'سسٹم لوڈ نہیں اٹھا سکتا'

سمندری بگلے نہایت پھرتی کے ساتھ گھومتے پنکھوں کے درمیان سے پانی کے اندرغوطہ لگاتے، اور ان کی کائیں کائیں دیو ہیکل مشین کی آواز میں دب جاتیں۔

پن بجلی کا یہ منصوبہ انڈس ڈیلٹا پر گھارو کے قریب قائم ہے۔
پن بجلی کا یہ منصوبہ انڈس ڈیلٹا پر گھارو کے قریب قائم ہے۔

افواجِ پاکستان کے فلاحی ونگ فوجی فاؤنڈیشن کی جانب سے لگائے گئے یہ چالیس دیو قامت ٹاور کراچی کے ساحلی شہر سے کوئی 80 کلومیٹر دور شمال مشرق میں انڈس ڈیلٹا پر گھارو، ضلع ٹھٹہ میں 1,656 ایکڑ کے رقبے پر پھیلے ہوئے ہیں۔

پچاس، پچاس میگا واٹ والے یہ دو پروجیکٹس فاؤنڈیشن ونڈ انرجی کی ملکیت ہیں۔ ان میں سے ہر ایک پر 12.5 کروڑ ڈالر لاگت آئی ہے، جس میں سے 66 فیصد غیر ملکی قرضے ہیں اور 33 فیصد مقامی اداروں سے ادھار لیے گئے ہیں۔

بجلی کے مختلف منصوبوں کی تعمیر کے لیے درکار وقت
بجلی کے مختلف منصوبوں کی تعمیر کے لیے درکار وقت

اس وسیع و عریض رقبے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لیفٹننٹ کرنل (ر) حافظ مظفر حسین نے اسے "ایک بنجر زمین" کہا۔ وہ فاؤنڈیشن کے ان دو پروجیکٹس کے ہیڈ انجینیئر ہیں۔ انہوں نے دی تھرڈ پول سے منصوبوں کے دوران پیش آنے والی مشکلات اور انجینیئرنگ کے بارے میں گفتگو کی۔

بغیر سڑکوں کے اس علاقے تک سفر کرنا آسان کام نہ تھا اور جب اونچی لہریں اٹھتیں تو پانی کیمپ آفس تک آجاتا۔

پاکستان کا توانائی کی پیداوار کا قومی منصوبہ، 2030۔
پاکستان کا توانائی کی پیداوار کا قومی منصوبہ، 2030۔

"یہاں کی مٹی ایسی ہے کہ ہمیں کھمبوں کی بنیادیں ڈالنے کے لیے 32 میٹر گہری کھدائی کرنا پڑی اور پھر اسے 300 ٹن سیمنٹ اور 200 ٹن اسٹیل سے بھرنا پڑا تاکہ پن چکی کا وزن، ہوا کا دباؤ اور زلزلے کو برداشت کرسکے۔ سڑکوں کو زیرزمین نالوں کے ساتھ کئی فٹ اونچا بنانا پڑا تاکہ سمندری پانی سڑکوں کو خراب نہ کر سکے۔"

ونڈ فارم تک کوئی پختہ سڑک موجود نہیں ہے۔
ونڈ فارم تک کوئی پختہ سڑک موجود نہیں ہے۔

پلانٹ کے ترجمان نے بتایا کہ کسی زمانے میں یہاں تقریباً 800 افراد ملازم تھے، اور ان میں سے "زیادہ تر لوگ مقامی" تھے، لیکن اب جبکہ پلانٹ کام کر رہا ہے، تو اس کے لیے 20 سے 40 افراد سے زیادہ افراد درکار نہیں ہیں، اور ان میں سے اکثریت سکیورٹی اہلکاروں کی ہے۔

اب جبکہ فوجی فاؤنڈیشن نے راہ ہموار کر دی ہے تو دو مزید نجی سرمایہ کار بھاری مشینری کے ساتھ علاقے میں کیمپ لگائے نظر آئے۔ حسین نے بتایا کہ "جب ہم نے کام شروع کیا تھا تو سرمایہ کار کافی گھبراتے تھے۔ آج ان سرمایہ کاروں کی ایک لمبی لائن لگی ہے جو سب صاف توانائی چاہتے ہیں، ان میں سے کوئی آٹھ تو صرف ٹیکسٹائل انڈسٹری سے ہیں"۔

ترقیاتی بورڈ برائے متبادل توانائی (اے ای ڈی بی) کے مطابق اب تک ہوا سے بجلی پیدا کرنے کے چھ منصوبے موجود ہیں جن میں سے دو گھارو، اور چار جھمپیر میں ہیں۔ یہ کراچی سے بالترتیب تقریباً 85 اور 150 کلومیٹر دور شمال مشرق میں واقع ہیں اور قومی گرڈ کو 309 میگاواٹ بجلی فراہم کرتے ہیں۔

اے ای ڈی بی میں ونڈ پاور کے ڈائریکٹر انچارج نعیم میمن نے دی تھرڈ پول کو بتایا کہ "2018 کے اختتام تک سندھ 1,746 میگاواٹ توانائی ہوا کے ذریعے پیدا کررہا ہوگا"۔

اے ای ڈی بی کے مطابق ہوا سے بجلی پیدا کرنے کے 6 منصوبے موجود ہیں۔
اے ای ڈی بی کے مطابق ہوا سے بجلی پیدا کرنے کے 6 منصوبے موجود ہیں۔

حالانکہ وزارت برائے پانی و بجلی کے مطابق پاکستان کے پاس سندھ اور بلوچستان میں کل 1,046 کلومیٹر طویل ساحلی پٹی ہے لیکن فی الوقت پن چکیاں صرف سندھ کے 9,700 مربع کلومیٹر طویل ونڈ کوریڈور میں ہی لگائے گئے ہیں جہاں محکمہء موسمیات کے مطابق 43,000 میگاواٹ پن بجلی متوقع ہے اور قابل استعمال بجلی کی پیداواری صلاحیت کا تخمینہ 11,000 میگاواٹ ہے۔

2012 میں جب اس پروجیکٹ پر دستخط کیے گئے، تب فوجی فاؤنڈیشن نے ٹیرف 13.91 روپے فی یونٹ رکھا تھا. محض تین سال کی مختصر مدت میں یہ ٹیرف کم کر کے 10.9 روپے تک کردیا گیا ہے۔ حسین کو اس "لامحدود " ذریعے کا مستقبل خاصا روشن نظر آتا ہے، وہ کہتے ہیں، " آج سے دس سال بعد جب تمام قرضے ادا ہوجائیں گے، تو یہ شرح 6 روپے تک نیچے آجائے گی، یا ممکن ہے اس سے بھی کم ہوجائے۔"

بجلی کی پیداوار 12000 میگاواٹ ہے.
بجلی کی پیداوار 12000 میگاواٹ ہے.

ایشین ڈویلپمنٹ بینک (اے ڈی بی) کے ایم اسماعیل خان، جن کا ادارہ ان پروجیکٹس کا ایک اہم قرض دہندہ ہے، کا کہنا ہے کہ "پاکستان کے پاس صاف توانائی حاصل کرنے کی وسیع صلاحیت موجود ہے جس میں پانی، ہوا اور شمسی توانائی کے وسائل شامل ہیں۔ فی الوقت ملک میں70 فیصد بجلی درآمد شدہ ایندھن کے ذریعے پیدا کی جاتی ہے۔ یہ ملکی معیشت پرایک شدید بوجھ ہے۔ چنانچہ پن بجلی کے لیے بڑھتی ہوئی سرمایہ کاری ایک مثبت قدم ہے اور مختلف توانائیوں کے درمیان توازن کے لیے اہم ہے۔"

اے ڈی بی کے نزدیک توانائی معاشی پیداوار کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے اور وہ تجارتی نقصانات کو کم کرنے کے لیے بہتر لوڈ مینجمنٹ پر زور دے رہے ہیں۔

ٹرانسمیشن لائنز میں اتنی سکت نہیں کہ وہ مکمل پیداوار کا لوڈ اٹھا سکیں.
ٹرانسمیشن لائنز میں اتنی سکت نہیں کہ وہ مکمل پیداوار کا لوڈ اٹھا سکیں.

ملک میں بجلی کی پیداواری گنجائش 22,797 میگاواٹ ہے لیکن پیداوار 12,000 میگاواٹ سے زیادہ نہیں۔ حالیہ سالوں میں بجلی کی طلب 19,000میگاواٹ تک بڑھ گئی ہے۔

تقریباً 25 فیصد بجلی تقسیم کے غیرمؤثر سسٹم، ناقص ڈھانچے، بد انتظامی اور بجلی چوری کی وجہ سے ضائع ہوجاتی ہے اور ان تمام مسائل کے حل کی ضرورت ہے۔

پچھلے چند سالوں میں صنعتی شعبے میں بجلی کے بحران کی وجہ سے مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) کو تقریباً دو فیصد کا نقصان پہنچا ہے۔

پاکستان میں 11،000 میگاواٹ پن بجلی پیدا کی جا سکتی ہے. نقشہ بشکریہ یو ایس ایڈ.
پاکستان میں 11،000 میگاواٹ پن بجلی پیدا کی جا سکتی ہے. نقشہ بشکریہ یو ایس ایڈ.

ماہرِ موسمیات فہد سعید، جو اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے تھنک ٹینک سسٹین ایبل پالیسی ڈویلپمنٹ انسٹیٹیوٹ کے موسمیاتی تبدیلی یونٹ کے سربراہ ہیں، کا کہنا ہے کہ پاکستان کے پاس بین الاقوامی فنڈنگ سے فائدہ اٹھا کر صاف توانائی میں سرمایہ کاری کرنے کا اچھا موقع ہے اور وہ 2020 تک گرین کلائمیٹ فنڈ کے تحت ہر سال مختص کی گئی 100 ارب ڈالر کی فنڈنگ اور ٹیکنالوجی کی منتقلی سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔

سعید نے بتایا کہ جہاں تک فنڈنگ کا تعلق ہے، تو پاکستان کو دو چیلنجز کا سامنا ہے۔ ایک طرف تو "سب سے بڑا مسئلہ ملکی سکیورٹی صورتحال کا ہے جس کی وجہ سے غیرملکی سرمایہ کار یہاں آنے سے گھبراتے ہیں۔ دوسرا یہ کہ مقامی بینکوں کے پاس ایسے منصوبوں کو قرضہ دینے کی گنجائش کم ہے۔"

محض تین سالوں میں ٹیرف 3 روپے تک کم ہو گیا ہے، اور مزید کمی کی توقع ہے.
محض تین سالوں میں ٹیرف 3 روپے تک کم ہو گیا ہے، اور مزید کمی کی توقع ہے.

جہاں تک ٹیکنالوجی کی بات ہے تو پاکستان کو متبادل توانائی کے شعبے میں اپنی صلاحیتیں مقامی طور پر کی گئی ریسرچ کے ذریعے بڑھانی چاہیئں۔

فہد نے افسوس کا اظہار کیا کہ پاکستان کی کسی بھی یونیورسٹی یا تحقیقی ادارے کے پاس اتنی صلاحیت نہیں کہ ان چیلنجز سے اطمینان بخش حد تک نمٹ سکے۔

درآمد شدہ ساز و سامان اور ٹیکنالوجی کے ساتھ کام کرنا پن بجلی کے شعبے کے لیے ایک مشکل عمل ہے۔ گرڈ کے حوالے سے بھی کچھ مسائل درپیش ہیں۔

پروجیکٹ کے ترجمان نے بتایا کہ "بجلی کی پیداوار زیادہ ہے مگر ٹرانسمیشن لائنیں پرانی ہیں اور اتنا لوڈ نہیں اٹھا سکتیں"۔

اس کے نتیجے میں بجلی کی ترسیل میں رکاوٹیں آتی ہیں۔ نیشنل ٹرانسمیشن اینڈ ڈسپیچ کمپنی (این ٹی ڈی سی) جو واپڈا کے 41 گرڈ اسٹیشنز کے اور تقریباً 12,000 کلومیٹر طویل ٹرانسمیشن لائنز کے نیٹ ورک نیٹ ورک کو چلانے اور ان کی دیکھ بھال کی ذمہ دار ہے، نئی ٹیکنالوجی کا ساتھ دینے سے قاصر ہے، چنانچہ ضروری ہے کہ یہ اپنا کمزور اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار انفراسٹرکچر اپ گریڈ کریں۔

حسین نے کہا کہ "ہمیں یہ بتایا گیا تھا کہ سسٹم بیس دفعہ تک ٹرپ ہوسکتا ہے، لیکن صرف ایک سال میں سسٹم 200 بار ٹرپ ہوا!"۔ اس کا مطلب ہے کہ پلانٹ کو کئی بار بند کرنا پڑا۔

پاکستان بھر میں ٹرانسمیشن خسارے کی وجہ سے تقریباً %20 بجلی ضائع ہوجاتی ہے۔ نقشہ بشکریہ ایس ڈی پی آئی.
پاکستان بھر میں ٹرانسمیشن خسارے کی وجہ سے تقریباً %20 بجلی ضائع ہوجاتی ہے۔ نقشہ بشکریہ ایس ڈی پی آئی.
سب سے زیادہ لائن لاسز خیبر پختونخواہ، بلوچستان، اور سندھ میں ہیں. نقشہ بشکریہ ایس ڈی پی آئی.
سب سے زیادہ لائن لاسز خیبر پختونخواہ، بلوچستان، اور سندھ میں ہیں. نقشہ بشکریہ ایس ڈی پی آئی.

انہوں نے بتایا کہ "اس وقت صرف ایک 72 کلومیٹر طویل 132 کلو وولٹ کی ٹرانسمیشن لائن موجود ہے، حالانکہ دوسری لائن بھی موجود ہے، لیکن وہ ابھی فعال نہیں ہے"۔

این ٹی ڈی سی اس وقت سسٹم میں پن بجلی کو ضم کرنے سے متعلق مسائل کے حل پر کام کر رہا ہے، اور گھارو اور جھمپیر میں 220 کے وی ٹرانسمیشن لائن کے ساتھ گرڈ اسٹیشنز تعمیر کرنے کے منصوبے پر کام کر رہا ہے تاکہ ونڈ فارمز سے ٹنڈو محمّد خان تک بجلی کی بلاتعطل ترسیل ممکن ہوسکے۔"

این ٹی ڈی سی کے نمائندے افضل بلوچ کہتے ہیں کہ ابتدائی مرحلے میں، جس کی تکمیل 2016 کے آخر تک متوقع ہے، یہ منصوبہ 750 میگا واٹ تک کا لوڈ اٹھا سکے گا۔ ہم ایمرجنسی بنیادوں پر کام کر رہے ہیں۔"

مگر ماریہ وسیم، جو ایس ڈی پی آئی سے وابستہ الیکٹریکل انجینیئر ہیں، تب تک جب تک کہ این ٹی ڈی سی پرانے سسٹم کی اصلاح کرے اور نیا سسٹم لگائے، مائیکرو گرڈ کی صورت میں ایک بہتر "عملی حل" کی تجویز دیتی ہیں۔ مائیکرو گرڈز دراصل چھوٹے علاقوں کی سطح پر تعمیر کیے جاتے ہیں جوعموماً ایک آبادی بناتی ہے، جو خود ہی اپنی بجلی پیدا کرتی اور خود مختاری کے ساتھ اس کا انتظام سنبھالتی ہے۔

ماریہ وسیم کا کہنا ہے کہ اس تیزی سے بڑھتی ٹیکنالوجی کو اپنانے کے ساتھ ساتھ ہمیں اس پر آنے والی لاگت اور اس کی گنجائش کو بھی مدنظر رکھنا ہے جو کہ 30 فیصد سے 40 فیصد ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہوا سے پیدا کی جانے والی بجلی کوئلے سے چلنے والے بجلی گھروں کی طرح مستقل طور پر فراہم نہیں کی جاسکتی۔

ہوا سے پیدا کی جانے والی بجلی کوئلے سے چلنے والے بجلی گھروں کی طرح مستقل طور پر فراہم نہیں کی جاسکتی۔
ہوا سے پیدا کی جانے والی بجلی کوئلے سے چلنے والے بجلی گھروں کی طرح مستقل طور پر فراہم نہیں کی جاسکتی۔

ماریہ کے مطابق یہ اہم ہے کہ پاکستان اس بات کو یقینی بنائے کہ بجلی کے منصوبے زیادہ مہنگے نہ ہوں، اور ان کی وجہ سے توانائی پر سبسڈی اور گردشی قرضوں کا چکر نہ چل پڑے۔

"بنیادی مقصد یہ ہونا چاہیے کہ تمام صارفین کو مناسب قیمتوں پر بجلی دستیاب ہو۔"

— تصاویر بشکریہ لکھاری | یہ مضمون ابتدائی طور پر دی تھرڈ پول پر شائع ہوا، اور بہ اجازت یہاں دوبارہ شائع کیا گیا ہے۔


ذوفین ابراہیم فری لانس جرنلسٹ ہیں۔ انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: zofeen28@


ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دیے گئے تبصروں سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔