخاب کا انفرادی حق حاصل ہوتا ہے۔

تو میں نے جنوبی پنجاب کے معاشی طور پر مستحکم اور سماجی طور پر نمایاں تین دیہاتوں اور 20،000 ووٹروں پر مشتمل اس حلقے میں لڑے جانے والے الیکشن سے یہ سیکھا ہے:

برادری سے فرق پڑتا ہے

لیکن اتنے سیدھے انداز میں نہیں جس کا زیادہ تر مبصرین کو خوف ہوتا ہے۔ میرے کزن آرائیں اور اعوان برادری کے اتحاد پر انتخاب لڑ رہے ہیں مگر ان کے ایک اور مخالف آرائیں برادری سے تعلق رکھتے ہیں، اس لیے انہیں ان کے ووٹ اپنے نام کرنے کے لیے کافی محنت کرنی پڑے گی۔

کسی بھی انتخابات میں مجموعی شناختیں جیسے نسل، طبقہ، قومیت، مذہب وغیرہ بہت اہمیت رکھتی ہیں، اور دیہی پنجاب، جہاں آپ کو ضرورت پڑنے پر ریاست یا سول سوسائٹی کے بجائے آپ کی برادری سب سے پہلے آپ کی مدد کو پہنچتی ہے، وہاں پر یہ قابلِ فہم کے لوگ برادری کی بنیاد پر ووٹ کریں۔

ووٹ بینک موجود ہیں مگر وہ ووٹ اتنے پکے نہیں ہوتے جتنا کہ اس لفظ سے لگتا ہے۔ میرے کزن آخر تک بہت پریشان تھے بھلے ہی ان کو مقامی طور پر بااثر گھرانوں اور اپنے حلقے کی دو مقامی برادریوں کی حمایت حاصل تھی، لیکن انہیں لگتا تھا کہ یہ حمایت اچانک غائب بھی ہو سکتی ہے اس لیے وہ آخر وقت تک مہم چلاتے ہی رہے۔

ہاں اس الیکشن میں سرپرستی اہمیت رکھتی ہے لیکن یہ اتنا برا بھی نہیں ہے جتنا کہ آپ سوچتے ہیں۔ مہم نے ہمارے گاؤں میں سماجی مراتب کو بدل کر رکھ دیا ہے۔ امیدوار جو عام طور پر بااثر گھرانوں سے ہیں، انہیں اب پسماندہ لوگوں کے ووٹ حاصل کرنے کے لیے عاجزی اختیار کرنی پڑتی ہے اور یہ کوئی آسان کام نہیں ہے۔

یہ ووٹر، جو اپنے مویشیوں کے چارے سے لے کر اپنے بچوں کے عید کے کپڑوں تک کے لیے اپنے 'بڑوں' کی سخاوت کے منتظر رہتے ہیں، ووٹ کی اہمیت اچھی طرح جانتے ہیں۔

میں نے ایک امیدوار کی اہلیہ کو کہتے سنا "میں اس منحوس الیکشن کے ختم ہونے تک کا انتظار نہیں کر سکتی۔ نچلی ذاتیں بھی اتنی اکھڑ مزاج ہوگئی ہیں، وہ ہمیں اپنی ماضی کی بے عزتیاں یاد دلا رہی ہیں اور ہم سے کھلے بندوں ہر طرح کی فرمائشیں کر رہی ہیں۔"

مجھے لگتا ہے کہ جنوبی ایشیاء کے سب سے ذہین ووٹر معاشی طور پر پسماندہ لوگ ہی ہوتے ہیں، اور وہ اسے اپنی بھرپور استطاعت کے مطابق استعمال کرتے ہیں۔

میرا کزن ایک پرہیزگار شخص ہے جو اچھا خاصہ وقت تبلیغی جماعت کو دیتا ہے۔ شروعات میں اس کی انتخابی مہم میں تقاریر تھوڑی تبلیغی قسم کی ہوتی تھیں، لیکن بعد میں اسے مشورہ دیا گیا کہ وہ یہ بتائے کہ لوگوں کی مدد کس طرح کرے گا کیونکہ وہ امامِ مسجد کے لیے انتخاب نہیں لڑ رہا بلکہ لوگوں کے مسائل حل کرنے کے لیے لڑ رہا ہے۔

ووٹرز نے اس کی ایمانداری اور پرہیزگاری کی تعریف کی لیکن اس سے پہلے وہ یہ جاننا چاہتے تھے کہ کیا وہ مقامی عدالتوں میں سالوں سے پھنسے ہوئے ان کے مقدمات میں ان کی کوئی مدد کر سکتا ہے یا نہیں یا پھر ان کے ڈیروں تک پکی سڑک تعمیر کروا سکتا ہے یا نہیں۔

خواتین اہمیت رکھتی ہیں

میرے کزن کی مہم کے عوامی چہرے پر مکمل طور پر مرد چھائے ہوئے تھے۔ ہر پوسٹر پر برادری کے بااثر مرد ارکان کی تصویریں تھیں۔ ایک پوسٹر پر تو مجھے کم از کم ابتداء میں تو سخت غصہ آیا۔ اس میں خاندان کے تمام حمایت کنندگان کی اور ایک دوسرے بچے کے شیر خوار بچے کی بھی تصویر تھی لیکن کسی عورت کی نہیں۔

پر اگر آپ جنوبی پنجاب کی دیہی زندگی کے بارے میں جانتے ہیں تو آپ نہایت بے وقوف ہوں گے اگر آپ یہ سوچتے ہیں کہ عورتوں کی تصویریں پوسٹر پر ہوں گی، جب تک کہ وہ خود انتخاب نہ لڑ رہی ہوں۔

لیکن ایسا نہیں ہے کہ اس سے خواتین کی انتخابات میں اہمیت کم ہوجاتی ہے۔ مجھے بتایا گیا کہ آخر میں فیصلہ صرف انہی کے ووٹ سے ہوتا ہے۔

خواتین بھرپور مہم چلا رہی تھیں اور مختلف امیدواروں کو ووٹ دینے کے فوائد پر بات کر رہی تھیں، لیکن یہ سب کچھ چوک چوراہے کے بجائے گھروں میں ہو رہا تھا۔ مجھے امید ہے کہ مستقبل میں مزید خواتین یہ انتخابات لڑیں گی لیکن ہمیں اس وقت یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ انتخابات میں خواتین کی اہمیت نہیں ہوتی۔

مقامی انتخابات لوگوں کی سماجی تربیت اور جمہوریت کی مضبوطی کے لیے بہترین لیبارٹری کا درجہ رکھتے ہیں۔ میں اس نتیجے پر ہچکچاتے ہوئے پہنچی ہوں کیونکہ مقامی انتخابات پاکستان میں آمرانہ حکومتوں کے بہترین آلے کے طور پر بدنام ہیں۔

ان انتخابات میں حصہ لینے والا ہر شخص باقاعدہ سیاستدان نہیں ہوتا۔ یہ دیکھ کر بہت خوشی ہوتی ہے کہ ایک عام شخص گھر سے نکل کر لوگوں میں بولنے کے اپنے خوف پر قابو پاتا ہے، دیہاتیوں کے سامنے تقریر کرتا ہے اور ان کی اجتماعی زندگی بہتر بنانے کے وعدے کرتا ہے۔

انتخابات لڑنے والوں کو مہم چلانے کے مشکل کام میں مہارت حاصل کرنی پڑتی ہے۔ وہ مہم کے اخراجات کے بارے میں معلومات حاصل کرتے ہیں، اور شاید انتخابات میں سب سے بڑا خرچہ پوسٹرز چھپوانا اور لوگوں کو کھانا کھلانا ہی ہوتا ہے۔

انہیں پولنگ اسٹیشن مانیٹر کرنے اور جعلی بیلٹ پر نظر رکھنے کی تربیت بھی ملتی ہے، تو ووٹروں کو تحرک دینے کی بھی۔ ایک محنتی مگر زبان کی تیز کزن کو مہم سے دور کر دیا گیا تھا کیونکہ وہ ووٹروں کو اکٹھا کرنے کے بجائے انہیں دور کر رہی تھی۔

ہم انتخابات سے غیر حقیقی امیدیں وابستہ کر کے یہ سمجھتے ہیں کہ انتخابات قوم کی تقدیر بدل دیں گے، اور جب ایسا نہیں ہوتا تو ہم اپنا سارا غصہ جمہوریت پر نکالتے ہیں۔

میرے دیہات کے یونین کونسل انتخابات لوگوں کی تقدیر نہیں بدلیں گے، مگر انہوں نے مجھے یہ ضرور سکھایا ہے کہ اگر تھوڑی ہی دیر کے لیے سہی، انتخابات سے پسماندہ اور بے اختیار لوگوں کو اختیار ملتا ہے، تو اس سے کئی لوگوں میں نئی روح بیدار ہوتی ہے اور ان لوگوں کو اس مہذب سول سوسائٹی کے قیام کی جانب بڑھتے دیکھنا اچھا لگتا ہے جس کے خواب ہم سب دیکھتے ہیں۔

انگلش میں پڑھیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں