'میرا صبر نوجوان نسل کے لیے مثال'

30 نومبر 2015
۔—اے ایف پی فائل فوٹو۔
۔—اے ایف پی فائل فوٹو۔

دبئی: رفعت اللہ مہمند کو پاکستان سے ڈیبیو کرنے میں 19 سال کا طویل عرصہ لگ گیا، یہاں تک کہ ایک موقع پر انہوں نے پڑوسی ملک افغانستان کے لیے کھیلنے پر غور کرنا شروع کردیا۔

تاہم پشاور کے رہائشی رفعت کے صبر کا امتحان اس وقت ختم ہوا جب انہوں نے انگلینڈ کے خلاف جاری ٹی ٹوئنٹی سیریز کے پہلے میچ میں ڈیبیو کیا اور کسی بھی ٹیسٹ میچ کھیلنے والے ملک کی جانب سے ڈیبیو کرنے والے معمر ترین کھلاڑی بن گئے۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ 'ہاں، مجھے طویل عرصے انتظار کرنا پڑا لیکن میں نے امید کا دامن نہیں چھوڑا، میرا صبر مستقبل کی نسلوں کے لیے ایک مثال ہے۔'

1996 میں فرسٹ کلاس ڈیبیو کرنے والے رفعت نے کہا کہ 'مجھے یقین ہے کہ میری سیلیکشن سے ان کھلاڑیوں کو بھی حوصلہ ملے گا جنہیں اچھی کارکردگی دکھانے کے باوجود قومی ٹیم میں کھیلنے کا موقع نہیں مل پاتا۔ انہیں اب اس بات کی تسلی رہے گی کہ ان کی اچھی کارکردگی بھی نوٹس کی جائے گی۔'

2005 کے دورہ انگلینڈ سے قبل رفعت اللہ کا پہلی مرتبہ قومی ٹیم کے لیے کھیلنے کا امکان پیدا ہوا اور انہیں سیریز کے ٹریننگ کیمپ میں شامل کیا گیا۔

تاہم رفعت اس وقت کے کوچ باب وولمر اور کپتان انضام الحق کو متاثر کرنے میں ناکام رہے جن کا موقف تھا کہ اوپننگ بلے باز کو ڈومیسٹک کرکٹ میں مزید وقت جائے اور پھر انہیں قومی ٹیم کے لیے منتخب کیا جائے۔

رفعت کا کہنا تھا کہ اس سے وہ بہت مایوس ہوئے لیکن پھر بھی انہوں نے محنت جاری رکھی۔

چار سال بعد انہوں نے عامر سجاد کے ساتھ مل کر واٹر اینڈ پاور ڈیویلپمنٹ اتھارٹی کے لیے کھیلتے ہوئے 580 رنز کی شراکت قائم کرڈالی جو فرسٹ کلاس کرکٹ میں دوسری وکٹ کے لیے عالمی ریکارڈ ہے۔

رفعت اللہ نے میچ میں کریئر بیسٹ 302 رنز بنائے۔

مہمند نے کہا کہ 'مجھے ایسا لگا کہ اس شراکت کے بعد مجھے پاکستانی ٹیم کے لیے منتخب کرلیا جائے گا تاہم جب مجھے منتخب کرنے پر غور تک نہ کیا گیا تو میں شدید مایوس ہوگیا اور سوچا کہ افغانستان منتقل ہوجاؤں۔'

انہوں نے 2009 کے عالمی کپ کوالیفائرز میں افغانستان کی نمائندگی کرنے پر غور بھی کیا تاہم قوانین کے مطابق انہیں کم از کم پڑوسی ملک میں چار سال گزارنے تھے جس کے بعد انہیں منتخب کیا جاسکتا تھا۔

رفعت اللہ نے کہا کہ 'کبیر خان (افغانستان کے اس وقت کے کوچ) چاہتے تھے کہ میں افغانستان کی نمائندگی کروں، میں بھی ایسا ہی چاہتا تھا لیکن میں وہاں کبھی نہیں رہا اس لیے افغانستان کے لیے نہیں کھیل سکا۔'

رفعت نے کہا کہ اس موقع پر انہوں نے کرکٹ چھوڑنے پر بھی غور کیا تاہم ایسا نہیں کرپائے۔

بالآخر رواں سال ستمبر میں پشاور کے لیے قومی ٹی ٹوئنٹی ٹورنامنٹ میں شاندار کارکردگی دکھاکر وہ قومی سیلکٹرز کو کی نظروں میں آگئے۔

ٹورنامنٹ کے سات میچوں میں رفعت نے 157.53 کے اسٹرائیک ریٹ سے 230 رنز بنائے اور پاکستان کی قومی ٹی ٹوئنٹی ٹیم میں منتخب ہوئے۔

تاہم رفعت کا بین الاقوامی کرکٹ میں آغاز متاثر کن نہیں رہا جہاں انہوں نے اب تک کھیلے گئے دو میچوں میں 16 اور 23 رنز ہی بنائے ہیں۔ دونوں میچز میں پاکستان کو شکست ہوئی۔

سیریز کا تیسرا اور آخری ٹی ٹوئنٹی پیر کو کھیلا جائے گا۔

تبصرے (0) بند ہیں