اسلام آباد: اسمارٹ فون بنانے والی کمپنی بلیک بیری لمیٹڈ نے پاکستان میں اپنی سروس بند کرنے کی مدت میں 30 دسمبر تک اضافہ کردیا.

واضح رہے کہ پاکستان ٹیلی کمیونیکشن اتھارٹی (پی ٹی اے) نے رواں برس جولائی میں بلیک بیری سے اس کی بلیک بیری انٹرپرائز سروسز (بی ای ایس) تک رسائی کا مطالبہ کیا تھا، جس میں ای میلز اور میسنجر میسجز بھی شامل تھے، دوسری صورت میں کمپنی کو اپنی سروس 30 نومبر تک بند کرنے کا کہا گیا تھا.

خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق پی ٹی اے کے چیئرمین سید اسماعیل شاہ نے ڈیڈ لائن میں ایک ماہ کی توسیع کی تجویز دی جبکہ اس کی تصدیق بلیک بیری نے بھی اپنی ویب سائٹ پر کردی.

اسماعیل شاہ کے مطابق، "ڈیٹا تک رسائی کی سطح کا معاملہ ابھی بھی زیر بحث ہے، ہم ڈیڈ لائن میں اضافہ کرسکتے ہیں اور وہ تب تک اپنا آپریشن جاری رکھ سکتے ہیں."

اس سے قبل بلیک بیری کمپنی نے 30 نومبر کے بعد سے پاکستان میں اپنا آپریشن بند کرنے کا اعلان کیا تھا.

کمپنی کے چیف آپریٹنگ آفیسر (سی او او) مارٹی بیئرڈ نے اپنے بیان میں اس کی تصدیق کی تھی.

بلیک بیری کی آفیشل ویب سائٹ پر شائع ہونے والے بیان کے مطابق "کمپنی اس مارکیٹ (پاکستان) سے بے دخل ہورہی ہے، کیونکہ پاکستان میں ہماری موجودگی، ہمارے صارفین کی رازداری کے تحفظ سے ہماری وابستگی پر اعتراض پیدا کرسکتی ہے۔"

سی او او کے مطابق، "جولائی میں پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی نے ملک کے موبائل فون آپریٹرز کو مطلع کیا کہ بلیک بیری کے بی ای ایس سرورز کو سیکیورٹی خدشات کی بنا پر دسمبر سے ملک میں آپریٹ نہیں کرنے دیا جائے گا۔"

ان کا مزید کہنا تھا، "پاکستان کی جانب سے ملک میں ہمارے صارفین کے کمیونیکشین ڈیٹا تک مکمل رسائی کے مطالبے نے ہمارے پاس کوئی چارہ نہیں چھوڑا کہ ہم مکمل طور پر یہاں سے چلے جائیں۔"

مارٹی بیئرڈ کا کہنا تھا کہ پاکستانی حکومت ملک میں بلیک بیری انٹرپرائز سروس (بی ای ایس) کے تمام ٹریفک کی نگرانی کرنا چاہتی تھی،جس میں ای میلز اور بلیک بیری میسنجر میسجز بھی شامل تھے۔

سی او او نے بیان میں کہا، "پاکستان کا مطالبہ پبلک سیفٹی کا سوال نہیں تھا، ہم قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ مجرمانہ سرگرمیوں کی تحقیقات میں تعاون کرنے پر خوشی محسوس کرتے لیکن پاکستان کی جانب سے ہمارے تمام بی ای ایس سرورز اور صارفین کی مکمل معلومات تک رسائی کا مطالبہ کیا گیا تھا۔"

'بولو بھی' کی ڈائریکٹر اور ڈیجیٹل رائٹس ایکٹوسٹ فریحہ عزیز کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ پاکستان میں صورتحال خراب تر ہوتی جارہی ہے اور وہ کمپنیز جن کے لیے ڈیٹا کی پرائیویسی اور بات چیت کی حفاظت سب سے اہم ہے، یہاں اپنی موجودگی برقرار رکھنے میں مشکلات کا شکار ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ بلیک بیری کے اس اقدام سے دیگر کمپنیاں بھی پاکستانی حکومت کی تعمیل کے سلسلے میں سول سوسائٹی آرگنائزیشن کے ریڈار پر آگئی ہیں۔ انھوں نے سوال کیا، " حقوق پہلے یا بزنس؟"

یاد رہے کہ جولائی میں پی ٹی اے نے اپنے نوٹی فیکیشن میں کہا تھا کہ " سیکیورٹی ایجنسیز کی جانب سے تحفظات کے اظہارکے باعث موبی لنک، یوفون اور ٹیلی نار سے درخواست کی جاتی ہے کہ وہ اپنے بی ای ایس صارفین کو 30 نومبر 2015 سے ان کے کنکشنز کی بندش کے حوالے سے 90 دن کا نوٹس دے دیں"۔

سیکیورٹی خدشات کی بنا پر بلیک بیری سروس کی معطلی کا پہلا نوٹس رواں برس کے آغاز میں جاری کیا گیا تھا۔

تاہم پی ٹی اے نے اپنے بیان میں واضح کیا تھا کہ میسنجر اور بلیک بیری انٹرنیٹ سروسز (بی آئی ایس) جیسی بلیک بیری سروسز جاری رہیں گی۔

پاکستان میں بلیک بیری کے 4 سے 5 ہزار صارفین موجود ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (4) بند ہیں

Khuram Murad Nov 30, 2015 06:21pm
Privacy is important, but the most important thing is the security of Pakistanis, BB should have cooperated with Pakistan because the Govt. of the Pakistan has no other choice than full access to BES under these circumstances.
Dr.Afzaal Malik Nov 30, 2015 08:23pm
کسی کی پرسنل گفتگو سننا غیراخلاقی اور غیراسلامی حرکت ہے۔ اگر حکومت پاکستان عوام کے پرسنل فون سن کر تجزیہ چاہتی ہے تو پھر ملک میں کوئی واردات ہونی ہی نہیں چاہئے کیونکہ فون پر انسان ہر قسم کی گفتگو اپنے عزیزوں‘ دوستوں‘ رشتہ داروں سے کرتا ہے۔ بلیک بیری فون کو عوام صرف اسکی قابل اعتماد سروسز کے باعث پسند کرتے ہیں۔ فرض کریں اگر بلیک بیری اپنی تمام قسم کی سروسز بند کر دیتی ہے تو اس سے ملحق لاکھوں صارفین متاثر ہونگے۔ پھر اگر دنیا کی دیگر کمپنیوں نے بھی صارفین کا پرسنل ڈیٹا پی ٹی اے کو دینے سے انکار کیا تو کیا ہم دنیا سے کٹ کے رہ جائیں گے؟؟ سب سے پہلے بتائیں کہ لاکھوں سمیں جن کی تصدیق نہیں ہوئی کیوں چل رہی ہیں؟؟ جب ایک ایس ایم ایس بھی پی ٹی اے کے فلٹرز سے چھن کے باہر آتا ہے تو اسکے علاوہ کون سی پرسنل معلومات درکار ہیں؟؟
Nizamuddin Ahmad Aali Nov 30, 2015 09:16pm
Privacy comes first. Government can not be eves dropping on others conversation, especially in Pakistan where bribe is very common and ethics has no place in society. Blackberry can lose their shirt from law suits in case some one is killed or kidnaped by leaked information ..
Dr.Afzaal Malik Dec 01, 2015 01:00am
Nizamuddin Ahmad Aali 100 % Right . i am strange Where is LAW, Law Makers and Law informent ? Why They Need LEAKED INFORMATION From Someone's Personal Mobile ? They Can Check Call And SMS Then Whey They Cannot Control Crime. اگر کسی کا پرسنل ڈیٹا چوری کرکے کسی نے غلط استعمال کر لیا اور اُس شخص یا صارف کو نقصان پہنچا تو کون ذمہ دار ہو گا؟ آجکل آپ بینک سے نکلتے ہوئے ڈرتے ہیں کوئی آپکی پرسنل انفارمیشن لیک آئوٹ نہ کر دے۔ حتیٰ کہ بینک والے آپ کو فون کرتے ہیں آپ کے اکائونٹ میں اتنی رقم ہے