سعودی-ایران تعلقات کی تلخ تاریخ

اپ ڈیٹ 05 جنوری 2016
نومبر، 2007 کی اس تصویر میں سعودی فرمانروا عبداللہ بن عبدالعزیز ریاض میں دو روزہ اوپیک کانفرنس کے موقع پر ایرانی صدر محمود احمدی نژاد کا استقبال کر رہے ہیں۔— اے ایف پی
نومبر، 2007 کی اس تصویر میں سعودی فرمانروا عبداللہ بن عبدالعزیز ریاض میں دو روزہ اوپیک کانفرنس کے موقع پر ایرانی صدر محمود احمدی نژاد کا استقبال کر رہے ہیں۔— اے ایف پی

سعودی عرب نے تہران میں اپنے سفارت خانے پر حملے کے بعد اتوار کو ایران سے سفارتی تعلقات ختم کر دیے۔

سعودی عرب میں ایک مشہور شعیہ عالم شیخ نمر النمر کو سزائے موت دیے جانے کے بعد ایک مرتبہ پھر دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات میں سخت کشیدگی دیکھی جا رہی ہے۔

درج ذیل میں گزشتہ 20 سالوں میں دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کے اتار چڑھاؤ کی مختصر تاریخ موجود ہے۔

1987- مکہ

جولائی 1987 میں مکہ معظمہ میں جھڑپوں کے دوران 275 ایرانیوں سمیت 420 عازمین کی ہلاکت پر سعودی عرب اور ایران میں تقریباً ختم ہو گئے تھے۔

  • مظاہرین نے تہران میں سڑکوں پر احتجاج کرتے ہوئے سعودی سفارت خانے کا محاصرہ کیا اور کویت کی ایمبسی نذر آتش کی۔

  • سعودی سفارت کار موسی الغامدی تہران میں سفارت خانے کی عمارت کی کھڑی سے گر کر زخمی ہوئے اور بعد میں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے انتقال کر گئے۔اس موقع پر ریاض سے تہران پر الزام لگایا کہ غامدی کو سعودی عرب کے ایک ہسپتال میں شفٹ کرتے ہوئے تاخیر کی گئی۔

  • سعودی عرب کے فرمانروا شاہ فہد نے اپریل، 1988 میں ایران سے سفارتی تعلقات مکمل ختم کر دیے۔

1999- ایک اچھا دور

فرمانروا فہد نے 2001 میں الیکشن جیتنے والے ایرانی صدر محمد خاتمی کو مبارک باد دیتے ہوئے اسے خاتمی کی اصلاحاتی پالیسی کی توثیق سے تعبیر کیا۔

خاتمی نے 1997 میں پہلا الیکشن جیتنے کے بعد سعودی عرب سے مفاہمت کی کوشیں کیں جس سے 1979 میں ایرانی انقلاب کے بعد تقریباً دو دہائیوں تک دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی ختم ہوئی۔

  • خاتمی نے 1999 میں انقلاب کے بعد سعودی عرب کا دورہ کرنے والے پہلے ایرانی صدر بنے۔ دونوں ملکوں نے اپریل، 2001 میں ایک سیکیورٹی معاہدہ کیا۔

2003- علاقائی رقابت

عراق میں صدام حسین کی حکومت گرانے کیلئے ہونے والے حملے نے ملک میں شعیہ اکثریت کو مضبوط بنایا جس سے خطے میں طاقت کا توازن ایران کے پلڑے میں جھک گیا۔

  • ایران کے ایٹمی پروگرام نے ان سعودی خدشات کو بڑھایا کہ صدر محمود احمدی نژاد کی قیادت میں تہران خلیجی خطے پر اثر انداز ہونے پر بضد ہے۔

  • سعودی عرب نے جنوری، 2007 میں ایک ایرانی سفیر کو بتایا کہ تہران اپنے ایٹمی پروگرام اور عراق پر امریکا سے تنازع کی وجہ سے خلیج کو خطرے میں ڈال رہا ہے۔

2011-عرب انقلاب

سعودی عرب نے بحرین میں جمہوریت کے حق میں ہونے والے مظاہروں کو ختم کرنے کیلئے اپنے فوجی بھیجے، کیونکہ اسے خطرہ تھا کہ بحرین کی شعیہ اپوزیشن ایران سے الحاق کر لے گی۔

وکی لیکس کی جانب سے جاری ہونے والے خفیہ امریکی سفارتی مراسلوں میں کہا گیا کہ شاہ عبداللہ سمیت سعودی قیادت امریکا پر زور دیتی رہی کہ ایٹمی پروگرام پر ایران کے خلاف سخت موقف اختیار کیا جائے۔

  • سعودی پولیس اور شعیہ مظاہرین کے درمیان جھڑپوں کے بعد ریاض نے الزام لگایا کہ مشرقی صوبے میں شیخ النمر سمیت کچھ شعیہ عناصر (ایران کی مدد سے) فتنہ پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

  • واشنگٹن نے کہا کہ اس نے امریکا کیلئے سعودی سفیر کو قتل کرنے کا ایک ایرانی منصوبہ بے نقاب کیا ہے۔ اس پر ریاض نے کہا کہ تہران کو اس کی قیمت چکانا ہو گی۔

2012-پراکسی جنگیں

سعودی عرب ایران کے اتحادی شامی صدر بشار الاسد کی حکومت گرانے کی کوششیں کرنے والے باغیوں کا مدد گار بن گیا۔

ریاض نے بشار پر قتل عام اور ایران پر غاصب ہونے کا الزام لگایا، جواب میں تہران نے کہا کہ سعودی عرب دہشت گردوں کی پشت پناہی کر رہا ہے۔

مارچ، 2015: سعودی عرب نے یمن میں ایران کے اتحادی حوثی باغیوں کو اقتدار چھیننے سے باز رکھنے کیلئے فوجی کارروائی شروع کی۔

ریاض نے ایران پر اپنی ملیشیا کے ذریعے یمن میں بغاوت کرنے کا الزام عائد کیا۔ اس پر تہران نے کہا کہ سعودی بمباری سے شہری ہلاکتیں ہو رہی ہیں۔


آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں