پارلیمنٹ سے غیر حاضری کا نقصان

اپ ڈیٹ 08 جنوری 2016
لکھاری پاکستان انسٹیٹیوٹ آف لیجسلیٹو ڈویلپمنٹ اینڈ ٹرانسپیرنسی (پلڈاٹ) کے صدر ہیں۔
لکھاری پاکستان انسٹیٹیوٹ آف لیجسلیٹو ڈویلپمنٹ اینڈ ٹرانسپیرنسی (پلڈاٹ) کے صدر ہیں۔

2015 کے دوران پاکستان میں پارلیمنٹ میں کچھ اہم بہتریاں رونما ہوئیں، جن میں ممبران کی حاضری کے ریکارڈز میں شفافیت بھی شامل ہے۔ ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ قومی اسمبلی کی کمیٹیوں نے وفاقی بجٹ کا تفصیلی جائزہ بھی پیش کیا۔

ان باتوں کے باوجود ایک بڑی کمزوری پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں اور صوبائی اسمبلیوں کی کارکردگی کو ماند کرتی رہی۔ چند معزز ترین ممبران کے علاوہ باقی ممبران اسمبلی کی اسمبلی کارروائیوں میں دلچسپی بہت کم رہی، خواہ قانون سازی ہو، پالیسی بحث یا پھر انتظامیہ سے جواب طلبی ہو۔ ممبران کی عدم دلچسپی کم حاضری، غیر متاثر کن بحث، مختصر اجلاسوں سے واضح ہوتی ہے جس سے معزز ایوان آل پارٹیز کانفرنسوں جیسے فورمز میں لیے گئے فیصلوں کو بغیر کسی معنی خیز بحث کے جلد بازی میں ربر اسٹیمپ کرنے کے لیے استعمال ہوجاتے ہیں.

30 جون 2015 کو ختم ہونے والے اسمبلی کے دوسرے سال میں اجلاسوں کے شروع اور اختتام میں حاضری کا تناسب اوسطاً 21 فیصد رہا اور اجلاسوں کے بیچ میں 43 فیصد تک رہا۔ بدقسمتی سے یہ بڑھی ہوئی تعداد بھی ایوان کی کل تعداد کے نصف سے بھی کم ہے۔ یکم جنوری 2016 کو ہونے والے سینیٹ اجلاس کی شروعات میں صرف دس ممبران (نو فیصد) تھے، یہ تعداد اجلاس کے ملتوی ہونے کے وقت تک 27 یا 28 فیصد تک ہو چکی تھی۔

معمول کے طور پر اجلاسوں میں کم سے کم 25 فیصد کورم سے کم ممبران ہوتے ہیں۔ بھلے ہی کچھ جماعتیں غیر تحریری باہمی معاہدے کے تحت کورم کم ہونے کی نشاندہی نہیں کرتیں جس سے نامکمل کورم کے باوجود اجلاس بغیر وقفے یا رکاوٹ کے جاری رہتے ہیں، مگر پچھلے دو سالوں میں قومی اسمبلی کی کارروائیاں کوئی 40 مرتبہ معطل کی گئیں کیونکہ کورم پورا نہیں تھا اور کچھ ممبران نے اس کی نشاندہی کی۔ اسپیکر قومی اسمبلی اور سینیٹ چیئرمین نے کئی مرتبہ اس وقت بھی وزراء کی غیر حاضر ہونے کہ جب ان کی وزارت سے جڑے معاملات پارلیمنٹ کے حوالے ہیں، پر مایوسی کا اظہار کیا۔ سینیٹ اور صوبائی اسمبلیوں میں بھی ممبران کی حاضری کی صورتحال مختلف نہیں جو پارلیمنٹ کے معاملات سے ان کی بیزاری کو ظاہر کرتی ہے۔

ہمارے قانون سازوں کی حاضری کا ریکارڈ اتنا ناقص کیوں ہے؟

یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ پارلیمنٹ میں پالیسی پر بحث و مباحثہ بہت کم ہوتا ہے۔ پالیسیاں غور و خوض اور نظرِثانی کیے بغیر تیار کی جاتی ہیں۔ ایک اہم مثال سالانہ بجٹ کی ہے جو کسی بھی حکومت کی اہم پالیسی دستاویز ہوتا ہے اور حکومت کی سمت اور اس کی ترجیحات کو واضح کرتا ہے۔ پارلیمنٹ میں بجٹ کے مرحلے کا تجزیہ پالیسی سازی میں پارلیمنٹ کے کردار کو ظاہر کرتا ہے۔ تیرہ سالوں کے دوران قومی اسمبلی میں بجٹ پر ہر سال اوسطاً بارہ دن بحث کی گئی جبکہ ہندوستانی لوک سبھا میں یہ تعداد اوسطاً 75 دن رہی۔

پارلیمانی کمیٹیاں جو نگرانی اور جانچ پڑتال کے لیے اہم ہوتی ہیں، انہیں بجٹ کی تیاری کے مرحلے سے باہر رکھا گیا ہے جبکہ ہندوستان، کینیڈا، برطانیہ اور دیگر ممالک میں متعلقہ وزارتی کمیٹیاں بجٹ کی اسکروٹنی کرتی ہیں۔ لہٰذا قومی اسمبلی سے بجٹ پاس کروانا صرف ایک رسم ہے۔ حیران کن بات ہے کہ شاید ہی کبھی کسی ممبر نے بجٹ کی اسکروٹنی کرنے کے حق کی خلاف ورزی پر آواز اٹھائی ہو۔

آئین قومی اسمبلی کو سالانہ کم از کم 130 دن اور سینیٹ کو 110 دن اجلاس کرنے کے لیے پابند کرتا ہے۔ بہت کم ہی ایسا ہوتا ہے کہ دونوں ایوان اس سے زیادہ اجلاس کریں۔ ایک مزید بہتر حساب اجلاس کے دورانیے کو گھنٹوں کے حساب سے گننا ہے۔ گذشتہ پارلیمانی سال میں قومی اسمبلی کی کارروائی 281 گھنٹے چلی۔ کل 92 دن اجلاس ہوئے چنانچہ اوسطاً ہر روز تین گھنٹوں سے کچھ زیادہ دیر تک کارروائی چلی۔ کسی بھی معیار سے دیکھیں تو یہ کام کے کم ترین اوقاتِ کار ہیں۔

کم حاضری، پالیسیوں پر بحث کا نہ ہونا اور کم دورانیے کے اجلاس پارلیمانی امور میں ممبران کی عدم دلچسپی کا مظہر تو ہیں، مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ اراکینِ پارلیمان آرام کر رہے ہیں یا مزے کر رہے ہیں۔ پاکستانی اراکینِ اسمبلی مصروف ترین اور محنتی ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ وہ اپنے حلقے کے لوگوں کے مسائل سننے میں اپنا زیادہ وقت گزار دیتے ہیں۔ مقامی پولیس اسٹیشن، ریوینیو افسر، مقامی بیوروکریسی، روزگار، تبادلے، تعیناتی جیسے مسائل معمولی کہلائے جا سکتے ہیں لیکن غریب، ناخواندہ اور کمزور عام آدمی کے لیے یہ زندگی اور موت کا مسئلہ ہوتے ہیں۔

خراب حکمرانی مسائل کے حل کے لیے سیدھا راستا اختیار نہیں کرتی۔ زیادہ تر معاملات میں حل تب تک نہیں نکلتا جب تک ایک مضبوط سرپرست ان کا معاملہ نہ اٹھائے۔ ان کمزور لوگوں کے لیے اکثر و بیشتر منتخب نمائندے ہی واحد آسرا ہوتے ہیں۔ منتخب ارکان اپنا زیادہ تر وقت حلقے کے لوگوں کو درپیش مسائل کے حل کے لیے اپنے حلقے اور صوبائی و وفاقی دارالحکومتوں کے ایک سے دوسری دفتر کے چکر لگانے میں صرف کردیتے ہیں۔ اس کے علاوہ انہیں اپنے ہزاروں ووٹروں پر محیط حلقے میں ہونے والی شادیوں اور میتوں میں بھی شامل ہونا ہوتا ہے۔ افسوس کہ زیادہ تر ووٹر قانون سازی میں مؤثر کردار ادا کرنے کے لیے نہیں منتخب کرتے، بلکہ وہ ایسا شخص چاہتے ہیں جو ان کے انفرادی مسائل حل کرے اور مقامی ترقی کے لیے کام کرے۔ منتخب رکن خود سے وابستہ ان امیدوں کو ٹال کر اپنا مستقبل جوکھم میں ڈال سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پارلیمنٹ کے معاملات پسِ پشت رہ جاتے ہیں۔

یہ حالات پاکستانی پارلیمنٹ کے لیے اکلوتا سب سے بڑا چیلنج ہیں۔ اگر پارلیمنٹ کو پالیسی بحث و مباحثے اور سنجیدگی کے ساتھ انتظامیہ کے احتساب کے لیے مؤثر پلیٹ فارم بنانا ہے تو ان حالات کو ٹھیک کرنا ہوگا۔ کیا حالیہ بلدیاتی انتخابات قانون سازوں کو اپنا اصل کام کرنے دیں گے؟ یہ دیکھنا باقی ہے۔ تاہم دیرینہ تبدیلی کے لیے لوگوں میں اراکینِ اسمبلی کی ذمہ داریوں کے بارے میں آگاہی اور طرز حکومت میں بہتری دو اہم شرائط ہیں۔

لکھاری پاکستان انسٹیٹیوٹ آف لیجسلیٹو ڈویلپمنٹ اینڈ ٹرانسپیرنسی (پلڈاٹ) کے صدر ہیں۔

یہ مضمون ڈان اخبار میں 5 جنوری 2016 کو شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں