اسلام آباد/ گجرات: تقریباً 50 پاکستانی پناہ گزینوں کو ناروے سے بے دخل کردیا گیا۔

ناروے کے سفیر تورے نیدریبو نے اپنے بیان میں کہا کہ مزید پناہ گزینوں کو بھی جلد ہی ان کے اپنے ملک یا روس واپس بھیج دیا جائے گا کیونکہ ناروے کی حکومت نے پناہ گزینوں کے لیے سخت قوانین متعارف کروادیئے ہیں۔

400 سے زائد پاکستانی شہریوں نے رواں سال کے دوران ناروے میں پناہ کے لیے درخواست دی، جن میں سے زیادہ تر نے گذشتہ ماہ ناروے-روس سرحد پار کی۔

دیگر یورپی ممالک کی طرح ناروے میں بھی پناہ گزینوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے، ایک اندازے کے مطابق 2015 میں ناروے آنے والے پناہ گزینوں کی تعداد 30 ہزار سے 40 ہزار کے درمیان رہی۔

نارویجین حکام تصور کرتے ہیں کہ حال ہی میں سرحد پار کرنے والے زیادہ تر افراد سول جنگ یا ظلم و ستم کے باعث فرار نہیں ہورہے، رواں برس خزاں میں ناروے آنے والے زیادہ تر افراد کا تعلق شام سے تھا، جبکہ اب زیادہ تر تعداد افغانستان اور پاکستان سے ہے، جن میں سے زیادہ تر بغیر خاندان کے نوجوان مرد ہیں۔

نارویجین سفیر کے مطابق،"ان میں سے چند تحفظ کے حقدار ہیں اور وہ ناورے پر غیر ضروری بوجھ ڈال رہے ہیں"۔

گذشتہ ہفتے اوسلو کی جانب سے منظور کی گئیں قان ساز ترامیم کے ذریعے حقیقی پناہ گزینوں کی جلد از جلد اُن کے اپنے ملک یا ان کے رہائشی ملک میں واپسی اور تحفظ فراہم کرنے کی ضرورت پر زور دیا گیا۔

نئی قانون سازی کے تحت وہ پناہ گزین جن کی درخواستوں پر حکام کی جانب سے عملدرآمد کیے جانے کا امکان نہیں ہے، انھیں گرفتار یا ریمانڈ میں لیا جاسکے گا یا انھیں حکام کو رپورٹ کرنے یا کسی مخصوص جگہ پر رہنے کا بھی حکم دیا جاسکتا ہے۔

اس طرح پناہ گزینوں کو ملنے والے فوائد بھی کم کردیئے گئے جبکہ فیملی امیگریشن کے قوانین بھی سخت کردیئے گئے۔

صوبہ پنجاب کے ڈسٹرکٹس گجرات، منڈی بہاؤالدین، جہلم، سیالکوٹ اور گجرانوالہ وہ علاقے ہیں،جہاں سے سب سے زیادہ لوگوں نے ناروے سمیت یورپی ممالک میں پناہ کی درخواست دی، جبکہ ناروے میں مقیم 40 ہزار پاکستانیوں میں سے 30 ہزار صرف ڈسٹرکٹ گجرات سے تعلق رکھتے ہیں۔

ڈان سے بات کرتے ہوئے نارویجین سفارت خانے کے اتاشی (مائیگریشن) توربن کالاند نے بتایا، " 20 سے 30 کے قریب پاکستانیوں کو گذشتہ چند ہفتوں کے دوران ناروے سے بے دخل کیا گیا، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ناروے میں غیر قانونی طور پر داخل ہونے والوں کی تعداد میں اچانک اضافہ ہوگیا ہے"۔

ان کا کہنا تھا زیادہ تر لوگ جنھوں نے ناروے-روس سرحد پار کی، ان کے پاس روس کا ویزہ موجود تھا،جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان لوگوں نے روس کا قانونی سفر کیا لیکن ناروے -روس سرحد غیر قانونی طور پر پار کی۔

ان کا مزید کہنا تھا، "ہم نے تمام صورتحال اور نئی پالیسی سے اسلام آباد میں روسی سفارت خانے کو آگاہ کردیا ہے"۔

ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا، عمومی طور پر زیادہ تر لوگ جو غیر قانونی طور پر بارڈر کراس کرتے ہیں، اپنے پاسپورٹ ضائع کردیتے ہیں، لیکن ناروے-روس سرحد پار کرنے والے تمام لوگوں کے پاس دستاویزات موجود تھیں۔

ان کا کہنا تھا، "ناروے-روس کی سرحد پر فوج تعینات ہوتی ہے، لہذا پاکستانی شہری ایسے علاقوں میں بغیر دستاویزات کے سفر کرنے کا خطرہ مول نہیں لے سکتے، لہذا وہ اپنے ساتھ پاسپورٹس اور دیگر شناختی دستاویزات رکھتے ہیں۔

انھوں نے مزید کہا، "ہم یقینی طور پر پاکستان سے لوگوں کو روس کے سفر سے نہیں روک سکتے لیکن ہم بغیر ویزے کے سفر کرنے والوں کی تعداد میں کمی کے حوالے سے تمام امکانات پر غور کریں گے۔"

فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (امیگریشن) کے ڈائریکٹر انعام غنی نے ڈان کو بتایا کہ وہ جانتے ہیں کہ لوگ ناروے سے روس جانے کی کوشش کر رہے ہیں تاہم انھوں نے دعویٰ کیا کہ وہ قانونی دستاویزات کے ساتھ روس جارہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ فی الوقت دو طرح کے لوگ روس جارہے ہیں، کچھ لوگ وزٹ ویزہ پر جارہے ہیں جبکہ دیگر اسٹوڈنٹ ویزہ پر، ہم انھیں قانونی دستاویزات پر سفر کرنے سے نہیں روک سکتے۔

انھوں نے کہا کہ میرا خیال ہے کہ ناورے کو یہ مسئلہ روس کے ساتھ اٹھانا چاہیے اور اپنے سفارت خانے پر ویزہ پالیسی تبدیل کرنے پر زور دینا چاہیے۔

تبصرے (2) بند ہیں

Jawad Nov 27, 2015 02:41pm
It's shameful for sitting govts that they could not provide jobs to younger generation and encourging them to leave their dear ones in search of bread and get humiliation on foreign land in return.
Haider Shah Nov 27, 2015 05:26pm
If the Government build on Serving the prosperity & well being of their national than only thick head explorer illegal opportunity. Otherwise another opportunity of FIA to suck more milk from them.