چِٹوڑی: حکمران خاندان کا شہرِ خموشاں

27 نومبر 2015
میرپورخاص سے 22 کلومیٹر سندھ کے حکمران خاندان تالپور کے چٹوڑی قبرستان سے کچھ روایات بھی جڑی ہوئی ہیں— فوٹو لکھاری
میرپورخاص سے 22 کلومیٹر سندھ کے حکمران خاندان تالپور کے چٹوڑی قبرستان سے کچھ روایات بھی جڑی ہوئی ہیں— فوٹو لکھاری

سندھ میں جیسے ہی کلہوڑا خاندان کی حکمرانی کا سورج غروب ہوا تو تالپور گھرانے کی حکمرانی کا سورج طلوع ہوگیا۔ سندھ میں کلہوڑا خاندان کا عہد حکومت 1700 سے شروع ہوا جو کہ 1782 تک جاری رہا۔ اس کے بعد حکومت کی باگ ڈور تالپور خاندان کے ہاتھ میں آ گئی۔

میر علی مراد خان تالپور نے 1806 میں میرپورخاص کا شہر تعمیر کروایا، اسی لیے انہیں “بانی میرپورخاص” کہا جاتا ہے۔ میروں کی حکمرانی کے زمانے میں یہ علاقہ “سرکار میرپور” کہلاتا تھا۔ میر شیر محمد خان تالپور سندھ کے آخری تالپور حکمران تھے۔

1843 میں انگریزوں نے تالپوروں سے ہی اقتدار چھینا تھا۔ مگر اب سندھ کے ان حکمرانوں کے قصے ہمیں یا تو تاریخ کی کتابوں میں پڑھنے کو ملتے ہیں یا پھر ان کے مزار دیکھ کر انہیں یاد کیا جاتا ہے۔

میر ٹھارو خان تالپور

میر ٹھارو خان میرپورخاص کے حکمران خاندان کے سربراہ تھے۔ تالپوروں نے 1783 میں ہالانی والی جنگ میں کلہوڑا خاندان کو شکست دی اور سندھ کے حکمران بن گئے۔ اس وقت میر ٹھارو خان نے میرپور سے حکومت کے باگ ڈور چلانے کا فیصلا کیا۔ انہوں نے ریگستان کی زمینیں بھی اپنے قبضے میں کر لیں۔ میر ٹھارو خان 1829 میں وفات پا گئے۔ جس کے بعد اس ریاست کے نئے سربراہ میر علی مراد خان ہوئے۔

میر علی مراد خان تالپور
— فوٹو لکھاری
— فوٹو لکھاری

میر علی مراد خان کو اقتدار 1829 میں ملا۔ مگر وہ اپنے اقتدار کے آٹھ برس بعد 1837 میں وفات پا گئے تھے۔

ڈاکٹر مبارک علی اپنی کتاب “سندھ کی سماج اور ثقافت تاریخ” میں لکھتے ہیں کہ “میرپور تیسری سندھی ریاست کا درالحکومت، میرپور حیدرآباد سے مشرق کی جانب تقریبا پینتالیس میل دور ہے۔ اس کشادہ شہر میں تقریبا 10 ہزار لوگ ہیں۔ میرپور کے گرد و نواح کے علاقے دریائے گونی اور دریائے نلاہ سے نکالی گئی نہروں سے کاشت کیے جاتے ہیں۔ جیسلمیر سے آنے والی شاہراہ اعظم میرپور سے گزرتی ہےاور علی مراد اس پر افیون کی چونگی وصول کرتا ہے، گو کہ اسے اس کا قانونی طور پہ حق حاصل ہے مگر یہ کام حیدرآباد کے میروں کے نزدیک گھناؤنا جرم ہے”۔

میر شیر محمد خان تالپور
— فوٹو لکھاری
— فوٹو لکھاری

میر شیر محمد خان تالپور خاندان کے آخری حکمران تھے۔ وہ میر علی مراد خان کے بیٹے تھے، جنہیں “شیر سندھ” بھی کہا جاتا ہے۔ ان کے اقتدار کا زمانہ 1837 سے شروع ہوا اور 1843 تک رہا۔ اس زمانے میں چونکہ انگریز سندھ میں داخل ہو چکے تھے اور تالپور حکمرانوں کے پاس جو فوجی لشکر تھا، اس میں بلوچ قوم کے کافی لوگ شامل تھے۔ جس میں ایک باقاعدہ اور دوسرا سرداری لشکر تھا۔باقاعدہ فوج کو ایک جرمن نسل کے مسٹر سئمسن تربیت دیا کرتے تھے۔

تربیت کے لحاظ سے میر صاحب کا توب خانہ، سندھ کے باقی تمام حکمرانوں کے توب خانوں سے بہتر تھا۔ باقاعدہ لشکر کے سوار کو کھانے پینے سمیت تیس روپے ماہانہ ملتے تھے۔ چونکہ حیدرآباد کے تالپور حکمرانوں نے انگریزوں سے ایسے معاہدے کر رکھتے تھے اس وجہ سے اس کا اثر میرپورخاص کے حکمران میر شیر محمد خان پہ بھی ہوا۔ اور ان کے ہاتھوں سے بھی اقتدار ریت کی مانند بہہ گیا۔

میرپورخاص سے 22 کلومیٹر کے فاصلے پر اب ایک ایسا شہر خموشاں موجود ہے جو کہ حکمران خاندان کا قبرستان کہلاتا ہے۔

یہاں پر سندھ کے حکمران تالپور خاندان کے مزار ہیں۔ اس قبرستان کو چٹوڑی قبرستان کہا جاتا ہے۔ چٹوڑی نام سے کچھ روایات بھی جڑی ہوئی ہیں۔

چند روایات

ایک روایت کے مطابق یہاں پہ کسی زمانے میں ایک جھیل ہوا کرتی تھی، جس میں چٹی (ایک جلد کی بیماری) کے مریض اس جھیل میں نہایا کرتے تھے، جہاں سے انہیں شفا ملتی تھی۔ اسی طرح اس مرض میں مبتلا کئی مریض جھیل کا رخ کرتے تھے اور وہاں سے صحتیاب ہوکر روانا ہوتے تھے۔ اس کے بعد چٹی سے اس قبرستان کا نام چٹوڑی پڑ گیا۔

— فوٹو لکھاری
— فوٹو لکھاری
— فوٹو لکھاری
— فوٹو لکھاری
— فوٹو لکھاری
— فوٹو لکھاری

قبرستان کے بارے میں معلومات فراہم کرنے لیے میرے گائیڈ، مخلص محمد بخش خاصخیلی اور گل محمد کلہوڑو تھے۔ مخلص خاصخیلی کا کہنا ہے کہ اس قبرستان پہ یہ نام قبروں اور مقبروں پہ کئے جانے والی نقش و نگار کی وجہ سے پڑا۔ سندھی میں اس قسم کے نقش و نگار کو چٹ کہا جاتا ہے۔ اور جو چٹسالی ان مزاروں پہ کی گئی ہے اس کے پسمنظر میں اسے یہ نام دیا گیا ہے۔

مگر ایک اور روایت کے مطابق یہ نام اس وقت کے تین دوستوں کی وجہ سے ملا جنہوں نے اپنے مرنے کے بعد اس جگہ پہ دفن ہونے کی خواہش ظاہر کہ تھی۔ جسے “چٹ کا میدان” کہا جاتا تھا۔

ویسے تو یہ قبرستان 62 ایکڑ میں پھیلا ہوا ہے مگر ہمارے ہاں قبرستانوں پر بھی جو قبضے کی روایت ہے اس کے بعد اس کا رقبہ سکڑ گیا ہے۔ مزاروں میں جس پتھر کا استعمال کیا گیا ہے وہ پرانے زمانے میں آگرہ اور جیسلمیر سے برآمد کیا جاتا تھا۔ جسے پیلا پتھر کہا جاتا ہے۔ مکلی کے قبرستان میں جو پتھر استعمال کیا گیا ہے یہ پتھر بھی اس سے مشابہت رکھتا ہے۔

— فوٹو لکھاری
— فوٹو لکھاری
— فوٹو لکھاری
— فوٹو لکھاری
— فوٹو لکھاری
— فوٹو لکھاری

ہر مزار کے الگ الگ نقش و نگار بنائے گئے ہیں۔ جنہیں دیکھ کر لگتا ہے کہ یہ اپنے زمانے کی فن تعمیر کے شاہکار ہیں۔ ان میں نہ صرف مختلف نمونے بنائے کئے ہیں بلکہ فارسی زبان میں چند عبارات بھی تحریر کی گئی ہیں۔ ہر مزار کے اوپر ایک گنبذ بنایا گیا ہے۔

قبروں کو بھی اسی پتھر سے تیار کیا گیا ہے جس سے مزار تعمیر کیا گیا ہے۔ مگر اب ان میں سے کافی قبریں خستہ حال ہو چکی ہیں۔ کچھ مزاروں پہ کاشی کا کام بھی نظر آتا ہے مگر کافی وقت گزرنے کے بعد اب کاشی کی بنی ہوئی اینٹیں اکھڑ گئی ہیں۔

— فوٹو لکھاری
— فوٹو لکھاری
— فوٹو لکھاری
— فوٹو لکھاری
— فوٹو لکھاری
— فوٹو لکھاری

ان مزاروں کو بناتے وقت پتھر کی جالیاں بھی بنائی گئی ہیں اور مزار کی ہر دیوار پہ الگ الگ نقش بنائے گئے ہیں تاکہ مزار یکسانیت کا شکار نہ ہوں۔ ہر گنبذ کو سفید رنگ سے سجایا گیا ہے۔ مزاروں کے اندر اور باہر جو نقش و نگار بنائے گئے ہیں وہ الگ الگ ہیں۔ گنبذ کے اندرونی حصے پر بھی الگ ڈیزائن بنائے گئے ہیں جب کہ اندرونی دیواریں اور کونوں پر بھی عالیشان قسم کی کاریگری نظر آتی ہے۔ مگر اب ان مزاروں کے در و دیوار اکھڑ رہے ہیں۔ باہر کی خوبصورتی تو کچھ قائم ہے مگر اندر کی ماند پڑ گئی ہے۔

— فوٹو: لکھاری
— فوٹو: لکھاری
— فوٹو لکھاری
— فوٹو لکھاری
— فوٹو لکھاری
— فوٹو لکھاری

جب کہ ایک مزار میں سندھ کے اسی حکمران خاندان کے تمام افراد مدفوں ہیں، جس میں تالپور دؤر کے پہلے حکمران سے لے کر آخری حکمران تک سب مدفوں ہیں۔ ان تمام قبروں کو سنگ مرمر اور اینٹوں سے پکا کیا گیا ہے۔ ان میں پیلے پتھر کا استعمال نہیں کیا گیا۔ چونکہ یہی قبرستاں تالپور حکمران خاندان سے قبل قائم تھا، اس لیے اس میں ہمیں عام لوگوں کی قبریں بھی دکھائی دیتی ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق یہ قبرستان 400 سال پرانا ہے۔

قبرستان میں ہندوؤں کو دفنانے کا سلسلہ بھی کافی عرصے سے چلا آ رہا ہے۔ اور آج بھی کئی ہندو خاندان اپنے آبا و اجداد کو دفن کرتے آ رہے ہیں۔ بلکہ کافی مقامات پر سندھ میں ہندو مسلم قبرستان ساتھ ساتھ ہیں۔

— فوٹو لکھاری
— فوٹو لکھاری
— فوٹو لکھاری
— فوٹو لکھاری
— فوٹو لکھاری
— فوٹو لکھاری

یہاں ہمیں لنجوانی برادری کی ایک ساتھ کئی قبریں نظر آئیں، جہاں پہ ہر سال اسی برادری سے تعلق رکھنے والے عقیدت مند آتے ہیں اور چھوٹے پیمانے پہ میلے کا سماں ہوتا ہے۔ مگر عام لوگ یہاں شاذ و نادر ہی آتے ہیں۔

کچھ سال قبل اس قبرستان کو قومی ورثہ قرار دیئے جانے کے بعد سندھ حکومت کے سیاحت اور ٹؤرزم ڈپارٹمنٹ نے اسے مرمت کرانے کی ذمہ داری اٹھائی ہے، جس کے بعد قبرستان میں مزاروں کی مرمت کا سلسلہ جاری ہے۔ گو کہ اس کی مرمت میں پیلے پتھر کا ہی استعمال کیا جا رہا ہے مگر وہ اصلی پتھر سے کافی مختلف نظر آتا ہے۔ لیکن یہ بھی بہتر عمل ہے کہ قبرستان کی مرمت کا کام شروع ہو چکا ہے۔

— فوٹو لکھاری
— فوٹو لکھاری
— فوٹو لکھاری
— فوٹو لکھاری
— فوٹو لکھاری
— فوٹو لکھاری

جنگ میانی میں انگریزوں کے ہاتھوں 1843 میں شکست کھانے کے بعد اب ہمیں اس حکمران خاندان کے صرف مقبرے ہی دکھائی دیتے ہیں۔ چٹوڑی قبرستان سے واپسی کے لمحات میں، میں نے سوچا کہ انسان چاہے حکمران ہو یا عام آدمی مگر مرنے کے بعد وہ منوں مٹی تلے دب جاتا ہے اور اگر اسے کوئی یاد کرتا ہے تو شاندار مقبروں کی وجہ سے نہیں بلکہ زندگی میں کیے جانے والوں ان کاموں کی وجہ سے جن سے انسانیت کی فلاح و بہبود ہوئی ہو۔

حوالہ جات:

کتاب: سندھ کی سماجی اور ثقافتی تاریخ- ڈاکٹر مبارک علی، پبلشر- فکشن ہاؤس

کتاب: جنگ میانی (سندھی) – قادر بخش نظامانی، پبلشر- بلوچ ادبی سوسائٹی

کتاب: خیرپور ریاست (سندھی) – مرزا قلیچ بیگ، پبلشر- روشنی پبلیکیشن

ضرور پڑھیں

تبصرے (6) بند ہیں

Muhammad Abid Bhatti Nov 27, 2015 09:28pm
Sir, Thanks Again for sharing the history. Please also carry out work on Hyderabad Mir's and Kalhora's Tomb, Kacha Qila, Packa qila, Noor Muhammad High School, Ladies club, Sindh Museum Hyderabad, Rani Bagh and other historical buildings Thanks
samo Shamshad Nov 27, 2015 10:22pm
Nice information about Talpur Rulers, this sort of cultured should be preserved. And history should be explored. it is a great effort of Mr. Akhtar Hafeez whom informed us about Sindhs Historical Grave yard.
Haider Shah Nov 27, 2015 11:11pm
Living & self explanatory evidence of brutality and suppression of other human being as Meer, Sultan, Talpoor, Malik, list goes on ....... history will crush you as you had crushed another human being. But.....Not far from SUPPRESSOR place. Shah Abdul Latif Bhittai, has no ruling power, no land, but capture the hearts of other human being and survived in millions of heart's. Why???? leave up to the all readers?
azizullah Nov 28, 2015 12:54am
I t is a great effort of Mr. Akhtar.
Ali Akash Nov 28, 2015 01:57pm
ثقافتی معلومات پر مشتمل ایک بہترین بلاگ
A Sindhi Nov 28, 2015 05:39pm
excellent work. Akhtar Hafiz