ابراہیم حیدری: کراچی کے مضافات میں جاگتی بستی

سمندر کے کناروں کے بھی اپنے درد ہیں، لہریں اور کنارے ہزاروں، لاکھوں صدیوں سے ایک دوسرے کے پڑوسی ہیں پر کبھی مل نہیں پائے۔ لہریں جانے کتنی دور سے کنارے کے لیے نکل پڑتی ہیں، کنارے تک پہنچنے کے لیے مگر یہ نصیبوں کا کھیل ہے کہ کنارے پر کون سی لہر پہنچتی ہے۔ اور یہ پہنچنا بھی کیا کہ یا کنارے پر وجود کھو دیا یا واپس لوٹ پڑیں، محض اس لیے کہ واپس لوٹنا ہے۔ یا یہ بھی ہے کہ سمندر کے کناروں کے نصیبوں میں لہروں کا سکھ لکھا ہی نہیں، بلکہ ویرانی تحریر کردی گئی ہے۔ بہت کم ایسے کنارے ہیں جن کے نصیبوں میں بستیوں کی دوستیاں تحریر ہیں۔

کراچی کے مغرب اور جنوب میں سمندر کے کنارے بستے ہیں۔ آپ اگر جنوب کی طرف چلے جائیں تو کورنگی کریک کے کنارے آپ کو ماہی گیروں کی ایک قدیم بستی "ابراہیم حیدری" ملے گی۔ اس بستی کی قدامت کے متعلق تاریخ کے صفحات ہمیں بتاتے ہیں کہ سکندر اعظم سے پہلے دارا اول نے 521 قبلِ مسیح میں یونانی سیاح 'اسکائی لیکس' کو ہندوستان کے حالات دیکھنے بھیجا تھا۔ اس زمانے میں دریائے سندھ کا ایک بہاؤ ابراہیم حیدری کے نزدیک سے بہہ کر سمندر میں گرتا تھا۔ ایچ۔ٹی لیمبرک نے جسے 'سکندری جنت' کا نام دیا ہے، ایرین کی تحریروں کے مطالعے کے بعد لگتا ہے کہ یہ علاقہ 'ریڑھی میان' اور 'کیماڑی' کے بیچ والا علاقہ تھا۔

ابراہیم حیدری، واگھو ڈر اور ریڑھی میان والا علاقہ انتہائی سرسبز اور شاداب تھا۔ لئمبرک ان جگہوں کو وٹیجی اور ابراہیم حیدری کے نام سے بلاتا ہے۔ گذری کریک جو ملیر ندی کا مہانہ (Estuary) ہے، وہ بھی کسی زمانے میں یہاں آ کر اس کریک سے ملتی تھی۔

ابراہیم حیدری میں ہر وقت سینکڑوں کشتیاں موجود رہتی ہیں.
ابراہیم حیدری میں ہر وقت سینکڑوں کشتیاں موجود رہتی ہیں.
ابراہیم حیدری میں ہر وقت سینکڑوں کشتیاں موجود رہتی ہیں.
ابراہیم حیدری میں ہر وقت سینکڑوں کشتیاں موجود رہتی ہیں.

پھر دریائے سندھ نے اپنا راستہ بدلا، اور گھارو کریک جو ابراہیم حیدری کے مشرق میں سے ہو کر بہتی اور سمندر میں جا گرتی تھی، وہ سوکھ گئی اور اس کے کنارے بسنے والے گھاٹ جیسے گذری، واگھوڈر، ریڑھی میان، ابراہیم حیدری اور رتوکوٹ ویران ہوگئے۔ زمانہ گذرا۔ تب سمندر نے دیکھا کہ راستہ ہے اور زمین سوکھی ہوئی ہے تو کیوں نہ اس کو تر کیا جائے۔ اور پھر جہاں مٹیالا شیریں پانی بہتا تھا، وہاں نمک اور چونے سے بھرا، آسمان جیسا سمندر کا نیلا پانی آگیا۔

موجودہ ابراہیم حیدری کی بستی ان دنوں میں بسی جب سندھ پر تالپور حکمرانوں کی حکومت تھی، جب نمک کا اونٹ ایک روپے میں ملتا، چاول کے چالیس سیر دس آنے میں آتے اور گندم کے ڈھائی من ایک روپے میں مل جاتے تھے۔ ان شب و روز میں ان کناروں پر کچھ ماہی گیر آکر رکے اور سمندر کے کناروں نے ان کو اپنے سحر میں ایسا جکڑا کہ یہیں کے ہو کر رہ گئے۔ پھر گھر بنے، گھروں کے آنگن بنے، ان آنگنوں کے سامنے پھیلا ہوا وسیع نیلا سمندر، سفید ریت، کنارے پر کھڑی بادبانی کشیاں، جال بنتے ماہی گیر۔

کہتے ہیں کہ سادگی اور ماہی گیری کا چولی دامن کا ساتھ ہے، اور یہ شاید اس لیے بھی ہے کہ جو قدرت کے سب سے طاقتور مظاہر میں سے ایک یعنی سمندر پر حکمرانی کرے، اسے اور کیا چاہیے، اور جہاں حاصلات کی سرحد ختم ہوتی ہے وہاں سے سادگی کے نخلستان شروع ہوتے ہیں۔ ابراہیم حیدری کا یہ نام دو درویشوں ابراہیم شاہ اور حیدر شاہ کی کرامات کی وجہ سے پڑا۔ ان بزرگوں کی آخری آرام گاہیں اس وقت ابراہیم حیدری میں موجود پاک فضائیہ کے اڈے کے اندر موجود ہیں۔

کشتی تیار کی جا رہی ہے.
کشتی تیار کی جا رہی ہے.
یہاں کے مقامی لوگ کشتیاں اور جال تیار کرنے میں مہارت رکھتے ہیں.
یہاں کے مقامی لوگ کشتیاں اور جال تیار کرنے میں مہارت رکھتے ہیں.
کشتی تیار کی جا رہی ہے.
کشتی تیار کی جا رہی ہے.

سادگی اب بھی ابراہیم حیدری کی گلیوں میں ایسے بستی ہے جیسے ساون بھادوں کی بارش البتہ صفائی، پانی کا نیلا رنگ، سفید ریت کے کنارے اب ماضی کے دنوں میں کہیں گم ہوگئے ہیں۔ اب ہزاروں آبادی والا وہ ابراہیم حیدری نہیں رہا، جب بجلی نہ ہونے کی وجہ سے شادیاں چاندنی راتوں میں رکھی جاتی تھیں۔

یہ بات مجھے ایوب شان خاصخیلی نے بتائی جو یہاں کا ایک سماجی کارکن ہے۔ "تب میں چھوٹا تھا پر مجھے اچھی طرح یاد ہے۔ بڑے سانگ ہوتے تھے شادیوں میں۔ شادی کا سامان خریدنے کے لیے عورتیں دو تین بیل گاڑیوں پر لی مارکیٹ، جوڑیا بازار اور کھارادر سے خریداری کرنے جاتیں۔ دوپہر کی روٹی بھی وہیں کھائی جاتی۔ پھر جب خریداری مکمل ہوجاتی تو لوٹتیں۔ لک کے پاس (پہاڑی سے جو گزرگاہ بنتی ہے اسے مقامی زبان میں لک کہتے ہیں) گاؤں کی عورتیں یہاں پر انتظار کرتیں کہ کب شادی کا سامان آتا ہے۔

"جیسے ہی آتی ہوئی بیل گاڑیوں پر نظر پڑتی، عورتیں لوک گیت گانا شروع کرتیں۔ اور پھر دولہے دلہن کے گھر تک گاتی چلتیں۔ شادی کی خوشی کی شیرینی ان لوک گیتوں سے ابل سی پڑتی۔ آبادی کم تھی تو شادیاں بھی کم ہوتی تھیں، اس لیے شادی کو بڑی اہمیت حاصل ہوتی۔ کیونکہ اس وقت تفریح کا اور کوئی وسیلہ نہیں تھا تو شادی جیسے میلہ ہوجاتی، جس کو دیکھو وہ خوش۔ پھر گنے چنے لوگ ہوتے، ہر کوئی ایک دوسرے کو پہچاننے والا۔" یہ بات بتاتے ہوئے ایوب شان کے چہرے پر وہ برسوں پرانی مسکراہٹ لوٹ آئی۔ ہم کتنے بھی بڑے ہو جائیں، دل تو بچہ ہی رہتا ہے نا۔

شکار سے واپسی پر کشتی میں مچھلیاں بھری ہوئی ہیں.
شکار سے واپسی پر کشتی میں مچھلیاں بھری ہوئی ہیں.
مچھلیوں کے علاوہ کیکڑے بھی بڑی تعداد میں شکار کیے جاتے ہیں.
مچھلیوں کے علاوہ کیکڑے بھی بڑی تعداد میں شکار کیے جاتے ہیں.
پکڑی گئی مچھلی کراچی اور ملک کے دیگر حصوں میں ترسیل کی جاتی ہے.
پکڑی گئی مچھلی کراچی اور ملک کے دیگر حصوں میں ترسیل کی جاتی ہے.
پکڑی گئی مچھلی کراچی اور ملک کے دیگر حصوں میں ترسیل کی جاتی ہے.
پکڑی گئی مچھلی کراچی اور ملک کے دیگر حصوں میں ترسیل کی جاتی ہے.

میں اس بستی کی گلیاں دیکھتا ماہی گیروں پر کام کرنے والی تنظیم 'پاکستان فشر فوک فورم' کے چیئرمین محمد علی شاہ کے گھر پہنچا۔ پانی اور چائے کے بعد میں نے شاہ صاحب سے پوچھا: "کیا واقعی یہاں کے کناروں پر سفید ریت ہوا کرتی اور سمندر کا پانی نیلا ہوا کرتا؟"

"بالکل۔ سمندر کا پانی اتنا صاف ہوا کرتا کہ اس میں سکہ پھینکتے تھے تو وہ نیچے جاتے ہوئے نظر آتا تھا اور جہاں تہہ میں گرتا وہ نظر آتا تھا، اور ہم غوطہ لگا کر وہ سکہ نکال لاتے سمندر سے۔ اور یہ کوئی اتنی پرانی بات بھی نہیں بلکہ 40 سے 45 برس پہلے کی حقیقتیں ہیں۔ جہاں اس وقت بجلی گھر بنا ہوا ہے، وہاں پر سفید چاندی جیسی ریت کے بڑے بڑے ٹیلے ہوتے تھے۔ ہوا سمندر کے کناروں سے ریت اڑا اڑا کر لے آتی اور بڑے ٹیلے بن جاتے۔ بجلی تو خیر یہاں 1970 میں آئی، مگر یہاں روشنی کے سوا کبھی بجلی کی ضرورت محسوس ہی نہیں ہوتی تھی۔ جون جولائی کے مہینوں میں بھی ہم رات کو رلی اوڑھتے تھے کیونکہ سمندر کا کنارا تھا اور جنوب کی کھلی ٹھنڈی ہوائیں لگتیں۔ پینے کے لیے کنوؤں کا میٹھا صاف پانی ہوتا تھا۔"

میں نے شاہ صاحب سے ایک اور سوال کیا: "کیا ابراہیم حیدری کا معاشرہ 'مادرانہ' معاشرہ ہے؟" جواب آیا: "بالکل، ابراہیم حیدری بستی کا معاشرہ یقیناً مادرانہ ہے اور اس کا اہم سبب یہ ہے کہ ماہی گیری مرد کرتا ہے جس کے لیے اکثر اسے سمندر میں رہنا پڑتا ہے، دنوں، ہفتوں اور کبھی تو مہینوں۔ تو ماہی گیر مرد زیادہ وقت گھر کو نہیں دے پاتا، اس لیے گھر کے متعلق فیصلے گھر کی عورت کو ہی لینے پڑتے ہیں، اور کیونکہ یہاں سارے آپس میں اکثر رشتے دار ہی ہیں، تو مرد کیے گئے فیصلوں پر اعتراض بھی نہیں کرتا۔ تو اس حوالے سے یہ کہتے ہوئے مجھے اچھا لگتا ہے کہ ہماری بستی کا معاشرہ مادرانہ معاشرہ ہے۔"

جال تیار کیا جا رہا ہے.
جال تیار کیا جا رہا ہے.
جال کی بنائی کا مکمل کام ہاتھوں سے کیا جاتا ہے.
جال کی بنائی کا مکمل کام ہاتھوں سے کیا جاتا ہے.

ابراہیم حیدری کی گلیوں میں گھومتے، لوگوں سے ماضی کی باتیں کرتے یہ بھی پتہ چلا کہ یہاں پاکستان کے مشہور اداکار مختلف فلموں کی شوٹنگ کے لیے آتے رہے۔ خاص کر 1964 میں اداکار شکیل اور رخسانہ کی فلم 'ناخدا' اور شبنم اور وحید مراد کی مشہور فلم 'سمندر' جو 1968 میں ریلیز ہوئی اس کی بھی ابراہیم حیدری کے صاف ستھرے سمندر کے کناروں پر مہینوں تک ان کی شوٹنگ ہوتی رہی۔ "ساتھی، تیرا میرا ساتھی ہے یہ لہراتا سمندر"، فلم سمندر کا یہ خوبصورت گیت کون بھول سکتا ہے۔ یہ گیت اگر آپ آج بھی سن لیں تو خون سمندر کی لہروں کی طرح جوش میں آجاتا ہے، اور یہ لوکیشن محض اس لیے چنی گئی کہ اس بستی کے کنارے صاف ستھرے اور خوبصورت تھے۔

میں نے اس بستی کا مختصر بازار دیکھا جہاں گٹکوں کی سرخی ہر جگہ تھی۔ مٹھائی اور چائے کی دکانیں تھیں۔ لوہار تھے جو کشتیوں کے لیے کیل، نٹ بولٹ، لنگر اور دوسرا لوہے کا سامان بناتے۔ بڑھئی تھے جو لکڑی کے تختوں کو اپنے حساب سے شکل دیتے اور چھوٹی بڑی کشتیوں کو بنانے میں مصروف تھے۔ پھر وہ کشتیاں جو بن کر مکمل ہوگئی تھیں، ان پر پھول بوٹے بنائے جا رہے تھے۔ گہرے اور تیز رنگ برش سے نکلتے اور لکڑی پر شکلیں بناتے جاتے۔

جال کی بنائی کا مکمل کام ہاتھوں سے کیا جاتا ہے.
جال کی بنائی کا مکمل کام ہاتھوں سے کیا جاتا ہے.
یہاں کے مقامی لوگ کشتیاں اور جال تیار کرنے میں مہارت رکھتے ہیں.
یہاں کے مقامی لوگ کشتیاں اور جال تیار کرنے میں مہارت رکھتے ہیں.

کچھ ماہی گیر تھے جن میں سے کچھ کشتیوں پر اور کچھ زمین پر کشتی کی چھاؤں میں جال بن رہے تھے۔ میں نے ان کی تصویریں بنائیں مگر وہ بنائی اور گانٹھ دینے میں اتنے منہمک تھے کہ میری ان کو پرواہ نہ تھی۔ اور ویسے بھی گانٹھیں دینا ہر ایک کے بس کی بات نہیں، اور وہ بھی کسی جال کی گانٹھیں، جو ایک دفعہ پڑ جائیں تو کبھی نہیں کھلتیں۔ کہتے ہیں وعدے اور گانٹھ میں فرق نہیں ہونا چاہیے، ایک دفعہ جو آگئی سو آگئی۔ سانس کی ڈوری چلی جائے، پر وعدے کی ڈوری کی گانٹھ نہ کھلے۔

کچھ کشتیاں شکار سے لوٹ آئی تھیں اور مزدور بڑی کشتی کے پیٹ سے مچھلیاں نکال رہے تھے۔ میں نے ایک کشتی کے مالک حاجی بابا سے پوچھا: "یہ اتنی مچھلی کتنے دنوں میں پکڑ لیتے ہیں آپ؟'' جواب میں حاجی بابا نے کہا: "شکار بیکار ہے۔ یہ نصیب اور سمندر پر ہے کہ کب مہربان ہوتا ہے۔ کبھی کبھی تو دس دن میں کشتی مچھلی سے بھر کر لوٹ آتے ہیں۔ کبھی کبھی تو بیس دن کے بعد بھی خرچہ تک نہیں نکلتا۔ اس لیے یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ جس طرح سانس کا کوئی بھروسہ نہیں، بس شکار بھی اس طرح ہی ہے۔"

لوگوں سے باتیں کرتے مجھے یہ بھی معلوم ہوا کہ ماہی گیر کبھی پیسوں کو سنبھال کر نہیں رکھتا۔ جیسے اس کے ہاتھ میں پیسے آتے ہیں، وہ ان کو کھانے پر اور چیزوں کی خریداری پر خرچ کر دیتا ہے۔ پوچھو تو کہے گا کہ "کل اللہ مالک ہے" اور پھر جب ہاتھ تنگ ہوجائے گا تو خریدی ہوئی چیزیں اونے پونے داموں فروخت کردے گا، اور پھر جیسے پیسے آئیں گے، پھر وہ ہی خریداری۔ سمندر سے لوٹنے والے ماہی گیروں کو میں نے مٹھائی کی دکان پر بہت میٹھا کھاتے ہوئے دیکھا۔ ہوسکتا ہے اس کی کوئی سائنسی وجہ ہو؟

جال کی بنائی میں بچے، بوڑھے، مرد اور عورتیں سب ہی حصہ لیتے ہیں.
جال کی بنائی میں بچے، بوڑھے، مرد اور عورتیں سب ہی حصہ لیتے ہیں.
لوہے کی اشیا بھی مقامی طور پر تیار کی جاتی ہیں.
لوہے کی اشیا بھی مقامی طور پر تیار کی جاتی ہیں.

ابراہیم حیدری کی گلیاں کبھی نہیں سوتیں، نہ گرمیوں میں، نہ سردیوں میں، نہ دن میں نہ رات میں۔ آپ رات کے کسی بھی وقت اس بستی کے بازار میں جائیں، آپ کو لوگ جیٹیوں کی طرف جاتے ہوئے ملیں گے، اور وہاں سے آتے ہوئے ملیں گے۔ یہاں کے ہوٹل، بیکریاں اور مٹھائی کی دکانیں ساری رات کھلی ہوتی ہیں۔ یہ ایک جاگتی بستی ہے۔

کچھ خاندانوں کی آبادی سے آغاز کرنے والی یہ بستی جس کی ابتدائی دنوں میں آبادی ہزاروں میں تھی، اب ایک لاکھ سے بڑھ گئی ہے۔ اب 'علو ناکھؤ' کا ہوٹل نہ جانے کب کا ویران ہو چکا، جو ماضی کے دنوں میں یہاں کے لوگوں کے فیصلوں اور ہنسی مذاق کا مرکز ہوا کرتا۔ سمندر کے خوبصورت کناروں پر اب جیٹیاں بن گئی ہیں اور سفید ریت نام کی اب یہاں کوئی نشانی نہیں بچی۔ بس کالی کیچڑ والی سیاہ مٹی اور گند کچرہ ہے۔ سمندر کا نیلا پانی بھی اب ماضی کے ان دنوں میں سمٹ کر رہ گیا ہے جن کو یہاں کے لوگ اب یاد کرتے ہیں۔

مجھے تو یہ دن بھی غنیمت لگتے ہیں کہ اب تک ان گلیوں میں گزرے ہوئے دنوں کی باتیں اور یادیں سننے کو ملتی ہیں اور بڑے احترام اور پیار سے ان گزرے دنوں کو یاد کیا جاتا ہے۔ جس رفتار سے سمندر میں شہروں اور انڈسٹری کا اخراج ہو رہا ہے، سمندر میں کثافت بڑھ رہی ہے اور لوگوں کی آبادی میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے، وہ اس بستی سے اس کا کلچر چھین لے گا، اور شاید وہ وقت اب بہت دور نہیں ہے۔

— تصاویر بشکریہ لکھاری


ابوبکر شیخ آرکیولاجی اور ماحولیات پر لکھتے ہیں۔ انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر کے لیے فوٹوگرافی اور ریسرچ اسٹڈیز بھی کر چکے ہیں۔ ان کا ای میل ایڈریس [email protected] ہے۔


ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دیے گئے تبصروں سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔